Tafseer-e-Haqqani - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک بنا لیا حالانکہ وہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اس کے لئے بےسمجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی گھڑلیں۔ وہ ان باتوں سے جو وہ بناتے ہیں پاک اور بالاتر ہے۔
ترکیب : الجن جعلوا کا مفعول اول شرکاء مفعول ثانی ‘ للّٰہ شرکاء سے متعلق ہے۔ بغیر علم فاعل خرقوا سے حال ہے۔ بدیع السموات خبر ہے مبتداء محذوف کی ذلکم مبتداء اللّٰہ خبر۔ تفسیر : تمام عالم نباتات سے لے کر فلکیات تک کو خاص اپنا پیدا کیا ہوا ثابت کرکے اور تمام عالم میں اپنا ہی تصرف و قبضہ کرکے ان بیوقوف مشرکوں پر طعن وتشنیع کرتا ہے جنہوں نے جنوں کو یا اور شخصوں کو اس کا شریک بنایا تھا یا اب بھی بناتے ہیں۔ عرب کے بعض فرقے ان چیزوں کو جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں ملائکہ اور ارواح خبیثہ یا خاص جنوں کو (چونکہ یہ چیزیں نظر نہیں آتیں اس لئے ان سب پر لفظ جن کا اطلاق ہوتا ہے) پوجتے اور ان کے نام کی بوقت مصیبت دہائی دیتے اور ان کو عالم میں کارکن اور متصرف سمجھتے تھے اور آتش پرستوں کی بھی اطراف یمن میں حکومت تھی۔ وہ بھی برتقلید زردشت اس عالم کے دو خدا مستقل مانتے تھے۔ خیر کے خالق کو یزدان ظلمات اور شر کے خالق کو اہرمن کہتے تھے۔ یزداں کی فوج ملائکہ اور اہرمن یعنی ابلیس کی فوج کو شیاطین و جن قرار دیتے تھے اور ان میں جنگ وجدال کے قائل تھے۔ ادھر نجران وغیرہ علاقوں میں نصاریٰ تھے جو حضرت مریم [ کو خدا کی بیوی اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اس کا بیٹا کہتے تھے۔ یہ بھی بڑا شرک ہے۔ ان سب کے رد میں فرماتا ہے کہ بغیر سمجھے انہوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھہرایا اور اس کے لئے بیٹیاں بھی گھڑ لیں کہ عیسائیوں نے بیٹا اور مشرکین عرب نے ملائکہ کو بیٹیاں کہا۔ سبحانہ و تعالیٰ عمایصفون خدا ان کی خانہ ساز باتوں سے پاک ہے۔ پھر اس پر چند دلائل ذکر فرماتا ہے : (1) بدیع السموات والارض کہ وہ بغیر کسی نمونہ کے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے یعنی جو کچھ موجود ہے اس کا بنایا ہوا ہے۔ پھر وہ اہرمن کون ہے اور اس نے کیا بنایا ہے۔ وہ کیا اس کی مخلوق سے باہر ہے اور ایسے قادر مختار کو بیٹے بیٹیوں کی کیا ضرورت ہے ؟ جو وہ ہیں تو بتلائو۔ انہوں نے کونسا آسمان کونسی زمین اور کیا پیدا کیا ہے ؟ (2) انی یکون لہ ولد ولم تکن لہ صاحبۃ کہ وہ قدیم اور مستغنی ہے۔ اس کو بیوی کی کیا ضرورت ہے اور جب بیوی نہیں بچے اور اولاد کیسی ؟ (3) وہ ان سب چیزوں کا خالق ہے اور والد خالق نہیں ہوتا وخلق کل شیء اگر وہ خالق نہیں تو یہ اولاد حادث ضرور ہے۔ پھر محدث یا خالق کون ہے ؟ پھر اپنے چند وہ اوصاف بیان کرتا ہے کہ جن سے اس کا ان ذمائم سے پاک ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اول وھو بکل شیء علیم کہ ہر چیز کا اس کو علم ہے۔ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ بات اوروں میں کہاں ہے۔ دوم وھو علی کل شیء وکیل کہ وہ واجب الوجود ہے سب کا سلسلہ احتیاج اس کی طرف تمام ہوتا ہے۔ وہی سب کا محافظ و حاجت روا ہے۔ سوم لاتدر کہ الابصار کہ اس کو اس عالم حسی کی آنکھ جو محسوسات کے ادراک کے لئے مخصوص ہے دیکھ نہیں سکتی لیکن وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ یہاں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عالم قدس میں خدا تعالیٰ کا بندوں کو دیدار نہ ہوگا۔ علاوہ اس کے ادراک کی نفی ہے جو کنبہ پر موقوف ہے نہ رؤیت کی جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔
Top