Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 88
فَاَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
فَاَمَّآ : پھر اگر اِنْ كَانَ : اگر ہے وہ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ : مقربین میں سے
پھر اگر وہ مقربین میں سے ہے
ترکیب : فروح جواب فاما جواب ان مستغنی عنہ بجواب اما وا التقدیر فلہ روح قراء الجمہور بفتح الراء وقریٔ بالضم فالفتح مصدر والضم اسم لہ وقیل بالفتح معناہ الراحۃ بالضم معناہ الرحمۃ مجازاً العلاقۃ السببیۃ لانھا کالسبب لحیوۃ المرحوم ریحاناصلہ ریوحان علیٰ فیعلان قلبت الواویاء وادغم ثم خفف مثل سیدو سیدوقیل ھو فعلان قلبت الواویاء دان سکنت والفتح ماقبلھا۔ (ابن الصائغ) تصلیۃ بالرفع عطفا علی نزل وبالجر عطفا علی صمیم حق الیقین ای حق خبرالیقین فالموصوف محذوف الصفۃ قائمۃ مقامہ۔ تفسیر : تینوں گروہوں کا بعد موت کے جو حال ہوتا ہے اس کو بیان فرماتا ہے یعنی جب کہ روح جسم کو چھوڑ کر دوسرے عالم میں جاتی ہے نیست و نابود نہیں ہوجاتی نہ وہ دنیا کے تنگ میدانوں میں تناسخ کے ذریعے سے اجسام مختلفہ کے لباس پہن کر ٹھوکریں کھاتی ہے بلکہ فاما ان کان من المقربین یعنی سابقین میں سے ہے تو اس کے لیے روح وریحان 1 ؎ و جنت نعیم۔ عیش و عمدہ روزی اور نعمتوں کے بھرے پرے باغ ہیں۔ باغ و بہار اور خوشبوئیں اور بہشت میں ہر قسم کی شادمانی نصیب ہوتی ہے۔ واماان کان من اصحاب الیمین اور اگر اصحاب الیمین میں سے ہے تو فسلام لک من اصحاب الیمین تو تجھے اے محمد ﷺ یا اے مخاطب ! ان کی طرف سے سلام یعنی سلامتی ہے رنج و غم سے ان کا ایسا عمدہ حال ہوگا کہ جس کو دیکھ کر تجھے رنج و غم نہ ہوگا وہ عذاب سے سالم و محفوظ ہوں گے یا یہ معنی کہ وہ ایسے خوش حال میں ہو گے کہ وہاں خوش ہو کر تجھ پر سلام بھیجیں گے یا یہ کہ اے صاحب الیمین تجھے تیرا دوسرا بھائی سلام کرے گا یعنی آپس میں خوش وخرمی میں ایک دوسرے سے سلام علیکم کہے گا جیسا کہ عید وغیرہ خوشی کے دنوں میں باہم ملتے اور سلام کیا کرتے ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ فرشتہ اللہ کی طرف سے اس کو سلام کرے گا اور خبر دے گا تو اصحاب الیمین میں سے ہے 1 ؎۔ (اھل سعادت) واماان کان من المکذبین الضالین اور اگر وہ اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے یعنی اصحاب الشمال (مگر اصحاب الشمال کو ان الفاظ سے اس لیے ذکر کیا تاکہ معلوم ہو کہ یہی بدخصلت ان کو اس عذاب میں لائی ہے فنزل من حمیم تو اس کی مہمانی اور ضیافت کھولتا ہوا پانی و تصلیۃ جحیم اور آگ میں ڈالا جانا ہے یعنی وہ زقوم کھانے کے بعد کھولتا پانی پئے گا اور آگ میں ڈالا جائے گا۔ اس کی ضیافت اور مہمانی یہ ہے اور یہ اس کے لیے سامان مہمانی تیار ہیں جانے ہی کی دیر ہے۔ ہائے بہت لوگ دنیا میں بدکاری و کفر میں گرفتار ہیں اور ان کو ہر قسم کی کامرانی اور عیش اور دنیاوی عزت و جاہ بھی ہے اور اپنے لیے بڑے بڑے سامان دوام کے لیے کر رہے ہیں کہ یکایک موت آئے گی۔ صبح دنیا کی ان شادمانیوں میں تھا شام سے پہلے اس عالم میں ان بلائوں میں گرفتار ہوگیا اور ایسے بھی ہیں کہ نیک و باخدا ہیں گردنیاوی تکالیف تنگدستی، بیماری، خواری، بیکسی، غربت میں گرفتار۔ موت آگئی دوسرے عالم میں سلطان و کامران ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک دولت مند اور ایک معذور نامی محتاج و بیمار کا انجام کار بیان فرمایا کہ دولت مند دوزخ میں گیا اور وہ محتاج جو اس کی ڈیوڑھی پر اس کے بچے ہوئے ٹکڑوں کی آرزو کیا کرتا اور کتے اس کے زخم چاٹا کرتے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گود میں بیٹھا ہوا اس کو نظر آیا اور التجا کی کہ کاش عزیز اپنی انگلی کا سرا بھگو کر میرے منہ میں ٹپکا دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا یہ نہ ہوگا تو دنیا میں مزے اڑا چکا وہ تکلیف پا چکا تیرے اس کے درمیان جہنم کا گڑھا ہے یہ تیرے پاس بھی نہیں آسکتا (انجیل۔ لوقا۔ 1 باب) یہ باتیں بظاہر اہل دنیا کے خیال میں نہیں آتیں اس لیے فرماتا ہے ان ھذالہوحق الیقین کہ یہ مذکور یقینی ہے۔ پھر دارآخرت کے توشہ حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے فسبح باسم ربک العظیم کو اس کے بزرگ و برتر نام کی تقدیس و تسبیح کیا کر۔ یہی آخرت کا بڑا ذخیرہ ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ وہ جھوٹ بولنے سے پاک ہے جو کچھ فرمایا حق ہے۔ کس موقع پر کلام کو تمام کیا ہے کہ جس کا لطف بیان سے باہر ہے۔ 1 ؎ بعض پاک لوگوں کو خواب یا مکاشفہ میں دارآخرت کے یہ حال جو مرنے کے بعد پیش آتے ہیں دکھائے بھی جاتے ہیں جس سے وہ دنیا ان کی آنکھوں میں گردوسرد ہوجاتی ہے اور وہ اس جگہ کے مشتاق رہتے ہیں یہاں ان کا کسی حال میں دل نہیں لگتا اور خواب میں بھی آ کر بعض نے یہ کیفیت بیان کردی ہے۔ 1 ؎ الریحان الرزق میں الجنۃ قالہ مجاہد مقاتل وقیل رزق بلغۃ الحمیر وقال الحسن ھوالریحان المعروف الذی یشم۔ 12 منہ
Top