Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ
: تمہیں وصیت کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَوْلَادِكُمْ
: تمہاری اولاد
لِلذَّكَرِ
: مرد کو
مِثْلُ
: مانند (برابر
حَظِّ
: حصہ
الْاُنْثَيَيْنِ
: دو عورتیں
فَاِنْ
: پھر اگر
كُنَّ
: ہوں
نِسَآءً
: عورتیں
فَوْقَ
: زیادہ
اثْنَتَيْنِ
: دو
فَلَھُنَّ
: تو ان کے لیے
ثُلُثَا
: دوتہائی
مَا تَرَكَ
: جو چھوڑا (ترکہ)
وَاِنْ
: اور اگر
كَانَتْ
: ہو
وَاحِدَةً
: ایک
فَلَھَا
: تو اس کے لیے
النِّصْفُ
: نصف
وَلِاَبَوَيْهِ
: اور ماں باپ کے لیے
لِكُلِّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کے لیے
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
السُّدُسُ
: چھٹا حصہ 1/2)
مِمَّا
: اس سے جو
تَرَكَ
: چھوڑا (ترکہ)
اِنْ كَانَ
: اگر ہو
لَهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ يَكُنْ
: نہ ہو
لَّهٗ وَلَدٌ
: اس کی اولاد
وَّوَرِثَهٗٓ
: اور اس کے وارث ہوں
اَبَوٰهُ
: ماں باپ
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
الثُّلُثُ
: تہائی (1/3)
فَاِنْ
: پھر اگر
كَانَ لَهٗٓ
: اس کے ہوں
اِخْوَةٌ
: کئی بہن بھائی
فَلِاُمِّهِ
: تو اس کی ماں کا
السُّدُسُ
: چھٹا (1/6)
مِنْۢ بَعْدِ
: سے بعد
وَصِيَّةٍ
: وصیت
يُّوْصِيْ بِھَآ
: اس کی وصیت کی ہو
اَوْ دَيْنٍ
: یا قرض
اٰبَآؤُكُمْ
: تمہارے باپ
وَاَبْنَآؤُكُمْ
: اور تمہارے بیٹے
لَا تَدْرُوْنَ
: تم کو نہیں معلوم
اَيُّھُمْ
: ان میں سے کون
اَقْرَبُ لَكُمْ
: نزدیک تر تمہارے لیے
نَفْعًا
: نفع
فَرِيْضَةً
: حصہ مقرر کیا ہوا
مِّنَ اللّٰهِ
: اللہ کا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اللہ تم کو تمہاری اولاد (کے حصہ) کی بابت (یہ) حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے پھر اگر (نری) لڑکیاں (دو یا) دو سے زیادہ ہوں تو ان سب کے لئے ترکہ کی دو تہائی ہیں اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ترکہ ہے اور اگر میت کے کوئی اولاد بھی ہو تو میت کے ماں باپ ہر ایک کے لئے ترکہ کا چھٹا حصہ ہے۔ پھر اگر میت کے کوئی بھی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی وارث ہوں تو میت کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی باپ کا) اور اگر میت کے لئے اولاد نہ ہونے کی صورت میں بھائی ہوں تو (میت کی) ماں کا چھٹا (حصہ) ہے۔ یہ تقسیم میت کی وصیت پوری کرنے اور ادائے قرض کے بعد ہے۔ تم کو اپنے باپ (دادا) اور بیٹوں (پوتوں) میں سے نہیں معلوم کہ ان میں سے تمہیں زیادہ نفع دینے والا کون ہے ( یہ حصوں کا) تقرر اللہ کی طرف سے ہے۔ بیشک اللہ (سب کچھ) جانتا ہے۔ ہر ایک بات کی حکمت سے واقف ہے
ترکیب : للذکر الخ جملہ موضع نصب میں ہے بسبب یوصی کے فان کن ای المتروکات نساء موصوف ‘ فوق اثنتین صفت سب خبر فلہن جواب شرط من بعد وصیتہ الخ جملہ موضع حال میں ہے السدس سے تقدیرہ مستحقامن بعد وصیتہ والعامل الظرف۔ اباء کم وابناء کم مبتداء لا تدرون جملہ خبر پھر ایہم مبتداء اقرب لکم ممیز نفعا تمیز مجموعہ خبر۔ فریضۃ مصدر ہے فعل محذوف کا اے فرض ذلک فریضۃ وان کان تامہ رجل فاعل وامرائۃ اس پر معطوف ہے۔ یورث صفت ہے رجل کی اور کلالۃ حال ہے ضمیر یورث سے اور اگر کان ناقصہ مانا جاوے تو رجل موصوف یورث صفت معطوف علیہ او امراۃ معطوف سب اسم کان کلالۃ خبر بعض کہتے ہیں کلالۃ اسم ہے مال موروث 1 ؎ میت کی کوئی اولاد بھی ہو بیٹا پوتا وغیرہ۔ 2 ؎ باقی کے بھائی وارث ہیں۔ 12 منہ کاتب نصب کلالۃ کا اس وجہ سے ہوگا کہ یہ مفعول ثانی ہوگا یورث کا ‘ کما تقول ورث زید مالا بعض کہتے ہیں کلالۃ ان وارثوں کو کہتے ہیں کہ جن کے نہ ولد نہ اولاد ہوں نہ ماں باپ دادا وغیرہ تب حذف مضاف مانا جاوے گا۔ وَلَہٗ ضمیر میت کی طرف راجع ہے یا موروث کی طرف کہ جس میں رجل و امراۃ دونوں شریک ہیں۔ غیر مضار حال ہے فاعل یوصی سے وصیۃ مصدر ہے فعل محذوف کا۔ تفسیر : یہ آیت سابقہ کی تفصیل ہے۔ واضح ہو کہ جاہلیت میں دو سبب سے وراثت جاری ہوتی تھی۔ ایک نسب دوسرا عہد۔ نسب میں بھی وہ لوگ ان لوگوں کو حصہ دیتے تھے جو میت کی طرف سے نیزہ لے کر لڑ سکتے تھے۔ اس لئے عورتوں اور چھوٹے لڑکوں کو حصہ نہ دیتے تھے اور عہد دو طرح پر ہوتا تھا۔ ایک یہ کہ کوئی شخص کسی کو یہ کہہ لیتا تھا کہ میری جان تیری جان اور میرا خون تیرا خون۔ میں تیرا وارث تو میرا وارث۔ سو اس کے روبرو بھائی بیٹے کسی کو بھی ورثہ نہیں ملتا تھا۔ دوسرا یہ کہ کسی کو متبنی یعنی بیٹا بنا لیتے تھے جیسا کہ ہنود میں رواج ہے سو وہی وارث ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مبعوث ہوئے تو ابتداء میں اس رسم و دستور کو بحال خود رہنے دیا پھر مدینہ میں آکر کچھ دنوں ہجرت اور مواخات یعنی بھائی چارہ پر وراثت قائم ہوئی یعنی جب کوئی صحابی ہجرت کرکے آتا تھا ٗ دوسرا مہاجر اس کا حصہ پاتا تھا اور کو نہیں ملتا تھا اور مواخات یہ کہ آنحضرت ﷺ دو شخصوں میں بھائی چارہ کرا دیتے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کا وارث ہوتا تھا مگر اس کے بعد دین اسلام میں توریث کا دار و مدار تین چیزوں پر رہا۔ ایک نسب دوسرا نکاح تیسرا ولاء مسائل وراثت : پھر نسب کی بھی چند قسم ہیں (اول) میت کی اولاد ہے کیونکہ اعانت اور کارگذاری انسان کی جس قدر اس کی اولاد کرتی ہے اور کوئی نہیں کرتا۔ عادتاً اس عمر میں ماں باپ تو زندہ رہتے ہی نہیں اور بھائی وغیرہ اقارب اپنی اپنی اولاد کی پرورش اور اپنے اپنے دھندے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس لئے بقدر مشقت سب سے زیادہ ان کا حصہ قرآن میں قرار پایا۔ پھر اولاد کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بیٹے اور بیٹیاں ملے جلے ہوں۔ عام ہے کہ اور وارث بھی ہوں یا نہ ہوں۔ اگر اور بھی ہیں تو ان کا حصہ دے کر اور اگر نہیں تو کل مال کو للذکر مثل حظ الانثیین (یعنی دو حصہ مرد کے اور ایک عورت کا) کے موافق تقسیم کرلیں۔ چونکہ جس قدر کارگزاری اور اعانت بیٹا کرسکتا ہے اسی قدر بیٹی ضعیف العقل ضعیف القویٰ نہیں کرسکتی۔ علاوہ اس کے یہ تو کسی مرد سے نکاح کرکے اپنے خرچ کا ذمہ دار اس کو کر دے گی۔ بیٹے کو یہ بات کب نصیب ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے ہر قوم میں بیٹا باپ کا جانشین قرار دیا جاتا ہے نہ بیٹی۔ اس حکمت سے بیٹے کو دو حصہ بیٹی کو ایک حصہ دلایا یعنی حصہ کرکے ایک حصہ بیٹی کو دو بیٹے کا۔ دوم یہ کہ دو سے زیادہ کئی لڑکیاں ہوں اور بیٹا نہ ہو اس کے لئے فرماتا ہے فان کن نساء فوق اثنتین فلہن ثلثا ماترک کہ کل مال کے تین حصہ کرکے دو حصہ بیٹیوں کو دے دیں۔ وہ اس کو باہم برابر حصہ کرکے بانٹ لیں۔ خود دو ہوں یا ان سے زیادہ ہوں اور ایک حصہ اور وارثوں کو دے دیا جاوے۔ قرآن میں فوق اثنتین کا لفظ ہے جس سے ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اگر صرف دو لڑکیاں ہوں تو ان کو بھی نصف ملے گا۔ کس لئے کہ فوق اثنتین کے معنی جو مشروط تھے نہ پائے گئے مگر جمہور کے نزدیک دو بیٹیاں بھی تین کا حکم رکھتی ہیں اور اِنْ شرطیہ سے یہ بات نہیں ثابت ہوتی کہ دو سے زیادہ نہ ہوں تو ان کو دو ثلث نہ ملیں اور احادیث صحیحہ اور دلائلِ آیات قرآنیہ بھی جمہور کے مؤید ہیں۔ سوم یہ کہ صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو کل مال کا نصف یعنی آدھا 1 ؎ پہنچے گا۔ وان کانت ؎ شیعہ اس جگہ حضرت ابوبکر ؓ پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فاطمہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کے مال میں سے نصف کیوں نہ دیا ؟ اس کا اصل جواب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بوقت اخیر کوئی مال نہیں چھوڑا تھا نہ جائیداد منقولہ نہ غیر منقولہ اور نہ پیغمبر ﷺ کی یہ شان تھی کہ وہ نبوت و رسالت کو دنیاوی مال کا ذریعہ بناتے اور نہ کسی اولو العزم رسول نے کوئی مال چھوڑا جو کچھ ان کو مل بھی گیا تو ضرورتوں اور مہمانوں اوراقرباء کے لئے وقف کردیا واحدۃ فلہا النصف۔ چہارم یہ کہ صرف ایک ہی بیٹا ہو۔ اس کو کل مال ملے گا کیونکہ جب ایک لڑکی کو نصف ملتا ہے اور مرد کا حصہ عورت سے دو چند ہے تو خواہ مخواہ اس کو کل ملے گا کس لئے کہ دو نصف کے جمع کرنے سے کل ہوجاتا ہے اور اسی پر اجماع امت بھی ہوگیا ہے۔ پنجم یہ کہ کئی بیٹے ہوں ان کا حکم ظاہر ہے وہ اور وارثوں کا حصہ دے کر جس قدر بچے گا برابر تقسیم کرلیں گے۔ نسب کی دوسری قسم انسان کے ماں باپ ہیں۔ ہرچند ماں باپ کا درجہ اور ان کے حقوق اولاد سے کہیں زیادہ ہیں مگر جب آدمی صاحب اولاد ہو کر مرتا ہے تو عادتاً اس عمر میں ماں باپ بڈھے ہوجاتے ہیں جن کی عمر کا کسی قدر حصہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس لئے ان کو مال کی کم ضرورت ہے۔ دوم ان کے پاس ان کا اندوختہ اور اپنے ماں باپ کا زائد حصہ بھی موجود ہوتا ہے۔ برخلاف میت کی اولاد کے کہ ان کا سرمایہ تو سردست یہی باپ کی کمائی ہوتی ہے۔ اس لئے ماں باپ کا حق بہ نسبت اولاد کے کم قرار پایا اور اسی لئے اس کو اس کے بعد میں بترتیب ذکر کیا۔ والدین میت کے تین حال ہیں (1) یہ کہ ان کے ساتھ میت کی کوئی اولاد بھی ہو مثلاً زید مرا اور اس نے ماں باپ اور اولاد پیچھے چھوڑی تو اس صورت کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتا ہے ولا بویہ لک واحد منہا السدس مما ترک ان کان لہ ولد کہ کل مال کے چھ حصے کرکے ایک حصہ ماں کو ایک باپ کو ملے گا باقی چار حصوں کو اولاد بانٹ لے گی۔ ولد میں میت کا بیٹا اور بیٹی دونوں آگئے۔ پھر اگر صرف ایک بیٹا ہے تو یہ چاروں کا حصہ لے گا اور اگر کئی ہیں تو باہم برابر بانٹ لیں گے اور اگر بیٹے اور بیٹیاں ہیں تو دوہرا حصہ بیٹا اور اکہرا حصہ بیٹی کو دے کر تقسیم کریں گے اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو آدھا مال وہ لے گی اور حصے کے سوا جو کچھ بچے گا اس کو بھی باپ ہی عصبہ بن کرلے گا۔ اور اگر دو بیٹیاں ہیں یا زیادہ تو دو ثلث وہ لیں گے اور ماں باپ کو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اب (2) ام بنت یہ کہ سوائے ماں باپ کے میت نے اور کوئی وارث نہیں چھوڑا۔ اس صورت میں کل مال کے تین حصہ کرکے ایک ماں کو اور باقی باپ کو ملیں گے جیسا کہ فرماتا ہے فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابواہ فلامہ الثلث گرچہ باپ کے حصہ کی شرح نہیں کی مگر دلالۃ سے سمجھا جاتا ہے کہ ثلث کے بعد جو کچھ ہے باپ کا ہے اور وارث تو کوئی ہے نہیں۔ پھر اگر اور وارث بھی ہو یعنی خاوند عورت کا اور خاوند کی بیوی مثلاً ایک شخص مرا۔ اس نے اولاد تو کچھ نہ چھوڑی مگر بیوی اور ماں باپ چھوڑے یا ایک عورت لاولد مری اس نے خاوند تھا۔ فدک میں جو کچھ زمین تھی وہ وقف علی الاقارب تھی۔ اگر یہ روایات جو خبر احاد ہیں جن کا ظن سے زیادہ مرتبہ نہیں تسلیم بھی کرلی جائیں تو ممکن ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو وراثت کا خیال پیدا ہوا ہو مگر اصل حقیقت ابوبکر رازدار رسول خدا ﷺ سے سن کر خاموشی اختیار فرمائی اور دم اخیر تک کلام نہ کیا مگر ابوبکر ؓ بھی غصب کرکے جیسا کہ معترض کہتا ہے اپنے تصرف میں نہ لائے اور نہ اپنی اولاد کو دے گئے کہ جن میں سے ایک لڑکی رسول خدا ﷺ کی بیوی تھیں جن کو میراث میں سے بھی کچھ حصہ مل سکتا تھا مگر بدستور آنحضرت ﷺ کے اقارب کو اس کی آمدنی دیتے رہے۔ پھر عمر و عثمان بلکہ علی کی خلافت میں بھی اسی پر عمل درآمد رہا۔ اپنی خلافت میں خود علی ؓ نے بھی اس زمین کو حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد کو نہ دیا ورنہ ردّ مظالم امام برحق کا فرض منصبی تھا حضرت حسن ؓ نے اپنی خلافت میں اس پر مالکانہ تصرف فرمایا۔ یوں ابوبکر پر طعن کرنے کے لئے مخالف اس واقعہ کی برے پیرایہ میں تصویر کھینچتا ہے تو اس کو اختیار ہے مگر وہ پیغمبر خدا ﷺ اور فاطمہ ؓ پر بھی در پردہ طعن کر رہا ہے بلکہ حضرت علی اور حسن ؓ پر بھی معاذ اللہ۔ 12 منہ اور ماں باپ چھوڑے اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے کیونکہ آیت میں اس کی کچھ تصریح نہیں۔ اکثر صحابہ ؓ کہتے ہیں پیشتر خاوند اپنا چوتھاحصہ لے گا۔ اس کے بعد تہائی یعنی ثلث ماں لے گی اور جو بچے گا باپ لے گا۔ یوں تقسیم کریں گے مسئلہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ کل کا ثلث ماں لے گی۔ اس طرح تقسیم زوج ام 4 اب 2 اس صورت میں باپ کو ماں سے کم ملتا ہے۔ (3) یہ کہ میت کے اولاد تو نہ ہو مگر باپ ماں کے سوا اس نے بہن بھائی چھوڑے ہوں۔ اس صورت میں صرف ماں کا حصہ خدا نے بیان کیا کہ اس کو سدس یعنی چھٹا حصہ ملے گا۔ فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس مگر یہ حکم جب ہے کہ دو یا دو سے زیادہ میت نے بہن بھائی چھوڑے ہوں۔ اخوۃ اخ کی جمع ہے مگر مراد وہ ہے کہ جس سے اخوۃ ثابت ہو خواہ بھائی ہو یا بہن عینی ہوں یا علاتی یا اخیافی اگر ایک بہن ہے تب ان کو ثلث ملے گا مگر یہ نہ فرمایا کہ سدس کے بعد باقی کون لے گا۔ جمہور صحابہ یہ کہتے ہیں کہ قرینہ ولادت کرتا ہے کہ باپ لے گا جیسا کہ فلامہ الثلث سے دو ثلث باپ کے لئے سمجھے جاتے ہیں اور ان میں بہن بھائیوں کو اس صورت میں کچھ نہ ملے گا محروم رہیں گے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں ان کو ایک سدس جو ماں سے لیا ہے دیا جاوے گا اور تنہا بہنیں ہوں گی تو ماں کو ثلث ہی ملے گا کیونکہ لفظ اخوۃ ہے نہ اخوات۔ واضح ہو کہ دادا 1 ؎ بمنزلہ باپ کے اور نانی دادی بمنزلہ ماں کے ہے۔ یہاں اس کی بھی آیت میں تصریح کردی ہے کہ سب حصہ میت کے قرضہ اور وصیت ادا کرنے کے بعد قائم ہوں گے اور یہ بھی بتلا دیا کہ ان حصوں کے مقرر کرنے میں جو مصلحتِ الٰہی ہے اس کو تم اچھی طرح نہیں جانتے لا تدرون ایہم اقرب لکم نفعا چونکہ یہ تقسیم عرب کے دستور قدیم کے برخلاف تھے تاکہ ان کو شاق نہ معلوم ہو۔ اس لئے یہ فرمایا گیا نسب کی تیسری قسم میں بہن بھائی ہیں۔ ان کا مرتبہ اولاد اور ماں باپ کے بعد ہے مگر زوجیت کا تعلق عجیب ہے اور نیز بیوی کو عرب میں حصہ نہیں دیتے تھے۔ اس لئے ان سے پہلے میاں بیوی کا حصہ بیان فرمایا اور میاں بیوی کا حصہ دوسرے سبب یعنی نکاح پر مبنی ہے۔ ہم تفسیر میں پیشتر اس سے فارغ ہو لیں پھر اس تیسری قسم کی تشریح کریں گے اگر خاوند لاولد مرے تو منجملہ اور وارثوں کے بیوی کو چوتھا حصہ کل مال میں سے پہنچے گا ٗ خواہ ایک بیوی ہو یا چار سب اسی چہارم میں شریک ہیں اور اگر میت کی اولاد ہے خواہ بیٹا خواہ بیٹی خواہ ایک خواہ دو اس بیوی سے یا کسی اور سے خواہ لونڈی شرعیہ سے تب بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اور اگر بیوی لا ولد مرے تو خاوند کو نصف ورنہ چہارم ملے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے ولکم نصف ما ترک ازواجکم ان لم یکن لہن ولد۔ الا یہ چونکہ عورت مہر بھی پاتی ہے پھر اور شخص سے بھی نکاح کرسکتی ہے اور نیز مرد سے کم رتبہ ہے اس لئے اس کا حصہ ہر حال میں میاں کے حصے سے نصف رہا۔ واضح ہو کہ اگر ایک ماں باپ کی اولاد ہے تو ان کو بہن بھائی عینی اور کبھی بنی اعیان کہتے ہیں اور اگر ماں غیر اور باپ ایک ہو تو ان کو بہن بھائی علاتی کہتے ہیں اور اگر ایک ماں اور دو باپ ہوں مثلاً ایک عورت نے پہلے ایک شخص سے نکاح کیا۔ اس سے اولاد ہوئی پھر اس کے طلاق دینے یا مرنے کے بعد اور سے نکاح کرکے اولاد حاصل کی سو یہ بہن بھائی اخیافی کہلاویں گے۔ چونکہ اخیافوں کا رشتہ ضعیف ہے اس لئے پیشتران کے حصہ کا ذکر کیا کہ اگر کوئی مرد یا عورت کلالۃ ہو یعنی نہ اس کے ماں باپ ہوں نہ اولاد ہو بلکہ صرف بہن بھائی ہوں تو ان میں سے ہر ایک کو سدس یعنی چھٹا حصہ ملے گا اور جو دو یا دو سے زیادہ ہوں تو ان کو ایک تہائی ملے گی۔ اس کو وہ سب آپس میں برابر بانٹ لیں گے۔ بہن بھائی کا حصہ برابر ہوگا۔ اگر میت کی اولاد یا ماں باپ عینی یا علاتی بہن بھائی ہوں تو ان کو کچھ بھی نہ ملے گا۔ وان کان رجل یورث کلالۃ اوا مراۃ ولہ اخ اخت فلکل واحد منہا السدس الآیۃ باتفاق جمہور اس جگہ اخ ادراخت سے بھی اخیافی بہن بھائی مراد ہیں کس لئے کہ اسی سورة نساء کے اخیر میں عینی اور علاتی بہن بھائیوں کا ورثہ بیان فرمایا ہے جو 1 ؎ یعنی اگر باپ نہ ہو تو اس کے قائم مقام میراث میں دادا ہے اور ماں نہ ہو تو نانی یا دادی ان کا قائم مقام ہونا بعض کے نزدیک لفظ اب اور ام سے ہے اور بعض کے نزدیک اجماع امت سے اسی طرح پوتا قائم مقام ابن کے ہے۔ 12 اس ورثہ کے غیر ہے کما قال قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ ان امراء ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلہا نصف ما ترک وھو یرثہا ان لم یکن لہا ولد فان کانت اثنتین فلہما الثلثان مما ترک وان کانوا اخوۃ رجالاً ونساء فلذکر مثل حظ الانثیین الآیۃ یعنی اگر ایک بہن میت کی ہو اور اس میت کی اولاد اور ماں باپ نہ ہوں جس کو کلالۃ کہتے ہیں تو اس بہن کو نصف مال ملے گا اور اگر دو یا زیادہ ہیں تو ان کو دو ثلث ملیں گے اور اگر ان کے ساتھ بھائی بھی ہے تو عصبہ ہو کر مرد کے لئے دو حصے اور عورت کے لئے ایک حصہ کرکے تقسیم کرلیں گے۔ یہ لوگ کہ جن کے قرآن میں حصے مقرر ہوئے ان کو ذوالفروض کہتے ہیں جس صورت میں کہ یہ لوگ مرتد نہ ہوں یا مورث کو عمداً قتل نہ کریں یا اختلاف دین نہ ہونا یا اختلاف حریت عبدیت میں نہ ہو اس وقت ان کو یہ حصہ ملے گا۔ نسب کی چوتھی قسم ایک اور بھی ہے جس کو عصوبت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ذوالفروض کے حصوں کے بعد جو کچھ باقی بچتا ہے اس کو عصبہ لے لیتا ہے عصبوں کی تین قسم ہیں کیونکہ اس کے عصبہ ہونے میں اگر غیر کی احتیاج نہیں تو اس کو عصبہ بنفسہٖ کہتے ہیں اس قسم میں وہ ذکور ہیں 1 ؎ کہ جن کا واسطہ میت سے بغیر توسط انثی 2 ؎ کے ہو جیسا کہ میت کی اولاد (ذکور) اور اس کا باپ دادا پھر اس کے بھائی پھر اس کے دادا کی اولاد درجہ بدرجہ یہ چار قسم ہیں اور اگر غیر کی حاجت ہے اور وہ غیر بھی عصبہ ہے تو اس کا باپ دادا پھر اس کے بھائی پھر اس کے دادا کی اولاد۔ درجہ بدرجہ یہ چار قسم ہیں۔ اور اگر غیر کی حاجت ہے اور وہ غیر بھی عصبہ ہے تو اس کو عصبہ لغیرہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ میت کی بیٹیاں اور پوتیاں اور بہنیں یہ بھائیوں کے ساتھ مل کر عصبہ ہوتی ہیں جو وہ خود عصبہ ہیں۔ اگر وہ عصبہ نہیں تو اس کو عصبہ مع غیرہ کہتے ہیں جیسا کہ میت کی بہن پوتی کے عصبہ ہوجاتی ہے ان کے بعد ذوالارحام ہیں۔ عصبات کا وارث ہونا احادیث صحیحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ تیسرا سبب توریث ولاء رہے۔ ولاء یہ ہے کہ کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کر دے اور اس کے اقارب نہ ہوں تو یہ آزاد کرنے والا کہ جس کو مولی العتاقہ کہتے ہیں وارث ہوگا اور اس کو عصبہ سبیہ کہتے ہیں۔ چونکہ ان میں بھی ایک دوسرے کا ہر طرح سے مددگار ہے اس لئے وراثت قائم ہوگی یا دو شخص ایسے کہ جن کو اقارب نہ ہوں باہم معاہدہ یگانگت کرکے گذران کریں تو اس کو مولی الموالات کہتے ہیں۔ ان میں بھی باہم وراثت ہوگی بشرطیکہ اقارب نہ ہوں ورنہ نہیں۔(1) دوبارہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حصیّ وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد قائم ہوں گے کیونکہ قرض کا میت پر باقی رہ جانا اور وارثوں کا مال لے کر چلتے پھرتے نظر آنا میت کو بھی عالم آخرت میں ضرر دیتا ہے اور قرض خواہ کا بھی ضر رہے اور نیز وصیت کا پورا نہ ہونا بھی میت کی روح کو صدمہ دیتا ہے۔ اس لئے غیر مضار فرمایا اور تاکید کرکے وصیت من اللّٰہ کہہ دیا کہ یہ تعمیل بھی وصیت الٰہی ہے۔ (2) کسی وارث کے لئے بغیر مرضی دوسرے وارثوں کے وصیت جائز نہیں اور اگر کسی غیر کے لئے وصیت کرے تو ایسا نہ کرے کہ تمام مال مرتے وقت غیروں کو بخش کر وارثوں کو محروم چھوڑ جائے۔ غایۃ الامر تہائی مال تک وصیت کرسکتا ہے کہ فلاں فقیر کو یہ دینا یا مدرسہ یا مسجد میں لگانا یا فلاں میرے دوست کو اس قدر دینا اور جو کل کی وصیت کرے گا تو اس میں سے موصی لہ کو صرف ثلث ملے گا۔ (3) احکام میراث بیان فرما کر یہ فرمایا کہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو ان پر قائم رہے گا جنت میں آرام پاوے گا ورنہ جہنم میں ذلت اٹھاوے گا۔ 1 ؎ مرد 12 2 ؎ عورتیں 12
Top