بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اس کتاب کا نازل کرنا اللہ زبردست حکمت والے کی طرف سے ہے،
ترکیب : قال الفراء والزجاج تنزیل مبتدا من اللہ الخ خبرہ الدین منصوب بمخلص و مخلصا حال الذین اتخذوا مبتدء خبرہ محذوف ای یقولون زلفی مصدر و حال موکدۃ والجملۃ مانعبد ھم فی محل النصب بتقدیر یقولون۔ تفسیر : حسن و عکرمہ و جابر بن زید وغیرہم کہتے ہیں۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی ہے، مگر بعض کہتے ہیں کہ قل یاعبادی تین آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ وحشی قاتل حمزہ ؓ کی شان میں لیکن یہ قول معتبر نہیں کیونکہ بخاری و مسلم نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ مشرکوں نے آنحضرت ﷺ نے آکر عرض کیا کہ ہم نے زنا و قتل کیا ہے، اب اس کی کیا صورت ہوگی۔ الخ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ مکہ میں نازل ہوئی اور مدینہ میں وحشی کا قصہ پیش آیا، اس پر یہ آیت نازل شدہ پڑھی گئی جس سے راوی نے نازل ہونا سمجھ لیا۔ ان آیات میں خدا تعالیٰ دو باتوں کا اثبات کرتا ہے۔ اول قرآن مجید کا کلام الٰہی اور منزل من اللہ ہونا سو اس کو سب سے اول تنزیل الکتاب الخ میں بیان فرماتا ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ نے ازخود نہیں بنالیا ہے، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اللہ کی یہ وہ صفت ہیں ایک یہ کہ وہ عزیز یعنی زبردست و قادر ہے، اپنا فرمان اپنے بندوں کے پاس محمد ﷺ کی معرفت بھیجتا ہے۔ اس کو تمہارے انکار و اصرار کی کچھ پروا نہیں، اس کی دنیا میں ضرور اشاعت ہوگی۔ کسی کے بند کرنے سے بند نہ ہوگی۔ (اس میں تہدید شاہانہ ہے) دوسرے یہ کہ وہ حکیم ہے، قرآن مجید میں سراسر حکمت ہے۔ اگر غور و نظر ہے تو دیکھ لو اس میں تمہارا فائدہ ہے۔ اس میں طرز حکیمانہ ہے۔ پھر اسی بات کو دوسرے پہلو سے بیان فرمایا ہے۔ انا انزلنا الیک الکتاب بالحق کہ ہم نے اے محمد ﷺ آپ کی طرف قرآن کو سچائی کے ساتھ نازل کیا ہے، اس میں جو کچھ ہے حق اور مطابق واقع ہے۔ پھر جب یہ ہے تو پہلا حکم یہ ہے فاعبد اللہ مخلصًا الدین کہ خالص اللہ کی عبادت کرو۔ دین کے معنی طاعت و عبادت کے ہیں نہ اس میں شرک ہو نہ ریاکاری یا کوئی دُنیاوی غرض۔ قتادہ کہتے ہیں، دین خالص کلمہ شہادت ہے، یہ وہ دوسری بات ہے جس کا اثبات ان آیات میں مقصود ہے۔ فرماتا ہے کہ اخلاص کی عبادت کا مستحق بھی اللہ ہی ہے مگر جو مشرک ہیں اور اللہ کے سوائے انہوں نے اور بھی معبود بنا رکھے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں۔ مانعبد ھم الخ ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ہمارا مرتبہ پیدا کردیں گے، یعنی ان کو وسیلہ حاجات سمجھتے ہیں۔ اس بات کو رد کرتا ہے، ان اللہ کہ اس بات کا قیامت کے دن وہ آپ فیصلہ کردے گا۔ یعنی ان کا یہ کہنا غلط ہے اور ایسے عذرات کرنے والوں کو جو ازلی بدبخت ہوتے ہیں۔ اللہ سیدھا راستہ نصیب نہیں کرتا۔ وہ عمر بھر اسی گمراہی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
Top