Tafseer-e-Haqqani - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور رحمٰن کے (خاص) بندے تو وہی ہیں جو زمین پر جھک کر چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل مٹ بھیڑ ہوجاتے ہیں تو سلام کہتے (اور الگ ہوجاتے ہیں)
عباد الرحمن کے چند اوصاف حمیدہ ذکر کرتا ہے جس سے عام مسلمانوں کو بھی ان اوصاف کو حاصل کرنے کی ترغیب دلانی مقصود ہے کہ خالی باتیں بنانے سے رحمان کا بندہ خاص نہیں بنتا جب تک کہ ان باتوں کو اپنے میں پیدا نہ کرے اور یوں تو رحمان کے سبھی بندے ہیں مگر مراد خالص اور اچھے اور مقبول بندے ہیں۔ صفت اول (1) الذین یمشون الخ کہ جو زمین پر اکڑتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے بلکہ تواضع اور فروتنی سے۔ (2) واذا خاطبہم الجاھلون جب جاہلوں سے ہمکلامی کا اتفاق پڑتا ہے تو سلام کہتے ہیں یعنی تسلیم اختیار کرتے ہیں۔ یا یہ کہ سلامتی اور سکوت طلب کرتے ہیں جیسا کہ کہتے ہیں معاف کیجیے ان سے الجھتے الجھتے جھگڑتے نہیں۔ کس لیے کہ سفہاء کی باتوں سے درگزر کرنا اور مقابلہ نہ کرنا عقلاً و شرعاً بہتر ہے اور اس میں سلامتی اور حفظ آبرو بھی ہے۔ یا یہ کہ سلام تودیع کہتے ہیں یعنی سلام کرکے رخصت اور الگ ہوجاتے ہیں سب سے مطلب یہ ہے کہ جہل و فساد کے مقابلہ میں حلم اختیار کرتے ہیں۔ (3) یہ کہ یہ تو ان کا دن کا اور باہمی تمدن کا برتاؤ تھا۔ اب خدا سے معاملہ اور شب کی کیفیت یہ ہے یبیتون لربہم الخ کہ تمام رات یا اس کا بڑا حصہ خدا کی یاد میں صرف کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں جس میں سجدہ اور قیام بھی ہے۔ حسن کہتے ہیں اللہ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور نیاز کے ساتھ اس کے آگے سر رکھ دیتے ہیں آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں یہ نماز تہجد کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کا شیوہ خاص ہے۔
Top