Tafseer-e-Haqqani - Al-Furqaan : 11
بَلْ كَذَّبُوْا بِالسَّاعَةِ١۫ وَ اَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِیْرًاۚ
بَلْ : بلکہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کیا لِمَنْ كَذَّبَ : اس کے لیے جس نے جھٹلایا بِالسَّاعَةِ : قیامت کو سَعِيْرًا : دوزخ
بلکہ انہوں نے تو قیامت کو جھوٹ سمجھ لیا ہے اور ہم نے بھی قیامت کے جھٹلانے والوں کے لیے دوزخ ہی تیار کر رکھی ہے۔
مصنف میں ابن ابی شبیہ نے اور جریروابن ابی حاتم نے حلیمہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کہا گیا تھا اگر آپ کی خوشی ہو تو آپکے ہاتھ میں زمین بھر کے خزانوں کی کنجیاں دی جاویں اور اس سے آخرت میں آپ کا کچھ بھی نقصان نہ ہو اور مرضی ہو تو یہ سب کچھ آخرت میں دیا جاوے۔ آپ نے فرمایا آخرت ہی میں چاہتا ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بہت جگہ اسی قسم کا مضمون احادیث صحیحہ میں آیا ہے چونکہ آپ کی نظر آخرت پر تھی اور ہونی بھی چاہیے اور کفار آخرت کے منکر تھے ان کے نزدیک جو کچھ انعام و افضال ہوں یہیں ہوں تو ہوں نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بل کذبوا بالساعۃ کہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔ پھر واعتدنالمن کذب بالساعۃ سعیرا سے لے کر عذابا کبیرا تک مسلہ معاد اور وہاں کی سزاء و جزا کا بیان ہے اور ان کے معبودوں کا ان بت پرستوں سے الگ ہونا بھی ظاہر کرتا ہے کہ جن کو وہاں کا ذریعہ سمجھ کر ان کی عبادت کیا کرتے ہیں وما ارسلنا قبلک من المرسلین یہاں سے ان کے شبہ کا جواب شافی دیتا ہے کہ اے محمد ﷺ ! آپ سے پیشتر جس قدر دنیا میں رسول آئے ابراہیم و اسحاق و موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) کسی کے پاس بھی نہ خزانہ تھا نہ ایسا باغ نہ ان کی تصدیق کے لیے ان کے ہمراہ فرشتہ رہتا تھا وہ دنیا میں کھانا بھی کھاتے تھے بازاروں میں خریدو فروخت کے لیے بھی جاتے تھے یعنی بشر اور غریب لوگ تھے۔ رہے دنیا کے تجملات اور امارت ‘ سو یہ ایک فتنہ ہے یعنی آزمائش کہ دیکھیں امیردولتمند شکر کرتا ہے یا کفران نعمت اور غریب مفلس دنیا کی مصائب پر برداشت کرتا ہے کہ نہیں لہذا کسی کو کچھ دیا کسی کو کچھ عطا کیا۔ اس لیے مسلمانوں سے فرماتا ہے اتصبرون کیا صبر کرتے ہو یعنی صبر کرنا چاہیے اور تمہارا رب دیکھ رہا ہے اور آخرت میں جزا دے گا۔
Top