Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 278
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَذَرُوْا : اور چھوڑ دو مَا : جو بَقِيَ : جو باقی رہ گیا ہے مِنَ : سے الرِّبٰٓوا : سود اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود لینا باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم (سچے) مومن ہو
ترکیب : ان کنتم مؤمنین شرط جملہ مقدم دال برجزا فان لم تفعلوا شرط فاذنوا الخ جواب ‘ وان شرطیہ کان تامہ ذوعسرۃ اس کا اسم فنظرۃ خبر ہے مبتداء محذوف کی ای فالحکم نظرۃ الخ۔ یہ تمام جملہ جواب شرط واتقوا فعل انتم فاعل یوما مفعول بہ ترجعون الخ جملہ اس کی صفت۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا اور سود سے باز آئو اور جو کچھ ممانعت سے پیشتر لے لوا چکے ہو وہ تمہارا ہے۔ اس پر خیال پیدا ہوتا تھا کہ ممانعت سے پہلے کا جو سود قرضہ دار کے ذمہ پر چڑھا ہوا ہے وہ بھی ہمارا ہے اس کو لینا چاہیے۔ اس خیال کو خدا تعالیٰ نے رد کیا کہ جو کچھ سود قرضداروں کے ذمہ پر باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر سچا ایمان رکھتے ہو اور جو تم باز نہیں آتے تو تم کو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لڑائی کا اشتہار دیا جاتا ہے کس لیے کہ باوجود ممانعت شدید اور تاکید مزید کے پھر سود لینا اور غریبوں کا دل دکھانا خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنا ہے۔ ہاں اگر تم اس فعلِ بد سے توبہ کرتے ہو تو تم کو تمہارا اصل مال پہنچتا ہے نہ سود لے کر تم کسی پر ظلم کرو نہ اصل مال میں کمی کرکے تم پر ظلم کیا جاوے جبکہ سود کی سخت ممانعت ہوگئی اور ذمہ پر چڑھا ہوا سود لینا بھی حرام ہوا تو قرض خواہ کا قرضدار کو تنگ کرکے جلدی وصول کرنا بھی ایک طبعی بات ہے کس لیے کہ جو امید نفع کی تھی جس کی وجہ سے مہلت دے رہا تھا وہ تو منقطع ہوگئی مگر جو قرضدار تنگ دست ہیں ان کے لیے اس میں بڑی دقت ہے۔ وہ کہاں سے لا کر ان کو دیں ادھر قرض خواہ ہے کہ تقاضوں کے مارے اس کو پیسے ڈالتا ہے ٗ بےآبرو کر رہا ہے۔ قید میں ڈلوانے کی فکر کر رہا ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے ان بےکسوں کے حال زار پر رحم کرکے اس کے ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ اگر قرض دار تنگ دست ہے یعنی سردی گرمی کے کپڑوں اور دو ایک دن کے کھانے اور خرچ عیال کے علاوہ نہ کوئی جائیداد رکھتا ہے کہ اس کو فروخت کرکے ادا کرے نہ نقد مال ہے کہ دے کر پیچھا چھڑائے تو اس کو مہلت دینی چاہیے یہاں تک کہ اس کو قرض ادا کرنے کا مقدور حاصل ہوجائے۔ اتنے عرصہ میں اس کو تنگ کرنا یا قید کرانا حرام ہے۔ اسلام میں سراسر رحمدلی ہے۔ اول ربوالفضل کو بھی اسی لیے حرام کیا تھا کہ اگر مثلاً کسی غریب کو اچھے گیہوں کی ضرورت پڑی تو برابر سرا بر کسی سے بدلہ لے اس تفاوت قلیل پر نظر نہ کی جائے اسی طرح ربوالنسیئہ کو حرام کیا باہم احسان اور صلہ رحمی کے طور پر دوسرے بھائی کی حاجت قرض دے کر روا کردینا چاہیے۔ پھر فرماتا ہے اگر تم بالکل معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ خزانہ الٰہی میں جمع ہو کر تمہیں آخرت میں نفع دے گا۔ اس کے بعد اس صلہ رحمی اور رحمدلی اور اس سخت گیری کے لیے ایک کوڑا سا غافلوں کی پشت پر مار دیا کہ اس دن سے ڈرو کہ جس میں تم پھر خدا کے پاس واپس جائو گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا نتیجہ پائے گا۔ اس میں اشارہ ہے کہ تم پر بھی خدا تعالیٰ کے سینکڑوں مطالبات ہیں۔ پھر جب تم سخت گیری کرتے ہو تو اپنے لیے اس کا روز رحم کی کس بھروسہ پر امید رکھتے ہو۔
Top