Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا
: اور تم لڑو
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
يُقَاتِلُوْنَكُمْ
: تم سے لڑتے ہیں
وَلَا تَعْتَدُوْا
: اور زیادتی نہ کرو
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَا يُحِبُّ
: نہیں پسند کرتا
الْمُعْتَدِيْنَ
: زیادتی کرنے والے
اور (اے مسلمانو ! ) جو تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے اللہ کی راہ میں لڑو اور زیادتی نہ کرو۔ خدا ہرگز زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
ترکیب : قاتلوا فعل انتم اس کا فاعل فی سبیل اللہ اس کے متعلق الذین یقاتلونکم جملہ مفعول ولا تعتدوا معطوف ہے قاتلوا پر اللہ اسم ان لایحب الخ خبر واقتلوا فعل انتم فاعل ھم مفعول حیث متعلق ہے اقتلوا سے وقس علیہ اخرجوھم والفتنۃ مبتدا اشد الخ خبر حتیٰ بمعنی کے اور ممکن ہے کہ بمعنی الی ان ھو لا تکون کان تامہ اور یکون میں بھی کان تامہ اور جو دونوں کو ناقصہ کیا جاوے تو للہ خبر عدو ان اسم لا الاعلی الظالمین خبرلا۔ تفسیر : پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ نیکی گھروں میں پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ نیکی تقویٰ ہے اور تقویٰ کی بڑی شاخ اللہ کے دشمنوں سے لڑ کر زمین کو کفر و معاصی اور دیگر فساد سے پاک کرنا ہے جس کی بھلائی اور جس کا عام فائدہ آیندہ نسلوں تک باقی رہتا ہے۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قتل فی سبیل اللہ یعنی جہاد کا حکم دیا۔ نبی ﷺ صحابہ کبار کے ساتھ بارادہ حج مدینہ سے کوچ کرکے مکہ کی طرف چلے اور جب مقام حدیبیہ 3 ؎ آئے تو کفار قریش نے آپ کو روک دیا اور کئی روز تک آپ وہاں ٹھہرے رہے اور آخر واپس چلے آئے۔ پھر اگلے سال حج کی تیاری کی اور صحابہ کو خوف ہوا کہ قریش بجنگ پیش آئیں گے اور ان مہینوں میں صحابہ جنگ کرنے کو نہایت مکروہ جانتے تھے۔ اس کشمکش میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں خدا تعالیٰ نے ان سے جنگ کرنے کی رخصت دی اور بوقت ضرورت تلوار اٹھانے کی اجازت دی کہ اے مسلمانو ! خدا کی راہ میں جنگ کرو مگر زیادتی نہ کرو بچوں اور عورتوں اور بڈھوں کو نہ مارو سبز درختوں کو نہ کاٹو ‘ عہد شکنی نہ کرو۔ کس لیے کہ خدا کو زیادتی کرنے والے پسند نہیں اور جب تم میں اور ان میں کوئی عہد قائم نہ ہو تو ان کو جہاں پائو قتل کر ڈالو اور جس طرح انہوں نے تم کو مکہ سے باہر نکال دیا ہے ٗ تم بھی ان کو وہاں سے نکال دو اور یہ خیال نہ کرو کہ ہم نے ان کو مقام مقدس میں قتل کیا اور وہاں سے نکالا کیونکہ وہ وہاں فتنہ اور فساد کرتے ہیں اور فتنہ تو قتل سے بڑھ کر ہے جس کا نتیجہ خرابی بلاد اور پریشانی عباد ہے۔ مگر مسجد الحرام کے پاس ان سے جنگ نہ کرو جب 3 ؎ مکہّ کے قریب ایک جگہ ہے۔ 12 منہ تک کہ وہ وہاں تم سے جنگ نہ کریں اور اگر وہ وہاں حرمت خانہ کعبہ ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے جنگ کریں تو تم وہیں ان کو قتل کرو۔ کس لیے کہ خدا کے دشمنوں کی یہی سزا ہے اور جو وہ باز آجاویں اور توبہ کرلیں تو خدا بھی غفور الرحیم ہے اور کفار سے لڑتے رہو جب تک کہ دنیا پر فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور احکام الٰہی پر بےروک و ٹوک عمل درآمد ہونے لگے۔ متعلقات فتنہ کے لغوی معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں اور اسی لیے نعمت اور مصیبت کو بھی فتنہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں صبر و شکر کے بارے میں آزمائش ہوتی ہے مگر اس جگہ مراد ابن عباس ؓ کے نزدیک کفر و شرک ہے کیونکہ اس سے زمین پر فساد اور خرابی پھیلتی ہے جس سے ظلم اور باہمی قتال وجدال پیدا ہوتا ہے جو موضع آزمائش ہے اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد فساد اور ظلم وغیرہ قبائح ہیں اور شرک و کفر بھی اس میں شامل ہیں۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اولاً یوں فرمایا کہ جو تم سے لڑے تو تم بھی اس سے لڑو اور مسجد الحرام کے پاس حتی المقدور جنگ سے اولاً باز رہو گویا یہ جنگ بحالت مدافعت ہے مگر زمین کا ہر قسم کی برائی اور جورو ظلم سے پاک کرنا عالم بالا کا اصل منشا تھا اور اس لیے خدا تعالیٰ نے عرب کے ملک میں وہ نبی برپا کیا کہ جس کی اجمالی خبر کتب مقدسہ بالخصوص 50 زبور 1 ؎ میں ہے اور جس کی معرفت زمین پر آسمانی سلطنت کا ظاہر ہونا مقدر تھا اور ان شریر لوگوں کی گوشمالی اور سزا علم الٰہی میں ٹھہر چکی تھی کہ جن سے تورات و دیگر صحائف 2 ؎ میں خطاب کرکے فرمایا گیا تھا کہ بدوں کو بھوسی 3 ؎ کی طرح چھانٹے گا اور آتشی شریعت سے بت پرستی اور شرارت کو مٹا دے گا اور یہ کام بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے پورا پورا سرانجام پانا آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر مقدر تھا کہ آپ خدا کے نائب بن کر زمین پر ہر قسم کی نیکی پھیلائیں۔ اسی لیے حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للّٰہ فرما کر حکم دیا واقتلوھم حیث ثقفتموھم قرآن مجید میں یہ اول آیت ہے کہ جس میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مکہ میں تھے تو کفار قریش نے خود آنحضرت ﷺ پر اور مسلمانوں پر نہایت ظلم و ستم کئے تھے۔ یہاں تک کہ مکہ سے نکال دیا اور بہت لوگ ملک حبش میں چلے گئے اور خود آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو ادائے فرائض اور عبادتِ الٰہی سے روک دیا تھا۔ ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دی۔ مخالفین اسلام کے جہاد پر اعتراضات : مخالفین اسلام محض تعصب وعناد سے جہاد کے بارے میں یہ اعتراض کرکے اسلام پر دھبہ لگایا کرتے ہیں۔ (1) یہ کہ بردباری اور فروتنی اور باہمی محبت اور عفو کا مسئلہ جو اور کتب انبیاء بالخصوص انجیل میں ہے (کہ جو تیرے ایک گال پر طمانچہ 1 ؎ 50 زبور میں جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا ہے اے پہلوان تو اپنی تلوار کو جو تیری حشمت اور بزرگواری ہے حمائل کر کے اپنی گردن پر لٹکا۔ 12 منہ 2 ؎ ہمارا بادشاہ آوے گا اور چپ چاپ نہ رہے گا آگ اس کے آگے آگے فنا کرتی جائے گی اور اس کے گردا گرد شدت سے طوفان ہوگا وہ اوپر آسمان کو طلب کرتا اور زمین کو بھی تاکہ اپنے لوگوں کی عدالت کرے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا اس کے مطابق ہیبت اور شوکت سے ظہور ہوا اور دنیا میں کامل عدالت بھی کی۔ 12 منہ 3 ؎ انجیل متی کے 3 باب میں ہے توبہ کرو کیونکہ آسمانی بادشاہت نزدیک ہے۔ (11) وہ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کو کہتے ہیں جمع کرے گا پھر بھوسی کو اس آگ میں جو کبھی نہیں بجھتی (دوزخ) میں جلاوے گا۔ 12 منہ مارے تو اس کی طرف دوسرا گال کر دے اور جو تیرے لیے برا چاہے تو اس کی بھلائی چاہ) قرآن واسلام اس سے خالی ہے بلکہ برخلاف ہے۔ (2) برخلاف تمام انبیائِ سابقین کے لوگوں پر بزور شمشیر اسلام میں لانے کی تاکید ہے اور جو اسلام نہ لاوے اس کو بےرحمی سے قتل کرنا اور اس کی جورو اور معصوم بچوں کو لونڈی و غلام بنانا اور اس کے گھر بار کو لوٹنا عام دستور اہل اسلام کا ہے۔ (3) اس جہاد کے مسئلہ نے مسلمانوں کو ہر ایک قسم کے ظلم و زیادتی کی غیر مذہب والوں کے ساتھ اجازت دے دی یہاں تک کہ جو مسلمان غیر مذہب بادشاہوں کے ملک میں امن پا کر رہتے اور ان کے سایہ حفاظت میں پرورش پاتے ہیں ان کے ساتھ بدعہدی کرنا اور جس غیر مذہب والے پر قابو پانا اس کو مار ڈالنا اور بادشاہ کے ساتھ بغاوت کرنا ‘ بدخواہی کرنا اسلام میں باعث ثواب ہے حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں کہ جن کو نہ الہام قبول کرتا ہے نہ عقل تسلیم کرتی ہے بلکہ یہ امور تمدن کے بھی صریح برخلاف ہیں۔ پھر ایسی باتوں کے مروج کو کیونکر نبی کہا جاوے ؟ اور اسی لیے اس وقت کے جس قدر روشن دماغ ہیں وہ بھی انتظام مملکت میں شریعت کو دخل نہیں دیتے اور جو اس پرانے وحشیانہ قانون پر چلتے ہیں تو ان کے ملک بھی برباد اور تنزل پذیر ہیں۔ مخالفین بالخصوص یورپ کے ملحد اور ان کے مرید مشنری ان اعتراضات پر بڑے نازاں ہیں۔ (1) واضح ہو کہ علم اخلاق کے احکام دو قسم ہیں۔ ایک وہ کہ جن کی پابندی ہر شخص کے لیے ضروری ہے ٗ دوسری وہ کہ جن کی پابندی کے مستحق خاص خاص لوگ بوجہ حصول مزید درجات ہیں۔ عام لوگوں سے ان پر عمل ہو نہیں سکتا مثلاً جو کوئی کسی کو قتل کرے یا چوری یا غصب سے کسی کا مال لے لیوے اور کسی قسم کی تعدی کرے اس کا معاف کردینا خاص لوگوں کا کام ہے لیکن کوئی شریعت اور کوئی نبی اس حکم کو عام نہیں کرسکتا کیونکہ اگر ایسا ہو تو دنیا میں ظلم و ستم کا دروازہ کھل جاوے۔ کبھی ایسی باتوں پر عمل کیا ہے ! ہرگز نہیں بلکہ یہ مکارم اخلاق خاص لوگوں کا خاص وقت میں دستور العمل ہوسکتا ہے قانون عام نہیں ہوسکتا۔ ہندو اپنے مذہب کو بڑا ہی رحیم کہتے ہیں۔ آدمی تو کیا کسی جاندار کا قتل کرنا بھی روا نہیں رکھتے۔ پھر کوئی دھرماتما ہندو یہ بتلا سکتا ہے کہ اس قانون کا فائدہ اور اثر سوا اس کے صرف زبانی جمع خرچ ہو اور بھی کچھ کسی زمانہ میں ہوا ہے ؟ جن زمانوں کو یہ ست جگ اور دوا پرکھ کے ان کے متبرک ہونے پر بڑی خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ کیا ان میں ان کے انہیں بزرگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے یہ مقولے ہیں سینکڑوں آدمیوں کی جانیں تلف نہیں ہوئیں ؟ مہابھارت سے کوئی ہندو ناآشنا نہیں۔ اس سے بخوبی ثابت ہوا کہ ایسی عفو اور رحمدلی اور بردباری کی باتیں جس مذہب میں ہیں وہ خاص لوگوں کے لیے ہیں نہ یہ کہ عموماً قوم کے لیے قرآن مجید میں بھی یہ مکارم اخلاق بہت کچھ مذکور ہیں۔ سورة حم سجدہ میں فرماتا ہے ولا تستوی الحسنہ ولا السیئۃ ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم وما یلقہا الا الذین صبروا ومایلقہا الاذوحظ عظیم ” بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں تو برائی کے جواب میں بھلائی کر پھر جو تیرا دشمن بھی ہے وہ بھی نہایت دوست ہوجاوے گا یہ خصلت صابرین اور بڑے نصیبے والوں کو نصیب ہوتی ہے “۔ اب دیکھئے اس میں بلا لحاظ مومن و کافر ہم قوم و غیر قوم و بلا قید یگانہ و بیگانہ کس قدر رحمدلی و بردباری اور عفو کی تعلیم ہے کہ جو دوسرے گال پھیر دینے کے اندر نہیں کیونکہ اس میں تو دشمن کے ساتھ بجائے صبر کے نیک سلوک کی بھی تعلیم ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے ان اللہ یاْمرکم بالعدل والاحسان الآیۃ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ تم عدل و انصاف کرو اور اسی پر بس نہ کرو بلکہ بلا قید مومن و کافر یگانہ و بیگانہ سب کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ پھر نیک سلوک میں کوئی قید نہیں بلکہ عام رکھا ہے ایک جگہ فرمایا ولکن البرمن امن باللہ والیوم الاخروالملئکۃ والکتب والنبیین واتی المال علی حبہ ذوی القربٰی والیتمٰی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب اس آیت میں بلا قید مومن و کافر اپنے بیگانوں سب کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے ولمن صبر وغفران ذلک لمن عزم الامور اور اسی طرح بیشمار آیات ہیں اور احادیث صحیحہ اس بارے میں بکثرت ہیں۔ علاوہ اس کے جناب پیغمبر خدا علیہ الصلوٰاۃ والسلام کی رحمدلی اور فروتنی اور بردباری اور مخالفوں کے ساتھ قدرت پا کر نیک سلوک کرنا ضرب المثل ہے۔ ایسے صدہا واقعات فن سیرت میں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ اسلامی رحمدلی اور خود پیغمبر (علیہ السلام) کی نرم دلی ‘ بردباری ‘ تواضع و عفو کا کچھ انتہا نہ تھا۔ آپ کے جانشینوں کے اخلاق و عادات بھی باوجود یکہ وہ بڑی بڑی سرسبز اور عالیشان سلطنتوں کے مالک ہوگئے تھے ٗ نہایت رحیمانہ عفو و حلم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی بےنظیر فتوحات کا جو ان کو قرن اول میں نصیب ہوئیں ‘ یہ بھی ایک بڑا سبب تھا۔ الحاصل جس نے قرآن و احادیث کو پڑھا ہے وہ مکارم اخلاق سے جو اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانہ پر ہو ٗ قرآن اور اسلام کو خالی رہنے کا الزام نہیں لگا سکتا مگر اس کے ساتھ قوانین معدلت اور سرکشوں اور گمراہوں اور گمراہ کنندوں کے سرنگوں کرنے کا مسئلہ بھی ضرور قرآن میں ہے جس کا سلسلہ انبیاء ہمیشہ سے خوشخبری دیتا آیا ہے اور جسکی بلحاظ ادا کرنے فرض منصبی مذہب کو از حد ضرورت ہے۔ (2) اسلام میں کہیں بزور شمشیر مسلمان کرنے کا حکم بھی نہیں چہ جائیکہ تاکید بلکہ اس کے برعکس حکم ہے تاکید نہیں بلکہ علانیہ لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی یعنی دین میں کسی پر کچھ زبردستی نہیں گمراہی اور ہدایت میں فرق ظاہر ہوگیا۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ زبردستی مسلمان ہوجاوے۔ زنا 1 ؎ ٗ شراب خواری ‘ قمار بازی وغیرہ رسوم کو کیوں بزور مٹایا اور کیوں بت پرستی کو جرم قرار دیا تو یہ محض بیہودہ اعتراض ہے۔ کیا اس وقت کے روشن دماغ جرائم کو بزور نہیں مٹاتے ؟ اور بعد جنگ کے مخالفوں کے مال و اسباب ضبط نہیں کرتے۔ ان کو قید میں نہیں ڈالتے۔ اسی طرح اسلام آسمانی باغیوں کے ساتھ کرتا ہے اور ان کو قید غلامی کی سزا دیتا ہے۔ اگر اس پر اعتراض ہے تو پھر دیندار عیسائی انبیائِ بنی اسرائیل پر بھی اعتراض کریں کہ جنہوں نے زن و بچہ بلکہ جانوروں تک بھی مخالفوں کا زندہ نہ چھوڑا تورات اور کتاب یوشع وغیرہ کو ملاحظہ فرمایئے۔ (3) اسلام نے غیر مذہب والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ٗ قتل و بد عہدی کی ہرگز اجازت نہیں دی نہ جس بادشاہ کے امن میں آرام پائیں اور نہ فرائضِ مذہبی کو بہ آزادی ادا کریں اس کے ساتھ بدعہدی اور بدخواہی کی رخصت دی ہے بلکہ عہد پورا کرنے کی نہایت تاکید ہے والموفون بعہدھم ابھی آیت سابقہ میں آچکا ہے اور متعدد مواضع میں آیا ہے اور احادیث میں بکثرت وارد ہے۔ ہرقل شاہ روم اوردیگر مخالفین اسلام شاہوں کے ملک میں جب صحابہ تجارت یا کسی کام کو گئے انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا اور جو یہ اعتراض کرتا ہے وہ اسلام اور قرآن پر بہتان باندھتا ہے یا ناواقف ہے۔ جہاد کے مواقع : اسلام صرف ان چند صورتوں میں جہاد کی اجازت دیتا ہے اور حسب ضرورت تاکید بھی فرماتا ہے۔ اول یہ کہ مخالفین اسلام مسلمانوں کے ملک اور معابد پر قبضہ کرنے کے ارادہ سے حملہ آور ہوں اور مسلمانوں پر چڑھائی کریں جیسا کہ احزاب کا واقعہ۔ دوسرے یہ کہ کسی جگہ مسلمانوں اور کافر قدیم سے ملے جلے رہتے ہیں اور پھر کفار ان کو ادائیگی مراسم مذہبیہ سے منع کریں اور جلاوطنی پر مجبور کریں اور محض اسلام کی وجہ سے ظلم وتعدی کرنا شروع کریں جیسا کہ کفار قریش نے مکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس صورت میں اگر وہاں کے لوگوں کو مقابلہ کی طاقت نہیں تو اسلام کو مخفی نہ کریں اور مراسم اسلامیہ سے باز رہنا اختیار نہ کریں بلکہ وطن چھوڑ کر کسی دار اسلام میں چلے جاویں اور اس کو ہجرت کہتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں فرض ہے جیسا کہ صحابہ اور خود نبی علیہ الصلوٰ والسلام نے کیا۔ اس صورت میں باہر جا کر جمعیت بہم پہنچا 1 ؎ پیغمبر (علیہ السلام) اور ان کے جانشینوں نے مصلحت ملکی و مذہبی کے لحاظ سے اس بات کی ضرور کوشش کی کہ غیر مذہب برّ عرب میں رہنے نہ پائے باہر چلا جائے اس کے سوا اور ممالک میں مسلمان اور مشرک و غیر مذاہب کے لوگ سلطنت کے مطیع رہ کر مساوی درجوں پر بودوباش کے مجاز تھے پر عرب سے باہر کرنے کو اگر کسی نے بزور شمشیر اسلام لانے پر مجبور کرنا سمجھ لیا ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے اسلام بےقصور ہے۔ 12 منہ حقانی کر ضرور مخالفین کو مغلوب کریں جس طرح کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ سے آکر مکہ فتح کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی قوت و شوکت اور سامان حرب و قتال بہم پہنچا کر اپنے آس پاس کے بادشاہوں اور قریب و بعید کے ملکوں کو دین حق کی منادی کریں اور بت پرستی اور دیگر رسوم قبیحہ ترک کرنے اور امور فطرت کے اختیار کرنے کا حکم دیویں (کس لیے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے راستی اور آسمانی سلطنت قائم کرنے کے لیے جناب نبی ﷺ کو بھیجا ہے جیسا کہ کتب مقدسہ سے بھی ثابت ہے اور آپ کے بعد الی یوم القیامۃ آپ کے جانشین اس کام پر مامور ہیں) ۔ اگر وہ لوگ امر حق اختیار کرلیں اور فساد سے باز آویں تو ان سے کچھ نہ کہیں اور نہ ان کو ماتحتی اسلام پر مجبور کریں اور اگر یہ بھی نہ مانیں تو اخیر درجہ جس طرح آج کل مہذب گورنمنٹیں دفع فساد کے لیے فوج کشی کرتی ہیں ٗ شاہ اسلام لشکر کشی کرے جیسا کہ شام و ایران وغیرہ بلاد پر صحابہ نے لشکرکشی کی مگر لڑکے ٗ عورتوں ٗ بڈھوں کو نہ مارے کھیتیاں نہ اجاڑے۔ پس ان صورتوں میں جبکہ طرفین سے جنگ قائم ہوئی ہے تو سوائے واغلظ علیہم اور واقتلوھم حیث وجدتموھم کے اور کیا ہوتا ہے ؟ جس قدر کفار پر سختی اور قتل میں سعی کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تاکید ہے سو وہ خاص ان صورتوں میں ہے اور انہیں کے لیے قرآن میں جا بجا تاکید ہے اور انہیں میں مارے جانے سے شہادت ملتی ہے اور انہیں کے اجر وثواب قرآن مجید میں جا بجا مذکور ہیں۔ باقی اور سب صورتوں میں وہی رحمدلی اور عفو ورنہ عدل و انصاف اب فرمایئے کونسا اعتراض ہے ؟ 1 ؎ 1 ؎ اور جو ناانصاف یہود و نصاریٰ اب بھی اعتراض سے باز نہ آئیں اور ملحدانہ طور سے کہیں کہ قرآن نے ریلجس لبرٹی اور کا نشسنس کا ستیاناس کردیا اور مذہبی آزادی کو باقی نہ رکھا اور آسمانی حقوق کے لیے کیوں تلوار اٹھائی اور کیوں کافروں پر قہر و غضب ظاہر کیا۔ تو اس سے پیشتر وہ بائبل اور اپنے دینی پیشوائوں پر بھی اعتراض جماویں کہ جنہوں نے مذہبی جنگ قائم کی اور جنہوں نے کفار سے عہد باندھنے کی بھی سخت ممانعت کردی۔ چناچہ تورات سفر خروج کے 22 باب 18 درس میں ہے تو جادوگرنی کو جینے مت دے جو کوئی چارپائے سے مباشرت کرے مارا جائے جو کوئی خدا کے سوا اور معبود کے لیے قربانی کرے مارا جاوے عذاب دے کر پھر 17 باب میں قوم عمالیق سے جنگ کی اور نسل در نسل ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ پھر 23 باب میں خدا کا کفار سے دشمنی رکھنا اور تمام کفار کی ہلاکت کا وعدہ کرنا اور ان سے معاہدہ کرنے کی سخت ممانعت مذکور ہے۔ پھر 32 باب میں بسبب گو سالہ پرستی کے بھائی کو بھائی اور دوست کو دوست کے ہاتھ سے قتل کرنے کا حکم اور نیز ہزاروں کا قتل ہونا بھی مندرج ہے۔ پھر کتاب استثناء کے 2 باب میں جسوں کے بادشاہ موری سے جنگ کرنے کا حکم ہے۔ پھر 3 باب میں عوج کو اس کی تمام قوم سمیت قتل کرنا مذکور ہے جس میں ان کی عورتیں اور معصوم بچے بھی بحکم خدا قتل کئے گئے۔ اسی طرح سینکڑوں مقامات ہیں۔ پھر کتاب یشوع کو دیکھئے کہ اس میں کافروں کے ساتھ کیا بےرحمانہ برتائو لکھا ہے اور زن و مرد جانداروں تک نبی نے تہ تیغ بےدریغ کیا ہے۔ اب عیسائیوں کے بزرگوں کی طرف آئیے قسطنطین اعظم نے عیسوی چوتھی صدی میں مذہبی قتل عام کیا۔ پھر ایرین چرچ نے مقلدین اتا نسیس کو کس بےرحمی سے افریقہ میں قتل کیا اور روس چرچ کرنے جرمن و برطانیہ و فرانس میں اور ٹلی کے شمال میں الیس کے پہاڑوں میں دریائے خون خاص مذہب کے لیے بہائے۔ آسٹریا میں تیس برس تک مذہبی جنگ رہی۔ ملک فرانس میں چارلس نہم عیسائی نے تین لاکھ پر اٹسٹنٹ کو بےرحمی سے قتل کیا بلکہ کو ئن میری اور لوئیس چہاردہم نے کیسا قتل عام مذہب کے لیے کیا اور ہنری ششم شاہ انگلستان نے کا تھولیک لوگوں کو قتل کرکے مذہب پر اٹسٹنٹ پھیلایا۔ پھر انگلستان میں ایک سو تیس برس تک پر اٹسٹنٹوں نے اپنا مذہب جاری کرنے کے لیے کیسے کیسے ظلم و ستم کئے۔ پھر جان کالوں نے شاہ سروٹیس کو ترغیب دی کہ جو ہمارے مذہب کو نہ مانے قتل کیا جاوے۔ پھر اسپین میں مسلمانوں پر پادریوں نے کیا کچھ جورو ستم نہ کئے۔ ہندوئوں میں ویدیوں اور بدھ مذہب والوں میں سالہا سال تک کیسے کیسے قتل عام ہوئے۔ پس اگر مذہبی آزادی خدائی حکم ہے تو یہ ان رحم دل لوگوں نے کیوں کیا اور اب روشن دماغ گورنمنٹیں دنیاوی حقوق کے لیے اور محض انسانی آزادی مٹانے اور بنی نوع کو غلامی کی قید میں لانے کے لیے کیسی کیسی خونریزی کیا کرتے ہیں اور کیسی کیسی مکر و فریب اور بدعہدی و بےرحمی کا استعمال کرتی ہیں جو انسانی سیرت کے لیے بدنما دھبہ ہے۔ 12 حقانی
Top