Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور (اے مسلمانو ! ) جو تم سے لڑتے ہیں تم بھی ان سے اللہ کی راہ میں لڑو اور زیادتی نہ کرو۔ خدا ہرگز زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
ترکیب : قاتلوا فعل انتم اس کا فاعل فی سبیل اللہ اس کے متعلق الذین یقاتلونکم جملہ مفعول ولا تعتدوا معطوف ہے قاتلوا پر اللہ اسم ان لایحب الخ خبر واقتلوا فعل انتم فاعل ھم مفعول حیث متعلق ہے اقتلوا سے وقس علیہ اخرجوھم والفتنۃ مبتدا اشد الخ خبر حتیٰ بمعنی کے اور ممکن ہے کہ بمعنی الی ان ھو لا تکون کان تامہ اور یکون میں بھی کان تامہ اور جو دونوں کو ناقصہ کیا جاوے تو للہ خبر عدو ان اسم لا الاعلی الظالمین خبرلا۔ تفسیر : پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ نیکی گھروں میں پیچھے سے آنے میں نہیں بلکہ نیکی تقویٰ ہے اور تقویٰ کی بڑی شاخ اللہ کے دشمنوں سے لڑ کر زمین کو کفر و معاصی اور دیگر فساد سے پاک کرنا ہے جس کی بھلائی اور جس کا عام فائدہ آیندہ نسلوں تک باقی رہتا ہے۔ اس لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قتل فی سبیل اللہ یعنی جہاد کا حکم دیا۔ نبی ﷺ صحابہ کبار کے ساتھ بارادہ حج مدینہ سے کوچ کرکے مکہ کی طرف چلے اور جب مقام حدیبیہ 3 ؎ آئے تو کفار قریش نے آپ کو روک دیا اور کئی روز تک آپ وہاں ٹھہرے رہے اور آخر واپس چلے آئے۔ پھر اگلے سال حج کی تیاری کی اور صحابہ کو خوف ہوا کہ قریش بجنگ پیش آئیں گے اور ان مہینوں میں صحابہ جنگ کرنے کو نہایت مکروہ جانتے تھے۔ اس کشمکش میں تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں خدا تعالیٰ نے ان سے جنگ کرنے کی رخصت دی اور بوقت ضرورت تلوار اٹھانے کی اجازت دی کہ اے مسلمانو ! خدا کی راہ میں جنگ کرو مگر زیادتی نہ کرو بچوں اور عورتوں اور بڈھوں کو نہ مارو سبز درختوں کو نہ کاٹو ‘ عہد شکنی نہ کرو۔ کس لیے کہ خدا کو زیادتی کرنے والے پسند نہیں اور جب تم میں اور ان میں کوئی عہد قائم نہ ہو تو ان کو جہاں پائو قتل کر ڈالو اور جس طرح انہوں نے تم کو مکہ سے باہر نکال دیا ہے ٗ تم بھی ان کو وہاں سے نکال دو اور یہ خیال نہ کرو کہ ہم نے ان کو مقام مقدس میں قتل کیا اور وہاں سے نکالا کیونکہ وہ وہاں فتنہ اور فساد کرتے ہیں اور فتنہ تو قتل سے بڑھ کر ہے جس کا نتیجہ خرابی بلاد اور پریشانی عباد ہے۔ مگر مسجد الحرام کے پاس ان سے جنگ نہ کرو جب 3 ؎ مکہّ کے قریب ایک جگہ ہے۔ 12 منہ تک کہ وہ وہاں تم سے جنگ نہ کریں اور اگر وہ وہاں حرمت خانہ کعبہ ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے جنگ کریں تو تم وہیں ان کو قتل کرو۔ کس لیے کہ خدا کے دشمنوں کی یہی سزا ہے اور جو وہ باز آجاویں اور توبہ کرلیں تو خدا بھی غفور الرحیم ہے اور کفار سے لڑتے رہو جب تک کہ دنیا پر فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور احکام الٰہی پر بےروک و ٹوک عمل درآمد ہونے لگے۔ متعلقات فتنہ کے لغوی معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں اور اسی لیے نعمت اور مصیبت کو بھی فتنہ کہتے ہیں کہ اس حالت میں صبر و شکر کے بارے میں آزمائش ہوتی ہے مگر اس جگہ مراد ابن عباس ؓ کے نزدیک کفر و شرک ہے کیونکہ اس سے زمین پر فساد اور خرابی پھیلتی ہے جس سے ظلم اور باہمی قتال وجدال پیدا ہوتا ہے جو موضع آزمائش ہے اور دیگر علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد فساد اور ظلم وغیرہ قبائح ہیں اور شرک و کفر بھی اس میں شامل ہیں۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اولاً یوں فرمایا کہ جو تم سے لڑے تو تم بھی اس سے لڑو اور مسجد الحرام کے پاس حتی المقدور جنگ سے اولاً باز رہو گویا یہ جنگ بحالت مدافعت ہے مگر زمین کا ہر قسم کی برائی اور جورو ظلم سے پاک کرنا عالم بالا کا اصل منشا تھا اور اس لیے خدا تعالیٰ نے عرب کے ملک میں وہ نبی برپا کیا کہ جس کی اجمالی خبر کتب مقدسہ بالخصوص 50 زبور 1 ؎ میں ہے اور جس کی معرفت زمین پر آسمانی سلطنت کا ظاہر ہونا مقدر تھا اور ان شریر لوگوں کی گوشمالی اور سزا علم الٰہی میں ٹھہر چکی تھی کہ جن سے تورات و دیگر صحائف 2 ؎ میں خطاب کرکے فرمایا گیا تھا کہ بدوں کو بھوسی 3 ؎ کی طرح چھانٹے گا اور آتشی شریعت سے بت پرستی اور شرارت کو مٹا دے گا اور یہ کام بعد موسیٰ (علیہ السلام) کے پورا پورا سرانجام پانا آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر مقدر تھا کہ آپ خدا کے نائب بن کر زمین پر ہر قسم کی نیکی پھیلائیں۔ اسی لیے حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للّٰہ فرما کر حکم دیا واقتلوھم حیث ثقفتموھم قرآن مجید میں یہ اول آیت ہے کہ جس میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مکہ میں تھے تو کفار قریش نے خود آنحضرت ﷺ پر اور مسلمانوں پر نہایت ظلم و ستم کئے تھے۔ یہاں تک کہ مکہ سے نکال دیا اور بہت لوگ ملک حبش میں چلے گئے اور خود آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو ادائے فرائض اور عبادتِ الٰہی سے روک دیا تھا۔ ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دی۔ مخالفین اسلام کے جہاد پر اعتراضات : مخالفین اسلام محض تعصب وعناد سے جہاد کے بارے میں یہ اعتراض کرکے اسلام پر دھبہ لگایا کرتے ہیں۔ (1) یہ کہ بردباری اور فروتنی اور باہمی محبت اور عفو کا مسئلہ جو اور کتب انبیاء بالخصوص انجیل میں ہے (کہ جو تیرے ایک گال پر طمانچہ 1 ؎ 50 زبور میں جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا ہے اے پہلوان تو اپنی تلوار کو جو تیری حشمت اور بزرگواری ہے حمائل کر کے اپنی گردن پر لٹکا۔ 12 منہ 2 ؎ ہمارا بادشاہ آوے گا اور چپ چاپ نہ رہے گا آگ اس کے آگے آگے فنا کرتی جائے گی اور اس کے گردا گرد شدت سے طوفان ہوگا وہ اوپر آسمان کو طلب کرتا اور زمین کو بھی تاکہ اپنے لوگوں کی عدالت کرے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا اس کے مطابق ہیبت اور شوکت سے ظہور ہوا اور دنیا میں کامل عدالت بھی کی۔ 12 منہ 3 ؎ انجیل متی کے 3 باب میں ہے توبہ کرو کیونکہ آسمانی بادشاہت نزدیک ہے۔ (11) وہ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے قابل نہیں۔ اس کا چھاج اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے کھلیان کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کو کہتے ہیں جمع کرے گا پھر بھوسی کو اس آگ میں جو کبھی نہیں بجھتی (دوزخ) میں جلاوے گا۔ 12 منہ مارے تو اس کی طرف دوسرا گال کر دے اور جو تیرے لیے برا چاہے تو اس کی بھلائی چاہ) قرآن واسلام اس سے خالی ہے بلکہ برخلاف ہے۔ (2) برخلاف تمام انبیائِ سابقین کے لوگوں پر بزور شمشیر اسلام میں لانے کی تاکید ہے اور جو اسلام نہ لاوے اس کو بےرحمی سے قتل کرنا اور اس کی جورو اور معصوم بچوں کو لونڈی و غلام بنانا اور اس کے گھر بار کو لوٹنا عام دستور اہل اسلام کا ہے۔ (3) اس جہاد کے مسئلہ نے مسلمانوں کو ہر ایک قسم کے ظلم و زیادتی کی غیر مذہب والوں کے ساتھ اجازت دے دی یہاں تک کہ جو مسلمان غیر مذہب بادشاہوں کے ملک میں امن پا کر رہتے اور ان کے سایہ حفاظت میں پرورش پاتے ہیں ان کے ساتھ بدعہدی کرنا اور جس غیر مذہب والے پر قابو پانا اس کو مار ڈالنا اور بادشاہ کے ساتھ بغاوت کرنا ‘ بدخواہی کرنا اسلام میں باعث ثواب ہے حالانکہ یہ وہ باتیں ہیں کہ جن کو نہ الہام قبول کرتا ہے نہ عقل تسلیم کرتی ہے بلکہ یہ امور تمدن کے بھی صریح برخلاف ہیں۔ پھر ایسی باتوں کے مروج کو کیونکر نبی کہا جاوے ؟ اور اسی لیے اس وقت کے جس قدر روشن دماغ ہیں وہ بھی انتظام مملکت میں شریعت کو دخل نہیں دیتے اور جو اس پرانے وحشیانہ قانون پر چلتے ہیں تو ان کے ملک بھی برباد اور تنزل پذیر ہیں۔ مخالفین بالخصوص یورپ کے ملحد اور ان کے مرید مشنری ان اعتراضات پر بڑے نازاں ہیں۔ (1) واضح ہو کہ علم اخلاق کے احکام دو قسم ہیں۔ ایک وہ کہ جن کی پابندی ہر شخص کے لیے ضروری ہے ٗ دوسری وہ کہ جن کی پابندی کے مستحق خاص خاص لوگ بوجہ حصول مزید درجات ہیں۔ عام لوگوں سے ان پر عمل ہو نہیں سکتا مثلاً جو کوئی کسی کو قتل کرے یا چوری یا غصب سے کسی کا مال لے لیوے اور کسی قسم کی تعدی کرے اس کا معاف کردینا خاص لوگوں کا کام ہے لیکن کوئی شریعت اور کوئی نبی اس حکم کو عام نہیں کرسکتا کیونکہ اگر ایسا ہو تو دنیا میں ظلم و ستم کا دروازہ کھل جاوے۔ کبھی ایسی باتوں پر عمل کیا ہے ! ہرگز نہیں بلکہ یہ مکارم اخلاق خاص لوگوں کا خاص وقت میں دستور العمل ہوسکتا ہے قانون عام نہیں ہوسکتا۔ ہندو اپنے مذہب کو بڑا ہی رحیم کہتے ہیں۔ آدمی تو کیا کسی جاندار کا قتل کرنا بھی روا نہیں رکھتے۔ پھر کوئی دھرماتما ہندو یہ بتلا سکتا ہے کہ اس قانون کا فائدہ اور اثر سوا اس کے صرف زبانی جمع خرچ ہو اور بھی کچھ کسی زمانہ میں ہوا ہے ؟ جن زمانوں کو یہ ست جگ اور دوا پرکھ کے ان کے متبرک ہونے پر بڑی خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ کیا ان میں ان کے انہیں بزرگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے یہ مقولے ہیں سینکڑوں آدمیوں کی جانیں تلف نہیں ہوئیں ؟ مہابھارت سے کوئی ہندو ناآشنا نہیں۔ اس سے بخوبی ثابت ہوا کہ ایسی عفو اور رحمدلی اور بردباری کی باتیں جس مذہب میں ہیں وہ خاص لوگوں کے لیے ہیں نہ یہ کہ عموماً قوم کے لیے قرآن مجید میں بھی یہ مکارم اخلاق بہت کچھ مذکور ہیں۔ سورة حم سجدہ میں فرماتا ہے ولا تستوی الحسنہ ولا السیئۃ ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم وما یلقہا الا الذین صبروا ومایلقہا الاذوحظ عظیم ” بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں تو برائی کے جواب میں بھلائی کر پھر جو تیرا دشمن بھی ہے وہ بھی نہایت دوست ہوجاوے گا یہ خصلت صابرین اور بڑے نصیبے والوں کو نصیب ہوتی ہے “۔ اب دیکھئے اس میں بلا لحاظ مومن و کافر ہم قوم و غیر قوم و بلا قید یگانہ و بیگانہ کس قدر رحمدلی و بردباری اور عفو کی تعلیم ہے کہ جو دوسرے گال پھیر دینے کے اندر نہیں کیونکہ اس میں تو دشمن کے ساتھ بجائے صبر کے نیک سلوک کی بھی تعلیم ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے ان اللہ یاْمرکم بالعدل والاحسان الآیۃ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ تم عدل و انصاف کرو اور اسی پر بس نہ کرو بلکہ بلا قید مومن و کافر یگانہ و بیگانہ سب کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ پھر نیک سلوک میں کوئی قید نہیں بلکہ عام رکھا ہے ایک جگہ فرمایا ولکن البرمن امن باللہ والیوم الاخروالملئکۃ والکتب والنبیین واتی المال علی حبہ ذوی القربٰی والیتمٰی والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب اس آیت میں بلا قید مومن و کافر اپنے بیگانوں سب کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے ولمن صبر وغفران ذلک لمن عزم الامور اور اسی طرح بیشمار آیات ہیں اور احادیث صحیحہ اس بارے میں بکثرت ہیں۔ علاوہ اس کے جناب پیغمبر خدا علیہ الصلوٰاۃ والسلام کی رحمدلی اور فروتنی اور بردباری اور مخالفوں کے ساتھ قدرت پا کر نیک سلوک کرنا ضرب المثل ہے۔ ایسے صدہا واقعات فن سیرت میں موجود ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ اسلامی رحمدلی اور خود پیغمبر (علیہ السلام) کی نرم دلی ‘ بردباری ‘ تواضع و عفو کا کچھ انتہا نہ تھا۔ آپ کے جانشینوں کے اخلاق و عادات بھی باوجود یکہ وہ بڑی بڑی سرسبز اور عالیشان سلطنتوں کے مالک ہوگئے تھے ٗ نہایت رحیمانہ عفو و حلم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی بےنظیر فتوحات کا جو ان کو قرن اول میں نصیب ہوئیں ‘ یہ بھی ایک بڑا سبب تھا۔ الحاصل جس نے قرآن و احادیث کو پڑھا ہے وہ مکارم اخلاق سے جو اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانہ پر ہو ٗ قرآن اور اسلام کو خالی رہنے کا الزام نہیں لگا سکتا مگر اس کے ساتھ قوانین معدلت اور سرکشوں اور گمراہوں اور گمراہ کنندوں کے سرنگوں کرنے کا مسئلہ بھی ضرور قرآن میں ہے جس کا سلسلہ انبیاء ہمیشہ سے خوشخبری دیتا آیا ہے اور جسکی بلحاظ ادا کرنے فرض منصبی مذہب کو از حد ضرورت ہے۔ (2) اسلام میں کہیں بزور شمشیر مسلمان کرنے کا حکم بھی نہیں چہ جائیکہ تاکید بلکہ اس کے برعکس حکم ہے تاکید نہیں بلکہ علانیہ لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی یعنی دین میں کسی پر کچھ زبردستی نہیں گمراہی اور ہدایت میں فرق ظاہر ہوگیا۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ زبردستی مسلمان ہوجاوے۔ زنا 1 ؎ ٗ شراب خواری ‘ قمار بازی وغیرہ رسوم کو کیوں بزور مٹایا اور کیوں بت پرستی کو جرم قرار دیا تو یہ محض بیہودہ اعتراض ہے۔ کیا اس وقت کے روشن دماغ جرائم کو بزور نہیں مٹاتے ؟ اور بعد جنگ کے مخالفوں کے مال و اسباب ضبط نہیں کرتے۔ ان کو قید میں نہیں ڈالتے۔ اسی طرح اسلام آسمانی باغیوں کے ساتھ کرتا ہے اور ان کو قید غلامی کی سزا دیتا ہے۔ اگر اس پر اعتراض ہے تو پھر دیندار عیسائی انبیائِ بنی اسرائیل پر بھی اعتراض کریں کہ جنہوں نے زن و بچہ بلکہ جانوروں تک بھی مخالفوں کا زندہ نہ چھوڑا تورات اور کتاب یوشع وغیرہ کو ملاحظہ فرمایئے۔ (3) اسلام نے غیر مذہب والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ٗ قتل و بد عہدی کی ہرگز اجازت نہیں دی نہ جس بادشاہ کے امن میں آرام پائیں اور نہ فرائضِ مذہبی کو بہ آزادی ادا کریں اس کے ساتھ بدعہدی اور بدخواہی کی رخصت دی ہے بلکہ عہد پورا کرنے کی نہایت تاکید ہے والموفون بعہدھم ابھی آیت سابقہ میں آچکا ہے اور متعدد مواضع میں آیا ہے اور احادیث میں بکثرت وارد ہے۔ ہرقل شاہ روم اوردیگر مخالفین اسلام شاہوں کے ملک میں جب صحابہ تجارت یا کسی کام کو گئے انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا اور جو یہ اعتراض کرتا ہے وہ اسلام اور قرآن پر بہتان باندھتا ہے یا ناواقف ہے۔ جہاد کے مواقع : اسلام صرف ان چند صورتوں میں جہاد کی اجازت دیتا ہے اور حسب ضرورت تاکید بھی فرماتا ہے۔ اول یہ کہ مخالفین اسلام مسلمانوں کے ملک اور معابد پر قبضہ کرنے کے ارادہ سے حملہ آور ہوں اور مسلمانوں پر چڑھائی کریں جیسا کہ احزاب کا واقعہ۔ دوسرے یہ کہ کسی جگہ مسلمانوں اور کافر قدیم سے ملے جلے رہتے ہیں اور پھر کفار ان کو ادائیگی مراسم مذہبیہ سے منع کریں اور جلاوطنی پر مجبور کریں اور محض اسلام کی وجہ سے ظلم وتعدی کرنا شروع کریں جیسا کہ کفار قریش نے مکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس صورت میں اگر وہاں کے لوگوں کو مقابلہ کی طاقت نہیں تو اسلام کو مخفی نہ کریں اور مراسم اسلامیہ سے باز رہنا اختیار نہ کریں بلکہ وطن چھوڑ کر کسی دار اسلام میں چلے جاویں اور اس کو ہجرت کہتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں فرض ہے جیسا کہ صحابہ اور خود نبی علیہ الصلوٰ والسلام نے کیا۔ اس صورت میں باہر جا کر جمعیت بہم پہنچا 1 ؎ پیغمبر (علیہ السلام) اور ان کے جانشینوں نے مصلحت ملکی و مذہبی کے لحاظ سے اس بات کی ضرور کوشش کی کہ غیر مذہب برّ عرب میں رہنے نہ پائے باہر چلا جائے اس کے سوا اور ممالک میں مسلمان اور مشرک و غیر مذاہب کے لوگ سلطنت کے مطیع رہ کر مساوی درجوں پر بودوباش کے مجاز تھے پر عرب سے باہر کرنے کو اگر کسی نے بزور شمشیر اسلام لانے پر مجبور کرنا سمجھ لیا ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے اسلام بےقصور ہے۔ 12 منہ حقانی کر ضرور مخالفین کو مغلوب کریں جس طرح کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ سے آکر مکہ فتح کیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی قوت و شوکت اور سامان حرب و قتال بہم پہنچا کر اپنے آس پاس کے بادشاہوں اور قریب و بعید کے ملکوں کو دین حق کی منادی کریں اور بت پرستی اور دیگر رسوم قبیحہ ترک کرنے اور امور فطرت کے اختیار کرنے کا حکم دیویں (کس لیے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے راستی اور آسمانی سلطنت قائم کرنے کے لیے جناب نبی ﷺ کو بھیجا ہے جیسا کہ کتب مقدسہ سے بھی ثابت ہے اور آپ کے بعد الی یوم القیامۃ آپ کے جانشین اس کام پر مامور ہیں) ۔ اگر وہ لوگ امر حق اختیار کرلیں اور فساد سے باز آویں تو ان سے کچھ نہ کہیں اور نہ ان کو ماتحتی اسلام پر مجبور کریں اور اگر یہ بھی نہ مانیں تو اخیر درجہ جس طرح آج کل مہذب گورنمنٹیں دفع فساد کے لیے فوج کشی کرتی ہیں ٗ شاہ اسلام لشکر کشی کرے جیسا کہ شام و ایران وغیرہ بلاد پر صحابہ نے لشکرکشی کی مگر لڑکے ٗ عورتوں ٗ بڈھوں کو نہ مارے کھیتیاں نہ اجاڑے۔ پس ان صورتوں میں جبکہ طرفین سے جنگ قائم ہوئی ہے تو سوائے واغلظ علیہم اور واقتلوھم حیث وجدتموھم کے اور کیا ہوتا ہے ؟ جس قدر کفار پر سختی اور قتل میں سعی کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تاکید ہے سو وہ خاص ان صورتوں میں ہے اور انہیں کے لیے قرآن میں جا بجا تاکید ہے اور انہیں میں مارے جانے سے شہادت ملتی ہے اور انہیں کے اجر وثواب قرآن مجید میں جا بجا مذکور ہیں۔ باقی اور سب صورتوں میں وہی رحمدلی اور عفو ورنہ عدل و انصاف اب فرمایئے کونسا اعتراض ہے ؟ 1 ؎ 1 ؎ اور جو ناانصاف یہود و نصاریٰ اب بھی اعتراض سے باز نہ آئیں اور ملحدانہ طور سے کہیں کہ قرآن نے ریلجس لبرٹی اور کا نشسنس کا ستیاناس کردیا اور مذہبی آزادی کو باقی نہ رکھا اور آسمانی حقوق کے لیے کیوں تلوار اٹھائی اور کیوں کافروں پر قہر و غضب ظاہر کیا۔ تو اس سے پیشتر وہ بائبل اور اپنے دینی پیشوائوں پر بھی اعتراض جماویں کہ جنہوں نے مذہبی جنگ قائم کی اور جنہوں نے کفار سے عہد باندھنے کی بھی سخت ممانعت کردی۔ چناچہ تورات سفر خروج کے 22 باب 18 درس میں ہے تو جادوگرنی کو جینے مت دے جو کوئی چارپائے سے مباشرت کرے مارا جائے جو کوئی خدا کے سوا اور معبود کے لیے قربانی کرے مارا جاوے عذاب دے کر پھر 17 باب میں قوم عمالیق سے جنگ کی اور نسل در نسل ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ پھر 23 باب میں خدا کا کفار سے دشمنی رکھنا اور تمام کفار کی ہلاکت کا وعدہ کرنا اور ان سے معاہدہ کرنے کی سخت ممانعت مذکور ہے۔ پھر 32 باب میں بسبب گو سالہ پرستی کے بھائی کو بھائی اور دوست کو دوست کے ہاتھ سے قتل کرنے کا حکم اور نیز ہزاروں کا قتل ہونا بھی مندرج ہے۔ پھر کتاب استثناء کے 2 باب میں جسوں کے بادشاہ موری سے جنگ کرنے کا حکم ہے۔ پھر 3 باب میں عوج کو اس کی تمام قوم سمیت قتل کرنا مذکور ہے جس میں ان کی عورتیں اور معصوم بچے بھی بحکم خدا قتل کئے گئے۔ اسی طرح سینکڑوں مقامات ہیں۔ پھر کتاب یشوع کو دیکھئے کہ اس میں کافروں کے ساتھ کیا بےرحمانہ برتائو لکھا ہے اور زن و مرد جانداروں تک نبی نے تہ تیغ بےدریغ کیا ہے۔ اب عیسائیوں کے بزرگوں کی طرف آئیے قسطنطین اعظم نے عیسوی چوتھی صدی میں مذہبی قتل عام کیا۔ پھر ایرین چرچ نے مقلدین اتا نسیس کو کس بےرحمی سے افریقہ میں قتل کیا اور روس چرچ کرنے جرمن و برطانیہ و فرانس میں اور ٹلی کے شمال میں الیس کے پہاڑوں میں دریائے خون خاص مذہب کے لیے بہائے۔ آسٹریا میں تیس برس تک مذہبی جنگ رہی۔ ملک فرانس میں چارلس نہم عیسائی نے تین لاکھ پر اٹسٹنٹ کو بےرحمی سے قتل کیا بلکہ کو ئن میری اور لوئیس چہاردہم نے کیسا قتل عام مذہب کے لیے کیا اور ہنری ششم شاہ انگلستان نے کا تھولیک لوگوں کو قتل کرکے مذہب پر اٹسٹنٹ پھیلایا۔ پھر انگلستان میں ایک سو تیس برس تک پر اٹسٹنٹوں نے اپنا مذہب جاری کرنے کے لیے کیسے کیسے ظلم و ستم کئے۔ پھر جان کالوں نے شاہ سروٹیس کو ترغیب دی کہ جو ہمارے مذہب کو نہ مانے قتل کیا جاوے۔ پھر اسپین میں مسلمانوں پر پادریوں نے کیا کچھ جورو ستم نہ کئے۔ ہندوئوں میں ویدیوں اور بدھ مذہب والوں میں سالہا سال تک کیسے کیسے قتل عام ہوئے۔ پس اگر مذہبی آزادی خدائی حکم ہے تو یہ ان رحم دل لوگوں نے کیوں کیا اور اب روشن دماغ گورنمنٹیں دنیاوی حقوق کے لیے اور محض انسانی آزادی مٹانے اور بنی نوع کو غلامی کی قید میں لانے کے لیے کیسی کیسی خونریزی کیا کرتے ہیں اور کیسی کیسی مکر و فریب اور بدعہدی و بےرحمی کا استعمال کرتی ہیں جو انسانی سیرت کے لیے بدنما دھبہ ہے۔ 12 حقانی
Top