Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
ایمان والو ! ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں کھاؤ (پیو) اور اللہ کا شکر ادا کیا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
ترکیب : یا حرف ندا۔ ایہا الخ منادی کلوا کا مفعول محذوف ہے ای کلوارزقکم اور من اخفش کے نزدیک زائدہ ہے انا کلمہ حصر حرم فعل ضمیر راجع طرف اللہ کے اس کا فاعل میتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ معطوف یکے بعد دیگرے اس کا مفعول فمن شرطیہ غیر باغ حال ولاعاد اس پر معطوف فلا اثم جواب شرط۔ تفسیر : اول آیت میں خدا تعالیٰ نے عام لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ہماری پاک اور حلال چیزیں کھائو، یہاں خاص مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ تم ان احمقوں کی باتوں میں نہ آئو۔ ہماری پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے پاک چیزیں شوق سے کھائو پیو اور ہماری نعمت کا شکر کرو کہ ہم نے ان چیزوں کو تمہارے لیے پیدا کیا ہے مگر جن چیزوں کو وہ لوگ پاک سمجھتے ہیں ٗ ان میں سے صرف یہ چار چیزیں حرام و ناپاک ہیں ٗ ان کو نہ کھانا۔ اول مردار ٗ دوم خون ٗ سوم سور کا گوشت ٗ چہارم وہ جو غیر اللہ یعنی بتوں کے نام زد ہوجاوے یا ان کے نام سے ذبح کیا جاوے اور جب کوئی اس طرح بھوک کے مارے ناچار ہوجائے تو اس وقت ان چیزوں کے کھانے میں بھی گناہ نہیں بشرطیکہ سدِّرمق ہو حد سے متجاوز نہ ہو اور خدا کی عدول حکمی اور سرکشی بھی مقصود نہ ہو۔ خدا غفور و رحیم ہے۔ اگر تم سے کھانے میں بشریت سے کچھ زیادتی ہوگئی تو معاف کر دے گا۔ اب ہم آیت کا مطلب بیان کرکے چند ابحاث بیان کرتے ہیں کہ جو الفاظ قرآن سے متعلق ہیں اور جن پر بہت سے مسائل فقہیّہ متفرع ہیں۔ بحث اول : کلوا یعنی کھائو۔ یہ امراباحت کے لیے ہے یعنی طیبات کا کھانا جو فرمایا تو اس سے مقصود اجازت اور پروانگی ہے۔ فرض نہیں ہے لیکن کھانا اس وقت میں کہ خوف ہلاکت ہو ٗ حفظ جان کے لیے واجب ہوجاتا ہے اور کبھی نعمائِ الٰہی کا کھانا مہمانوں کا ساتھ دینے کے لیے مستحب ہوتا ہے اور اسی طرح افطاری اور ولیمہ اور مریض وغیرہ کے لیے اگر کوئی تکلف کا کھانا پکاوے تو مستحب ہے۔ جیسا کہ حضرت زید بن علی بن حسین (علیہم السلام) سے منقول ہے۔ البتہ نفس تازہ کرنے کے لیے ایسے امور کا عادی ہونا مذموم ہے۔ اسی لیے صحابہ ؓ اور تابعین ان لذائذ سے حتی المقدور دور رہتے تھے۔ بحث دوم : طیبات طیبہ کی جمع ہے اور طیب کے معنی پاک اور مزیدار کے ہیں کہ جس میں کچھ مضرت نہ ہو اور حلال وہ کہ جس کو شرع نے ممنوع نہ کیا ہو۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شریعت نے ان ہی چیزوں کو حرام و ممنوع کیا ہے کہ جن میں انسان کے لیے مضرت ہے ٗ خواہ یہ مضرت اس کے بدمزہ اور ردی الکیفیت ہونے کی وجہ سے ہو کہ جس کو طبیعت قبول نہیں کرتی۔ جیسا کہ مردار وغیرہ اشیاء یا اس وجہ سے کہ اس کے اخلاق اور عادات میں نقصان اور برائی پیدا کرتے ہیں۔ جیسا کہ سور اور دیگر درندوں اور شکاری جانوروں کا گوشت کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایسی چیزوں کے کھانے سے بےحیائی اور سخت دلی پیدا ہوتی ہے اور یہ اس لیے کہ غذا جزو بدن ہوتی ہے اور اپنا اثر کھانے والے میں پورا پورا پیدا کرتی ہے اور اسی وجہ سے سود اور چوری اور غصب اور دیگر ناجائز پیشوں کی کمائی حرام کی گئی کہ ان سے اخلاق انسانی میں فتور پڑتا ہے۔ دیکھئے سود خوار کس درجہ کے بےرحم ہوتے ہیں کہ مفلس بھائی سے ایک کے سو لے کر بھی پیچھا نہیں چھوڑتے یا اس وجہ سے کہ اس کے حواس سلیمہ اور عقل میں فتور برپا کرتے ہیں جیسا کہ شراب وغیرہ مسکرات اور جب طیب کے یہ معنی ہوئے تو اس لیے نبی ﷺ نے اس کی ہر ایک صورت کی مختلف عبارتوں سے تفسیر فرمائی ہے۔ کبھی طیب اس کے کسب حلال کو قرار دیا اور کہیں اشیائِ غیر مضرہ کو فرمایا۔ یہ باتیں ظاہر ہے کہ طیب کے معنی میں ہر قوم اور ہر ملک بلکہ ہر شخص کا جداگانہ خیال ہے جن چیزوں کو بہت سے اہل عقل سلیم ناپاک اور مضر اور نفرت کے قابل جانتے ہیں۔ سینکڑوں ان کو اچھا سمجھتے ہیں۔ بعض کو یہ افراط ہے کہ کوئی بھی نہیں چھوڑتے حتیٰ کہ مردار کے کیڑے بھی بڑے مزے سے کھاتے ہیں چہ جائیکہ برانڈی شراب اور موٹے تازے سور اور اسی طرح سود اور زناکاری کی کمائی کو بھی رفاہ قوم اور ترقی ملک و دولت اور لوگوں کی حاجت براری کا باعث جان کر نہایت اچھی کمائی جانتے ہیں اور بعض کو اس تفریط نے گھیرا کہ صدہا پاک اور عمدہ چیزیں بھی حرام کر رکھی ہیں۔ جیسا کہ گوشت بالخصوص گائے کا گوشت اور ان کے پیشوائوں نے تو عمدہ کھانے اور سرد پانی اور اچھا کپڑا اور بیوی کے پاس جانا بھی حرام کردیا۔ پس جب یہ حال تھا تو خدا تعالیٰ نے طیب کی تشریح بھی الہام ربانی کے اختیار میں رکھ کر پہلی آیت میں طیب کو حلال کے ساتھ مقید کیا اور یہاں من تبعیضیہ لا کر آگاہ کردیا جن کو عوام کالانعام طیب سمجھتے ہیں وہ سب نہیں بلکہ اس میں سے وہ کہ جو دراصل طیب ہے اور میں نے اس کو تمہارے کھانے کے لیے پیدا کیا ہے مارزقنکم (اس پر دال ہے) اور اس سے آیت میں جس طرح اس قوم اہل تفریط کا رد ہے کہ جس نے اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کو ازخود حرام کر رکھا تھا اسی طرح اس آیت میں اس اہل افراط کا رد ہے کہ جو شتر بےمہار ہوگئے تھے اور جو لوگ پاک چیزوں کو عبادت سمجھ کر نہ کھاتے تھے ٗ ان کی یوں تسلی کہ تم ان نعمتوں کو کھا کر میرا شکر کرو۔ ایسے مزے کے وقت خدا کو یاد کرنا اور اس کا تہ دل سے شکر بجا لانا بڑی عبادت ہے۔ واشکروا للہ ان کنتم ایاہ تعبدون۔ بحث سوم : انما حرم علیکم المیتۃ الخ لفظ انما حصر کے لیے آتا ہے جس کے معنی صرف یا فقط کے ہیں۔ اب یہاں ایک شبہ ہوتا ہے کہ اس آیت میں اور نیز سورة انعام (قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ اودما مسفوحا اولحم خنزیر) انہیں چند چیزوں کا ذکر ہوا ہے یعنی مردار ٗ خون ٗ سور کا گوشت اور جو کہ غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا جاوے یا ان کے نام سے پکاری جاوے حالانکہ ان کے سوا اور بھی چیزیں حرام ہیں جیسا شیر و بھیڑیا ٗ ریچھ ٗ کتا وغیرہ درندے اور باز ٗ چیل ٗ کوا وغیرہ شکاری پرندے اور اسی طرح حشرت الارض سانپ ٗ بچھو ٗ نیولا ٗ چوہا وغیرہ اور اسی طرح مردار خور اور نجاست کھانے والے جانور جیسا کہ گد اور لم ڈھینگ وغیرہ اور اسی طرح قرآن میں بھی ان چار چیزوں کے علاوہ اور حرام چیزیں مذکور ہیں جیسا کہ خمیر یعنی شراب اس کا جواب بعض کے نزدیک یہ ہے کہ کلمہ انما اس جگہ حصر کے لیے نہیں آیا اور ایسا اکثر زبان عرب میں مستعمل ہوا ہے۔ محققین یہ جواب دیتے ہیں کہ حصر اضافی ہے نہ مطلق یعنی ان چیزوں میں سے کہ جن کو تم نے ازخود اپنے لیے حرام کر رکھا ہے صرف یہ چیزیں حرام ہیں۔ المیتۃ بروزن فیعلۃ اور اس کی اصل میتوتۃ ہے۔ پس جبکہ و اور ی جمع ہوئی اور اول ساکن تھا تو و کو ی سے بدل لیا پھر ی کو ی میں ادغام کردیا لیکن کثرت استعمال سے اس کو بالتخفیف پڑھنے لگے ورنہ دراصل مشدود ہے جیسا کہ سیّد اور ہیّن۔ احکام مردار : لغت میں میتہ اس جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح مرجاوے جس کو مردار کہتے ہیں اور اسی لیے عرب مقتول اور میت کے معنی میں فرق کرتے ہیں اور شرع میں عام معنی مراد لیے گئے ہیں یعنی جو کہ بطور معمولی ذبح نہ کیا جاوے خواہ خودبخود مرجاوے خواہ ذبح معمولی نہ ہو یعنی غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو یا حلقوم نہ کاٹا گیا یا حلقوم بغیر نام اللہ کے کاٹا ہو یا مشرک نے کاٹا ہو یا پہاڑ یا دیوار پر سے گر کر مرگیا ہو یا اس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو یا اس کا گلا گھونٹ کر مارا ہو۔ ان سب کو عرف شرع میں میتہ یعنی مردار کہتے ہیں اور اس لیے سورة مائدہ میں بعد لفظ میتہ کے اور چیزیں بھی جو اس کا مصداق تھیں بطور تفسیر مذکور ہوئی ہیں۔ قال تعالیٰ حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ والمنخفۃ والموقوذۃ والنطیحۃ وما اکل السبع الاما ذکیتم وما ذبح علی النصب الآیۃ اور یہ دلیل اس پر سورة انعام کی یہ آیت ہے ولا تأکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق الآیۃ کہ جو خدا کے نام سے ذبح نہ کیا جاوے اس کو مت کھائو۔ اس لیے کہ اس کا کھانا بدکاری ہے۔ یہاں کچھ استنثاء نہیں کہ اہل کتاب کا گلا گھونٹا جانور یا ان کا جھٹکا کیا ہوا یا یوں ہی بندوق سے مارا ہوا درست ہے بلکہ وہ سب ممالم یذکر اسم اللہ علیہ میں داخل ہے اور مردار ہے۔ پس جو اس کو درست کہتا ہے وہ غلطی پر ہے اور اجماع جمہور کے بھی سراسر برخلاف ہے۔ حکمت مردار کے حرام کرنے میں یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کی سمیت پیدا ہوجاتی ہے گو وہ سمیت فی الفور اپنا اثر نہیں دکھاتی مگر بارہا تجربہ میں آیا ہے اور اسی لیے ایسا گوشت بدمزہ ہوتا ہے اور بالخاصیت روح کی تاریکی میں بھی ایسی چیزوں کو اثر ہے۔ اس لیے دونوں کے لیے دو باتیں مقرر ہوئیں۔ ذبح باسم اللہ جو حمقاء اس سِرّ سے واقف نہیں ٗ وہ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ خدا کی ماری حرام اور بندے کی ماری حلال یہ عجیب مسئلہ ہے۔ فوائد : (اول) نص قرآن سے میتہ کی حرمت ثابت ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں البتہ اس کے متعلق اور بہت سے مسائل ہیں کہ جو علمائِ دین نے احادیث یا اجتہاد سے پیدا کئے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ مچھلی اور ٹڈی اس حکم سے بحکم حدیث صحیح مستثنیٰ ہیں 1 ؎ احلت لنا میتتان ودمان اما المیتتان فالسمک والجراو واما الدمان فالکبد والطحال اور سِرّ اس کا یہ ہے کہ مچھلی کا مادہ بیشتر پانی ہے کہ جو 1 ؎ ہمارے لیے دو غیر مذبوح اور دو خون حلال کئے گئے ہیں دو غیر مذبوح مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی ہے۔ 12 بالطبع پاک ہے اور نیز اسی لیے اس میں خون نہیں کہ جس کے نکالنے کی ضرورت ہو اور ٹڈی بےتوالد و تناسل خود بخود پیدا ہوتی ہے اور نہ اس میں خون رواں ہے باوجود یکہ ان میں وہ مضرتیں بھی نہیں کہ جو اور جانوروں میں ہیں۔ اسی لیے ان کا ذبح کرنا ضرور نہ ہوا مگر جو مچھلی کہ پانی میں خود مر کر اوپر تیر آئے کہ جس کو طافی کہتے ہیں ٗ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مکروہ ہے۔ ابن عدی نے اس کو مرفوعاً روایت کیا ہے ازآنجملہ یہ کہ مردار کا صرف کھانا حرام ہے باقی اس کی کھال اور بالوں اور ہڈیوں سے نفع لینا درست ہے، اسی طرح مردار کو کتے وغیرہ جانوروں کو کھلانا درست ہے۔ ہاتھی دانت کی چیزیں اور سمور وغیرہ پوستین اور مردار جانوروں کے چمڑے بعد دباغت کے آنحضرت ﷺ کے سامنے مستعمل ہوتے تھے۔ آپ نے منع نہ فرمایا از آنجملہ یہ کہ جب کوئی جانور ذبح کیا جاوے اور اس کے شکم سے مردہ نکلے تو اس میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ میتہ ہے ٗ اس کا کھانا درست نہیں۔ ہاں اگر زندہ نکلتا اور ذبح کیا جاتا تو درست ہوتا۔ امام شافعی اور ابو یوسف اور محمد کہتے ہیں کہ اس کا کھانا درست ہے کس لیے کہ اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا ذبح کرنا ہے۔ تفسیر کبیر۔ احکامِ دم : (دم) سے مراد ابوحنیفہ کے نزدیک دم مسفوح ہے یعنی خون رواں اور امام شافعی کے نزدیک مطلق ہے۔ کس لیے کہ اس آیت میں کوئی قید نہیں۔ پس ان کے نزدیک جو خون گوشت پر جما ہو ٗ وہ بھی اور جو بہتا ہو وہ بھی سب حرام ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں چونکہ دوسری جگہ دم مقید ہے بقید مسفوح (اودما مسفوحا) تو اس جگہ بھی وہی مراد ہوگا۔ عرب خون کو جما لیتے تھے ٗ پھر اس کو توے وغیرہ پر بھون کر کھاتے تھے اور یہ اخلاق انسانی کو فاسد کرتا ہے۔ علاوہ جسمانی امراض کے یہ نجس چیز کہ جس کی نجاست بالذات انسان کو سخت دل کرتی ہے ٗ اس لیے طبائعِ سلیمہ اس سے نفرت کلی رکھتے ہیں مگر کلیجی اور تلی اگرچہ بظاہر خون بستہ ہیں مگر بحکم حدیث مذکورہ مستثنیٰ ہیں۔ اس لیے ان کا کھانا درست ہے ( لحم الخنزیر) تمام امت محمدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سور کی کل چیزیں گوشت چربی وغیرہ حرام ہیں ٗ ان کا کھانا درست نہیں مگر اس آیت میں گوشت جو ذکر کیا تو اس لیے کہ پیشتر اسی کو کھایا کرتے ہیں ( کل کو بعض اجزاء کے ساتھ تعبیر کرنا عرب کی زبان میں مروج ہے ٗ نماز کو رکوع کے ساتھ تعبیر کیا کرتے ہیں) نہ اس لیے کہ خاص گوشت حرام اور چیزیں حلال ہیں۔ اس جانور کے گوشت میں جس قدر کیڑے خورد بینوں سے حکمائِ حال نے معلوم کئے ہیں ان کے بیان کی کچھ ضرورت نہیں اور نیز بعد تحقیقات اس کے گوشت میں بیشمار مضرتیں ثابت ہوئی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس جانور میں بےحیائی اور حرص اور نجاست خوری ازحد ہے اور یہ ظاہر ہے کہ غذا کا اثر انسان کے اخلاق تک ضرور پہنچتا ہے۔ چناچہ حکماء نے اس مسئلہ کو خوب ثابت کردیا ہے۔ پس ان چیزوں کا حرام کرنا عین مصلحت اور اس حکیم مطلق کی رحمت و حکمت کا مقتضی ہے۔ بحث و ما اہل بہ لغیر اللہ : (وما اہل بہ لغیر اللہ) اہلال آواز کا بلند کرنا پس ہر پکارنے والے کو مہل کہتے ہیں اور محرم چونکہ احرام باندھتے وقت پکار کر تکبیر کہتا ہے اسی لیے اس کو بھی مہل کہتے ہیں اور اسی لیے ذبح کرنے والے کو مہل کہتے تھے کیونکہ عرب جب جانور ذبح کرتے تھے تو اپنے بتوں کا نام پکار لیتے تھے اور اسی سے ہے استہل الصبی کیونکہ وہ بوقت ولادت چلاتا ہے اور اسی لیے چاند دیکھنے والے کو مستہل کہتے ہیں۔ اب گفتگو اس میں ہے کہ اس جگہ پکارنے سے کیا مراد ہے ؟ ضحاک اور مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارنا مراد ہے اور جمہور مفسرین کا اسی طرف میلان ہے اور اسی لیے وہ عند الذبح کی قید لگاتے ہیں۔ اس تقدیر پر آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جو چیز غیر اللہ کے نام سے ذبح کی جاوے وہ حرام ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں مفصلاً مذکور ہے لیکن ربیع (رح) وغیرہ علماء کہتے ہیں کہ کوئی قید آیت میں نہیں بلکہ غیر اللہ کے نام سے کسی جانور کا نامزد کردینا یہی حرمت کے لیے کافی ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں شیخ سدو کا بکرا اور سید احمد کبیر کے نام سے گائے پکاری جاتی ہے اور ہندوئوں میں دستور ہے کہ کالی بھوانی وغیرہ کے نام سے سانڈ چھوڑے جاتے ہیں۔ عرب میں بتوں کے نام سے چھوڑتے ہیں۔ پس جب یہ جانور غیر اللہ کے نامزد ہوگئے یعنی بطور تقرب ان کو ان کے نام سے پکارا گیا تو ان میں شرک کی خباثت سرایت کرگئی اور یہ خبث باطنی اس جانور کے رگ و پے میں دوڑ گیا۔ پس جس طرح کہ سور وغیرہ کو اللہ کے نام سے ذبح کرنا کچھ فائدہ نہیں بخشتا بلکہ حرام ہی رہتا ہے اسی طرح ان جانوروں کو بھی خدا کے نام سے ذبح کرنا کچھ فائدہ نہیں دیتا بلکہ حرام ہی رہتا ہے۔ مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ اپنی تفسیر میں اسی قول کو ترجیح دیتے ہیں۔ احتیاط بھی اسی میں ہے اور قطع شرک کے لیے یہی قول مناسب ہے۔ بعض پادری پولوس کے فتوے کے بموجب کہ پاکوں کو ہر چیز پاک ہے الخ قرآن مجید پر اس قسم کے احکام سے جو حلت و حرمت اشیاء کے متعلق ہیں ٗ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں جسمانی شریعت کی ہیں اور ہیچ حالانکہ خود تورات کی کتاب احبار وغیرہ میں اس سے کہیں زیادہ چیزیں ہیں کہ جن کو حرام بتایا ہے۔ بالخصوص سور و مردار شراب کو اور پھر تمام انبیائِ بنی اسرائیل حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان حرام چیزوں سے جو ہمیشہ پرہیز کرتے چلے آئے ہیں ٗ پھر کیا وہ پاک نہ تھے۔ ان کے لیے یہ چیزیں کیوں پاک نہ ہوگئیں ؟ دراصل یہ شیطانی وسوسہ ہے ٗ پھر نفس پرست لوگوں نے اس کو اور بھی جلاد دی ہے ورنہ حقائق الاشیاء کبھی نہیں بدلتیں۔ (4) فمن اضطر اضطرار بےبسی اور ناچاری کو کہتے ہیں۔ یہ ناچاری کئی طور سے ہوتی ہے۔ اول : کوئی حلال چیز اس کے پاس (بسبب بےمقدوری کے یا بسبب نایاب ہوجانے کے جیسا کہ بیابانوں اور ایام قحط اور سفر دریا میں ہوتا ہے) نہ رہے اور یہ شخص بھوک کے مارے چل پھر نہ سکے۔ دوم : کسی مرض شدید میں گرفتار ہوجاوے اور سوائے ان چیزوں کے نہ پاوے یا طبیب متدین اس کے لیے خاص انہیں چیزوں میں سے کوئی چیز بتلا دے۔ سوم : کوئی ظالم ان چیزوں کے کھانے پر مجبور کرے اور کہے کہ اگر تو نہیں کھاتا تو میں تجھ کو مار ڈالتا ہوں یا تیرے کسی عزیز بیٹے بھائی وغیرہ کو مار ڈالتا ہوں یا ہاتھ پائوں کاٹ ڈالتا ہوں اور اس شخص کو یقین کامل ہوجاوے ٗ اگر میں نہ کھائوں گا تو یہ شخص ایسا کرے گا۔ پس ان سب صورتوں میں خدا تعالیٰ اپنی مہربانی سے بندہ کو ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دیتا ہے۔ سو ایسی صورت میں اس کیلئے مردار اور خون اور مذبوح لغیر اللہ بلکہ شراب مباح ہے بقد رفع ضرورت مگر یہ شرط ہے کہ یہ شخص باغی اور عادی نہ ہو یعنی اس کھانے میں نہ اس کو لذت مطلوب ہو نہ حد سے زیادہ تجاوز کرے۔ ایسے وقت میں بھی یہ چیزیں ناپاک اور گندی ہیں اور ان کی حرمت بدستور ہے مگر اس مخمصہ کی وجہ سے اجازت ہے ٗ کھانے والے پر کچھ گناہ نہیں اور جو کچھ کھانے میں اس سے کسی قدر بےاعتدالی ہوجاوے تو خدا غفور الرحیم ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ غیر باغ ولاعاد سے مراد یہ ہے کہ یہ شخص سرکش اور باغی نہ ہو جب اس کے لیے یہ چیزیں حالت مخمصہ میں مباح ہیں ورنہ غیر مباح اس پر یہ بات متفرع ہوئی کہ جو شخص امام سے باغی ہو اس کے لیے امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ اجازت نہ ہوگی اور امام اعظم (رح) کے نزدیک ہوگی۔ پس جو امام المسلمین یعنی شاہ اسلام سے بغاوت کرکے کہیں جاوے یا قزاقی اور راہزنی کے لیے سفر کرے یا کسی کو ناحق قتل کرنے کے لیے سفر کرے یا چوری کے لیے جاوے اور اس کو حالت مخمصہ پیش آوے تو اس کے لیے شافعی (رح) کے نزدیک یہ رخصت نہیں۔ ادلہ ہر ایک کی کتابوں میں مشرحاً مذکور ہیں۔
Top