Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
اور تمہارا خدا تو خدائے واحد ہے جس کے سوائے کوئی معبود نہیں وہ بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے۔
ترکیب : الہکم مبتداء الہ واحد موصوف و صفت خبر الا ھو مستثنیٰ موضع رفع میں ہے کس لیے کہ یہ بدل ہے موضع لا الہ سے کیونکہ محل لا کا اور جس میں کہ یہ عمل کرتا ہے رفع ہے بسبب مبتدا ہونے کے اور اگر مستثنیٰ موضع نصب میں ہوتا تو الا ایاہ ہوتا الرحمن بدل ہے ھو سے یا خبر مبتداء ہے اور یہ جائز نہیں کہ ھو کی صفت ہولان الضمیر لا یوصف اور نہ یہ کہ ہو کی خبر ہولان المستثنیٰ ہنالیس بجملۃ فی خلق السموات الخ سب جملہ یکے بعد دیگرے خبر ہیں۔ ان کے اور لآیات الخ اسم ہے ان کا۔ تفسیر : جبکہ خدا تعالیٰ کے نافرمانوں اور اس کے احکام کے چھپانے والوں اور کفر پر مرنے والوں کو یہ حکم سنایا گیا کہ ان پر خدا اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے تو اس جگہ یہ خطرہ شیطانی پیدا ہوتا تھا کہ یہ دعویٰ سرے سے غلط ہے۔ کس لیے کہ اور بھی شخص ایسے ہیں کہ جن کو خدائی اختیارات ہیں یا وہ خدائی کے حصہ دار ہیں۔ اگر ایک نے نکالا تو دوسرے کی طرف ملتجی ہوجاویں گے۔ چناچہ عموماً عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدائی کا حصہ دار جانتے ہیں اور ان کو بیٹا کہتے ہیں اور مشرکین قدیم و حال تو عناصر و آسمان و ارواح وغیرہ سینکڑوں چیزوں کو خدائی میں شریک جانتے تھے اور جانتے ہیں اور مدینہ کے بعض بیوقوف یہود بھی عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اس وسوسہ شیطانی کو باطل کردیا۔ اے بنی آدم تم سب کا ایک ہی معبود ہے پس عزیزے کہ از درگہش سر بتافت بہردر کہ رفت ہیچ عزت نیافت اور یہ اس لیے کہ اس کے سوائے عرصہ وجود میں اور کوئی معبود ہی نہیں۔ پھر اس دعویٰ کے ثبوت میں خدا تعالیٰ نے آٹھ وہ دلیلیں بیان فرمائیں کہ جن سے خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور دیگر صفات کمالیہ اور نیز اس کا وجود معلوم ہوجاتا ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ دلیلیں اس کی انعام اور بخشش کے لیے آئینہ بھی ہیں اور یہ آٹھوں چیزیں امور مذکور پر ایک وجہ سے نہیں بلکہ مختلف وجوہ سے دلالت کرتے ہیں۔ وہ آٹھ چیزیں یہ ہیں۔ (1) آسمان و زمین کی پیدائش۔ سو یہ چند طور پر دلالت کرتی ہے از آنجملہ یہ کہ افلاک متعدد ہیں اور ان میں ستارے بھی متعدد ہیں اور باوجود یکہ طبیعت جرم علوی سب میں مشترک ہے مگر ہر ایک مختلف ہے۔ کوئی آسمان بڑا کوئی چھوٹا ہے۔ اسی طرح کوئی ستارہ بڑا کوئی چھوٹا ہے اور کسی کا رنگ مائل بسرخی ہے کسی کا مائل بسفیدی اور کسی کی حرکت کسی طرف ہے اور کسی کی کسی طرف۔ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کسی قادر مختار کے قبضہ ٔ قدرت میں ہیں کہ وہ اپنے ارادہ اور اختیار سے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اگر یہ چیزیں از خود ہوتیں تو پھر باوجود اتحاد مقتضٰی کے یہ اختلافات کیسے ؟ از آنجملہ یہ کہ افلاک اور ستارے اجسام ہیں اور ہر جسم مرکب ہے اور ہر مرکب حادث ہے یعنی پہلے نہ تھا پھر ہوا اور ہر حادث کے لیے ایک محدث قدیم و قدیر ضرور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اور زمین کے مختلف حالات سے تو زیادہ تر یہ بات ثابت ہے کہ یہ کسی قادر مختار کے قبضہ قدرت میں ہے۔ (2) دنوں اور راتوں کا اختلاف کہ رات جاتی اور دن آتا ہے اور کبھی راتیں چھوٹی اور کبھی بڑی ہوتی ہیں اور اسی طرح دنوں کا حال ہے اور ایک ہی وقت میں کہیں رات ہے کہیں دن ہے آج جو ہماری رات دس یا بارہ گھنٹہ کی ہے وہی بلاد شمالیہ میں دو مہینے کی بلکہ قطب کے نیچے رہنے والوں کے لیے چھ مہینے کے برابر۔ پس یہ عجائب از خود نہیں بلکہ اس کے ہاتھ میں ہے کہ جس کے ہاتھ میں آسمان اور آفتاب کی ڈوری ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ (3) کشتی اور جہاز اور آگہنبوٹ کی روانگی ہے۔ تمام زمین پر کرہ مار محیط ہے یعنی ہر طرف پانی ہے جس کو عربی میں بحر اور اردو میں سمندر کہتے ہیں اور جو پانی کی بارش اور زمین کے چشموں یا برف کے پگھلنے سے بہتے ہیں تو ان کو عربی میں نہر کہتے ہیں۔ پس اس سمندر میں سے بقدر چوتھائی زمین اٹھی ہوئی ہے کہ جس پر یہ تمام ممالک یورپ افریقہ ایشیا وغیرہ آباد ہیں اور کہیں کہیں اور بھی بڑے بڑے جزیرے یعنی ٹاپو ہیں کہ جن میں ملک بستے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ اور کہیں کہیں سینکڑوں کوسوں تک زمین میں سمندر کی کوئی شاخ چلی گئی ہے جس کو خلیج کہتے ہیں۔ پس ان دور دراز ملکوں میں جو لوگ جاتے اور تجارت کے عمدہ عمدہ کارآمد اسباب لے جاتے ہیں تو بذریعہ ہوائی اور دخانی کشتیوں کے لے جاتے ہیں۔ اب اس بےانتہا دریا میں اس طرح سے کشتی کا چلنا اور اس کے متعلق انسان کو عمدہ عمدہ علوم اور آلات تعلیم کرنا خاص اسی خداوند تعالیٰ و تقدس کا کام ہے اور پھر اس کو پہاڑ سی موجوں سے بچانا اور ہوا کا موافق رکھنا سب اس کے ید قدرت میں ہے۔ (4) آسمانوں میں مینہ کا اتارنا یعنی بادلوں سے بارش کا نازل کرنا یہ بھی اس کے وجود قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ ہزاروں من پانی بادلوں میں بھرا ہوا ہوا کی گاڑی پر لدا ہوا ہے۔ اس کو فرشتے ادھر ادھر لیے پھرتے ہیں جہاں جس قدر ضرورت ہوتی ہے اسی قدر اس کے حکم سے نہایت سہولت سے برساتے ہیں۔ (5) اس پانی سے زمین مردہ کو زندہ کرنا یعنی اس سے ہزارہا جڑی بوٹیاں ٗ اناج گھاس عمدہ عمدہ پھل پھول کے درخت اگانا یہ سب اسی کا کام ہے باوجودیکہ ایک زمین ہے اور وہی پانی اوپر سے برستا ہے مگر ایک درخت شیریں ہے تو دوسرا تلخ بلکہ ایک ہی درخت میں کہیں سرخ پھول ہیں تو کہیں سفید۔ پھر نباتات میں جو کچھ ید قدرت نے گلکاریاں کی ہیں اس کی تو نقل کرنے میں بھی بڑے بڑے نقاش حیران و سرگرداں ہیں۔ باوجودیکہ ایک مادہ ‘ ایک پانی ‘ ایک ہوا ‘ ایک آفتاب و ماہتاب کی شعاع اس پر نباتات میں یہ کچھ اختلافات۔ پس اگر یہ سب نیرنگیاں اس قادر مطلق کے یدقدرت کی نہیں ہیں کہ جو پردہ جس کے پیچھے جلوہ گر ہے تو اور کیا ہے ؟ سچ تو یوں ہے کہ ہر ہر شجر بلکہ ہر برگ و براسی کی خداوندی کا اقرار کر رہا ہے۔ ؎ ہر گیا ہے کہ از زمین روید وحدہ لا شریک لہ گوید (6) زمین پر حیوانات کا پھیلانا ٗحیوان کی ہزارہا انواع و اقسام ہیں۔ ان کی گنتی اور شمار بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ ان کے دو قسم عام ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہیں کہ جو توالد اور تناسل کے طریق پر پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ آدمی گھوڑا وغیرہ دوسری قسم وہ ہیں کہ جو بطریق تولید پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ برساتی پانی سے سینکڑوں مینڈک اور ہزارہا جھینگر اور دیگر حشرت الارض مٹی سے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اب ان میں جو اعلیٰ اور اشرف حضرت انسان ہیں انہیں کو ملاحظہ فرمائیے۔ نطفہ جو اس کی اصل ہے اسی کو غور کیجئے کہ وہ ایک متشابہ الاجزاء چیز ہے پھر وہ کون ہے جو اس نطفہ کی تقسیم کرتا ہے۔ کسی قدر کا قلب اور کسی قدر کی ہڈی وغیرہ اعضاء بناتا ہے۔ اگر کہے کہ یہ خود اس انسان کا فعل ہے تو یہ ہنوز بنا ہی نہیں ٗ فعل کیا کرے گا اور جب یہ کامل بن کر باہر آتے اور پھر علوم و فنون میں استاد ہوجاتے ہیں تب تو ان سے ایک بال بھی نہیں بن سکتا۔ نہ ہڈی نہ چمڑا بنا سکتے ہیں تو اس حالت میں کیا کرسکتے تھے۔ اگر کہو کہ یہ طبیعت نطفہ کا فعل ہے تو وہ ہر جزو میں مساوی ہے۔ اس کا فعل بھی ہر جزو میں مساوی ہونا چاہیے تھا۔ غایۃ الامر اس کی شکل گول مول ہوتی ہے جیسا کہ بسائط کی شکل کروی ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ کاریگری اسی قادر مطلق کی ہے کہ جو پانی پر تصویر کھینچتا ہے۔ اب اس کی پرورش اور قورئے ظاہریہ و باطنیہ کو جو لحاظ کیجئے گا تو اس کو اسرارِ الٰہی کا مجموعہ اور اس کے جمال باکمال کا آئینہ کہئے گا۔ (7) ہوائوں کا بدلنا کہ جس پر اہل دنیا کی زندگانی کا مدار ہے۔ (8) ہزارہا من پانی کے بادلوں کو زمین و آسمان میں معلق کرکے رکھنا باوجودیکہ پانی کا مقتضائے طبعی نیچے آنا ہے مگر اس کے حکم سے معلق ہے۔ پھر ان دلائل میں ایک عجیب ترتیب طبعی ہے۔ اول آسمانوں اور زمین کو ذکر کیا۔ اس کے بعد رات دن کے اختلافات کو کہ جو علویات سے متعلق ہو ٗ اس کے بعد عناصر دریا اور ہوا اور بادلوں میں جو کچھ اس کی صنعت ہے ٗ اس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد موالید ثلثہ نباتات حیوانات جمادات کی طرف اشارہ کیا۔ سبحان اللہ عجب کلام ہے۔
Top