Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
ایمان والو ! صبر اور نماز سے (ہر ایک سختی میں) مدد لیا کرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
ترکیب : بالصبر متعلق ہے استعینوا سے لا تقولوا فعل انتم اس کا فاعل لمن یقتل الخ جملہ مفعول من چونکہ معنی جمع ہے اس لیے اموات میت کی جمع خبر میں لانا مناسب ہوا احیاء خبر مبتداء محذوف کی اے ہم احیاء ولَنَبْلُوَنکُمْ جواب ہے قسم محذوف کا من الخوف موضع جر میں ہے کس لیے کہ یہ صفت ہے۔ بشیء کی من الاموال موضع نصب میں ہے کس لیے یہ صفت ہے محذوف کی تقدیرہ و نقص شیء من الاموال لان النقص مصدر ھو متعدالی مفعول وقد حذف المفعول۔ الذین اذا اصابتہم موضع نصب میں ہے کس لیے یہ صفت ہے صابرین کی قالوا انا للہ جواب ہے شرط کا اولئک مبتداء و صلوات مبتداء ثانی اور علیہم اس کی خبر پھر یہ مجموعہ خبر ہے مبتدا اول کی اولئک مبتدا ہم المہتدون جملہ اس کی خبر اور ممکن ہے کہ ہم ضمیر فصل ہو اور المہتدون تنہا خبر ہو۔ تفسیر : خدا تعالیٰ نے پہلی آیت میں اپنے ذکر اور شکر اور عدم کفران کا حکم دیا تھا کہ جو تمام عبادتوں اور ہر قسم کی اوامرو نواہی کا لب لباب تھا اور اس قسم کے بارگراں کے تحمل کے لیے کوئی سہارا بھی ضرور ہے کہ جس کی اعانت اور وجہ سے یہ بارگراں آسان ہوجاوے اور نیز اگلی آیات میں جہاد اور اشاعت خیر کا بھی حکم دینا منظور تھا کہ جس پر قوم اور ملت کی عزت و آبرو کا مدار ہے۔ اسی لیے اس نے بطور تمہید کے اس جگہ وہ آیت نازل فرمائی کہ جو دونوں مقصدوں کو خوب پورا کر دے اور جس کو دونوں سے کامل درجہ کا ارتباط ہو۔ پس فرمایا کہ اے ایمان والو ! اس بارگراں کی سہولت کے لیے صبر اور نماز پڑھنے سے کام لو۔ کس لیے کہ صبر اور نماز ایسے آلے ہیں کہ جس سے یہ کام بلکہ جہاد فی سبیل اللہ دونوں سہل ہوجاتے ہیں اور یہ اس لیے کہ صبر عقل کا اتباع کرکے نفس کو غضب اور شہوت سے روکنے کو کہتے ہیں۔ اس لیے جس میں یہ دونوں چیزیں ہوں گی صبراسی کو نصیب ہوگا۔ ملائکہ میں چونکہ غضب اور شہوت نہیں بلکہ عقل صرف ہے تو اس لیے ان کو بھی یہ نعمت نصیب نہیں اور دیگر حیوانات میں عقل نہیں۔ غضب اور شہوت ہے اس لیے وہ بھی اس سعادت سے فیضیاب نہیں۔ ان کی قوت جماعیہ جس جانور سے چاہتی جماع کرنے کا حکم دیتی ہے اور جس چیز کے کھانے پینے کو چاہتی ہے ٗ حکم دیتی ہے جس پر چاہتی ہے حملہ کرنے کے لیے آمادہ کردیتی ہے۔ سو وہ اس کے کہنے سے ویسا ہی کرتا ہے۔ عقل اس کا ہاتھ نہیں پکڑتی کہ ارے ظالم کیا کرتا ہے۔ بخلاف انسان کے کہ اس کو عقل مانع آتی ہے اور اس کے کہنے سے نفس کو روکتا ہے تو نفس پر پژمردگی اور روح پر تازگی اور نورانیت طاری ہوتی ہے اور جب روح پر نورانیت آتی تو اس آئینہ میں جمال جہاں آرا کا جلوہ ہوا خدا کا قرب نصیب ہوگیا۔ اسی لیے فرمایا ان اللہ مع الصابرین اور جبکہ قرب مبداء فیاض نصیب ہوا تو اس کے اثر صحبت سے تمام کام دنیا و آخرت کے انجام پا گئے۔ اس لیے کسی نے فرمایا الصبر مفتاح الفرج کہ صبر فتوحات کی کنجی ہے۔ دیکھئے جنگ و قتال میں جب ہر طرح کی تکلیف پر آدمی صبر کرتا ہے تو اپنے دشمن پر فتح پاتا ہے اور عزت و دولت و راحت اس کو آکر سلام کرتی ہے۔ کاشتکار جب گرمی اور بھوک و پیاس کی تکلیف اٹھا کر محنت کرتا ہے تو غلہ کاٹتا ہے۔ الغرض دنیا و آخرت کے تمام کاروبار کا صبر پر مدار ہے۔ اقسام صبر : واضح ہو کہ صبر کی دو قسمیں ہیں۔ بدنی اور نفسانی۔ پھر بدنی کی بھی دو قسمیں ہیں فعلی جیسا کہ بڑے بھاری اور مشقت کے کاموں کو کرنا انفعالی۔ درد اور تکلیف کو برداشت کرنا گو اس تکلیف کے آثار بےخود متقضی طبعی سے ظاہر ہوجائیں گے مگر یہ شخص اسی حالت میں خلاف قانون عقل و شرع کوئی حرکت نہ کرے اور صبر نفسانی یہ ہے کہ نفس کو اس کی خواہشوں سے روکے۔ اگر خواہش شکم و آلہ تناسل کو روکے گا تو اس کو عفت کہیں گے اور اگر فضول چیزوں کی خواہش سے روکے گا تو اس کو زہد و قناعت کہیں گے۔ اگر غصہ کی حالت میں اپنے دشمن سے درگزر کرے گا اور نفس کو انتقام لینے سے روکے گا تو اس کو حلم کہیں گے۔ اگر کسی کا راز افشاء کرنے سے زبان کو بند کرے گا تو اس کو رازداری کہیں گے اور جو زبان کو بیہودہ بکواس سے اور اپنے اعضاء کو بےجا حرکات سے بند کرے گا تو اس کو متانت کہیں گے۔ صبر کے فضائل قرآن و حدیث میں بکثرت ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ وجعلنا ھم ائمۃ یہدون بامرنا لما صبروا۔ وتمت کلمۃ ربک الحسنیٰ علی بنی اسرائیل بما صبروا جس کسی نے ترقی حاصل کی ہے اس صبر ہی کی بدولت کی ہے اور اسلام نے امت مرحومہ کے لیے صبر کی ایک شاخ روزہ کو بھی فرض کردیا تاکہ نفس کو بھوک اور پیاس کی تکلیف اٹھانے کی عادت پڑے اور جماع جیسی مرغوب چیز کو باوجود سامان مہیا ہونے کے ترک کرنے کا خوگر ہو۔ فضائلِ نماز : اور نماز تو ایک عجیب تریاق مجرب ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ کی حمد وثناء اور دعا اور اس کے آگے سر کے بل جھکنا ہے، اس میں خوامخواہ بندے کو اللہ سے تقرب حاصل ہوتا ہے اور یہ روح کو منور کرنے کا اعلیٰ طریقہ ہے اور اسی لیے اس کی نسبت وارد ہے ان الصلوٰۃ تنہیٰ 1 ؎ عن الفحشاء والمنکر پس جب بندے کو مولیٰ سے تقرب و توصل ہوا تو اس کے سب کام انجام کو پہنچے اور چونکہ خدا تعالیٰ تمام کائنات کی اصل ہے تو ہر چیز جب اس کو موانع پیش نہیں آتے تو اپنی اصل کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاتی ہے۔ چناچہ اس حدیث کے یہی معنی ہیں کان النبی ﷺ اذا اخرجہ امر قرع الی الصلوٰۃ (جامع الاصول) اور جبکہ خدا تعالیٰ نے صبر کی فضیلت میں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صابرین کو معیت اور تقرب غیب ہوتا ہے اور صبر کا اعلیٰ موقع قتل فی سبیل اللہ تھا۔ کس لیے کہ جان کے آگے مال یا کسی اور منفعت کی کچھ بھی وقعت نہیں۔ نقل مشہور ہے گر جان ہے تو جہاں ہے۔ پس جس قدر صبر اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں ہے اس قدر اور چیز کے صرف کرنے میں نہیں اور نیز اگلی آیات میں جہاد اور قتل فی سبیل اللہ کا حکم ہونے والا تھا۔ اسی لیے اس صبر کا اور بھی ذکر کرنا مناسب ہوا اور سب اجروں میں بڑا اجر یہ ہے کہ اس کے عوض میں بندے کو حیات ابدی عطا ہو۔ پس فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ٗ تم ان کو مردے نہ کہو کیونکہ ؎ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدہ عالم دوامِ 1 ؎ نماز بےشکر برائی اور بےحیائی کی باتوں سے روکتی ہے۔ بلکہ وہ زندہ ہیں کس لیے کہ ؎ کشتگان خنجر تسلیم را ہر زمان از غیب جانے دیگر است صرف یہ بات ہے کہ وہ تم کو نظر نہیں آتے۔ واضح ہو کہ انسان روح یا نفس ناطقہ ہے اور یہ جسم خاکی کہ جو ہم کو دکھائی دیتا ہے اس نفس ناطقہ یعنی (روح ہوائی کا کہ جس کو نسمہ کہتے ہیں) مرکب ہے۔ اعنی نفس ناطقہ کا تعلق روح ہوائی سے ہے کہ جو لطیف خون کے ابخرات سے پیدا ہوتی ہے اور روح ہوائی کا مرکب یہ جسم ہے۔ جب کسی سبب سے اس جسم خاکی سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے ( اور اس ترک تعلق کا نام موت عرفی ہے تو نفس ناطقہ کو جو جوہر نورانی ہے باقی رہتا ہے اور نہایت عمدہ طرح سے حس و ادراک اور شعور وتمیز بھی باقی رہتے ہیں۔ اس میں کافر و مومن شہید غیر شہید سب برابر ہیں۔ پس اس معنی سے موت ہے تو جسم کو اور حیات ہے تو نفس ناطقہ کو لیکن کبھی پاک روحوں کا اثر جسم خاکی تک بھی پہنچتا ہے اور یہ جسم سڑتا گلتا نہیں جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائِ کرام و شہدائِ عظام کے اجساد سے ظاہر ہوا ہے۔ اسی طرح اس موت عرفی میں بھی سب انسان شریک ہیں۔ اس معنی سے اور غیر شہید انبیاء و غیر انبیاء سب کو موت ہے انک میت وانہم میتون٭ کل نفس ذائقۃ الموت (آپ بھی ایک روز مرنے والے اور وہ بھی مرنے والے ہیں ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے) اور اس لیے ان کے بعد ان پر احکام موت جاری ہوتے ہیں۔ مال میں حصے لگ جاتے ہیں۔ اب حیات شہداء و انبیاء کے یہ معنی ہیں اور آیت میں وہی مراد بھی ہیں کہ جسم سے روح جدا ہوجانے کے بعد روح کو اس عالم قدس میں ہر قسم کا آرام اور عزت نصیب ہو اور چونکہ روح بھی ایک جسم لطیف ہے۔ اس جسمانی خول کے آثار بھی اس میں مطیع ہوتے ہیں اور اس کی نورانی صورت کو اس جسمانی صورت سے بھی ایک ایسی مناسبت ہوتی ہے کہ روح کو وہی شخص روحانی عالم میں کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے اس عالم میں کہ جس کو اس عالم سے وہی نسبت ہے جو عالم خواب کو عالم بیداری سے ہے ٗ ہر قسم کی لذات ‘ میوے اور عمدہ مکان انہار و حورو قصورمیسر آتے اور ان سے لذت پاتے ہیں۔ بالخصوص شہدا کو ان کو نسمہ سابق سے ایک عجیب تعلق باقی رہتا ہے جس کے لیے عالم برزخی میں ان کے لیے ایک نہایت عمدہ پیکر عطا ہوتا ہے اور وہ اس پیکر نورانی سے بارگاہ قدس میں جہاں تک چاہتے ہیں طیران کرکے ترقی کرتے ہیں اوراقسام و انواع کے لذات سے مستفید ہوتے ہیں جس کی طرف آیت میں اشارہ ہے اور اس حدیث 1 ؎ میں بھی کہ جس کو شیخین نے روایت کیا ہے کہ شہداء سبز طیور کے قوالب میں آکر آشیانہ عرش میں رہتے اور جہاں سے جی چاہتا کھاتے ہیں۔ اسی طرف ایماء ہے۔ اسی طرح وہ جب چاہتے ہیں اس عالم کی طرف بھی نزول کرتے ہیں۔ کبھی لوگوں کو عیاناً بھی دکھائی دے جاتے ہیں مگر ان کے اس حیات جاودانی کو یہ آنکھیں اور یہ حواس نہیں محسوس کرسکتے کہ جو اجسام کثیفہ کے احساس کے لیے مخصوص ہیں اور اسی سے ایک انچ آگے بھی ان کا ادراک نہیں۔ یہ کامرانی دراصل وہ حیات ابدی ہے کہ جس کا آیت میں ذکر ہے۔ اس کے برخلاف کفار و فجار کا اس عالم میں معذب ہونا موت ہے۔ ایک شخص طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہے۔ دوسرا قسم قسم کی نعمتوں میں ہے۔ گو دونوں زندہ ہیں مگر اول الذکر کی زندگی کیا زندگی ہے۔ وہ تو موت سے بھی بدتر ہے۔ زندگی تو دوسرے شخص کی ہے۔ اس لیے شہیدوں کو زندہ کہا جاتا ہے اور اسی تعلق خاص کے سبب ان ان کے اعمال حسنہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور لوگوں کی طرح منقطع نہیں ہوجاتا۔ جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے۔ کل ابن ادم یختم علی عملہ اذامات الا المجاھد فی سبیل اللہ فانہ یمنی لہ عملہ الی یوم القیٰمۃ (رواہ البخاری و مسلم) ( ہر انسان جب مرتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں مگر مجاہد فی سبیل اللہ کے اعمال ہمیشہ جاری رہتے ہیں 12 منہ حقانی) لیکن اس حیات میں انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام شریک ہیں اور اس کے درجات بھی متفاوت ہیں مگر شہیدوں کو تلذذات حاصل کرنے میں 1 ؎ اس حدیث کے یہ معنی سمجھ کر (کہ شہید طوطے یعنی حیوان بن کر درختوں پر اڑانیں مارتے پھریں گے ان نیت سے حیوانیت میں آجاویں گے) اعتراض کرنا اور قہقہہ اڑانا ایک سخت کوڑ مغزی ہے 12 منہ ایک خصوصیت خاصہ ہے اور اس لیے جناب نبی ﷺ نے شہادت کی آرزو کی ہے اور کیوں نہ ہو جو خدا کو اپنی حیات مستعار سپرد کرتا ہے وہ اس کے بالعوض اس کو حیات ابدی 1 ؎ عطا کرتا ہے۔ گو وہ لوگ ہم کو نظر نہیں آتے اور اسی لیے خدا نے لاتشعرون فرمایا لاتعلمون نہ فرمایا۔ جب خدا تعالیٰ نتائجِ صبر اور اس کے فوائد بیان فرما چکا تو اس کے بعد مطلع کرتا ہے کہ ضرور تم کو دولت صبر سے بہرہ ور کریں گے جس لیے تم پر گو ناگوں مصائب پیش آویں گے۔ مخالفوں کا خوف اور بھوک اور نقصان مالی و جانی اور نقصان ثمرات یعنی مرگ اولاد اور باغ اور کھیت سے بےبہرہ رہنا اور اپنی کوششوں میں ناکامیاب ہونا ان برائیوں میں سے تم کو آزمائیں گے۔ پھر جو اس تپائو کے بعد کھرا نکلا اس کو حیات جاودانی اور دنیا میں بھی ہر طرح کی کامیابی ‘ فتح و ظفر ‘ نیکو نامی نصیب ہے۔ ان آیات میں ایمانداروں کو ثابت قدمی اور استقامت فی الدین اور ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے دین پر قائم رہنے کی تعلیم ہے اور دراصل انسان کی ترقی دنیا و دین کی یہی برداشت و استقبال اور جان کا ہی عمدہ سیڑھی ہے جس نے اس پر چڑھنے سے انکار کیا وہ ہر طرح سے محروم رہا اور جو اس پر چڑھ گیا ٗ وہ مراد کو پہنچا۔ اس آیت کے بعد صحابہ بلکہ خود حضرت رسالت پناہ (علیہ السلام) پر طرح طرح کے مصائب پیش آئے جن کا ذکر کرنے سے کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔ مگر صد آفرین ہے ان صادقوں پر کہ انہوں نے اس تلخ جام کو کس استقلال سے پیا اور دم نہ مارا۔ یہ کوچہ عشق ہے اس کی جانباز ہی سیر کرتے ہیں ؎ سرمد غم عشق بوالہوس را نہ دہند سوزِ غم پروانہ مگس را ندہند ابتدائِ اسلام میں یہ صبر و استقلال اور اس کے ذریعہ سے بےحد کامیابی نبوت کا صریح معجزہ ہے۔ آخر وہ کیا لذت روحانی تھی کہ جس کے لیے لوگوں نے یہ مصائب اٹھائے۔
Top