Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: جو کہ
اٰمَنُوا
: ایمان لائے
اسْتَعِيْنُوْا
: تم مدد مانگو
بِالصَّبْرِ
: صبر سے
وَالصَّلٰوةِ
: اور نماز
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ
: ساتھ
الصّٰبِرِيْن
: صبر کرنے والے
ایمان والو ! صبر اور نماز سے (ہر ایک سختی میں) مدد لیا کرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
ترکیب : بالصبر متعلق ہے استعینوا سے لا تقولوا فعل انتم اس کا فاعل لمن یقتل الخ جملہ مفعول من چونکہ معنی جمع ہے اس لیے اموات میت کی جمع خبر میں لانا مناسب ہوا احیاء خبر مبتداء محذوف کی اے ہم احیاء ولَنَبْلُوَنکُمْ جواب ہے قسم محذوف کا من الخوف موضع جر میں ہے کس لیے کہ یہ صفت ہے۔ بشیء کی من الاموال موضع نصب میں ہے کس لیے یہ صفت ہے محذوف کی تقدیرہ و نقص شیء من الاموال لان النقص مصدر ھو متعدالی مفعول وقد حذف المفعول۔ الذین اذا اصابتہم موضع نصب میں ہے کس لیے یہ صفت ہے صابرین کی قالوا انا للہ جواب ہے شرط کا اولئک مبتداء و صلوات مبتداء ثانی اور علیہم اس کی خبر پھر یہ مجموعہ خبر ہے مبتدا اول کی اولئک مبتدا ہم المہتدون جملہ اس کی خبر اور ممکن ہے کہ ہم ضمیر فصل ہو اور المہتدون تنہا خبر ہو۔ تفسیر : خدا تعالیٰ نے پہلی آیت میں اپنے ذکر اور شکر اور عدم کفران کا حکم دیا تھا کہ جو تمام عبادتوں اور ہر قسم کی اوامرو نواہی کا لب لباب تھا اور اس قسم کے بارگراں کے تحمل کے لیے کوئی سہارا بھی ضرور ہے کہ جس کی اعانت اور وجہ سے یہ بارگراں آسان ہوجاوے اور نیز اگلی آیات میں جہاد اور اشاعت خیر کا بھی حکم دینا منظور تھا کہ جس پر قوم اور ملت کی عزت و آبرو کا مدار ہے۔ اسی لیے اس نے بطور تمہید کے اس جگہ وہ آیت نازل فرمائی کہ جو دونوں مقصدوں کو خوب پورا کر دے اور جس کو دونوں سے کامل درجہ کا ارتباط ہو۔ پس فرمایا کہ اے ایمان والو ! اس بارگراں کی سہولت کے لیے صبر اور نماز پڑھنے سے کام لو۔ کس لیے کہ صبر اور نماز ایسے آلے ہیں کہ جس سے یہ کام بلکہ جہاد فی سبیل اللہ دونوں سہل ہوجاتے ہیں اور یہ اس لیے کہ صبر عقل کا اتباع کرکے نفس کو غضب اور شہوت سے روکنے کو کہتے ہیں۔ اس لیے جس میں یہ دونوں چیزیں ہوں گی صبراسی کو نصیب ہوگا۔ ملائکہ میں چونکہ غضب اور شہوت نہیں بلکہ عقل صرف ہے تو اس لیے ان کو بھی یہ نعمت نصیب نہیں اور دیگر حیوانات میں عقل نہیں۔ غضب اور شہوت ہے اس لیے وہ بھی اس سعادت سے فیضیاب نہیں۔ ان کی قوت جماعیہ جس جانور سے چاہتی جماع کرنے کا حکم دیتی ہے اور جس چیز کے کھانے پینے کو چاہتی ہے ٗ حکم دیتی ہے جس پر چاہتی ہے حملہ کرنے کے لیے آمادہ کردیتی ہے۔ سو وہ اس کے کہنے سے ویسا ہی کرتا ہے۔ عقل اس کا ہاتھ نہیں پکڑتی کہ ارے ظالم کیا کرتا ہے۔ بخلاف انسان کے کہ اس کو عقل مانع آتی ہے اور اس کے کہنے سے نفس کو روکتا ہے تو نفس پر پژمردگی اور روح پر تازگی اور نورانیت طاری ہوتی ہے اور جب روح پر نورانیت آتی تو اس آئینہ میں جمال جہاں آرا کا جلوہ ہوا خدا کا قرب نصیب ہوگیا۔ اسی لیے فرمایا ان اللہ مع الصابرین اور جبکہ قرب مبداء فیاض نصیب ہوا تو اس کے اثر صحبت سے تمام کام دنیا و آخرت کے انجام پا گئے۔ اس لیے کسی نے فرمایا الصبر مفتاح الفرج کہ صبر فتوحات کی کنجی ہے۔ دیکھئے جنگ و قتال میں جب ہر طرح کی تکلیف پر آدمی صبر کرتا ہے تو اپنے دشمن پر فتح پاتا ہے اور عزت و دولت و راحت اس کو آکر سلام کرتی ہے۔ کاشتکار جب گرمی اور بھوک و پیاس کی تکلیف اٹھا کر محنت کرتا ہے تو غلہ کاٹتا ہے۔ الغرض دنیا و آخرت کے تمام کاروبار کا صبر پر مدار ہے۔ اقسام صبر : واضح ہو کہ صبر کی دو قسمیں ہیں۔ بدنی اور نفسانی۔ پھر بدنی کی بھی دو قسمیں ہیں فعلی جیسا کہ بڑے بھاری اور مشقت کے کاموں کو کرنا انفعالی۔ درد اور تکلیف کو برداشت کرنا گو اس تکلیف کے آثار بےخود متقضی طبعی سے ظاہر ہوجائیں گے مگر یہ شخص اسی حالت میں خلاف قانون عقل و شرع کوئی حرکت نہ کرے اور صبر نفسانی یہ ہے کہ نفس کو اس کی خواہشوں سے روکے۔ اگر خواہش شکم و آلہ تناسل کو روکے گا تو اس کو عفت کہیں گے اور اگر فضول چیزوں کی خواہش سے روکے گا تو اس کو زہد و قناعت کہیں گے۔ اگر غصہ کی حالت میں اپنے دشمن سے درگزر کرے گا اور نفس کو انتقام لینے سے روکے گا تو اس کو حلم کہیں گے۔ اگر کسی کا راز افشاء کرنے سے زبان کو بند کرے گا تو اس کو رازداری کہیں گے اور جو زبان کو بیہودہ بکواس سے اور اپنے اعضاء کو بےجا حرکات سے بند کرے گا تو اس کو متانت کہیں گے۔ صبر کے فضائل قرآن و حدیث میں بکثرت ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ وجعلنا ھم ائمۃ یہدون بامرنا لما صبروا۔ وتمت کلمۃ ربک الحسنیٰ علی بنی اسرائیل بما صبروا جس کسی نے ترقی حاصل کی ہے اس صبر ہی کی بدولت کی ہے اور اسلام نے امت مرحومہ کے لیے صبر کی ایک شاخ روزہ کو بھی فرض کردیا تاکہ نفس کو بھوک اور پیاس کی تکلیف اٹھانے کی عادت پڑے اور جماع جیسی مرغوب چیز کو باوجود سامان مہیا ہونے کے ترک کرنے کا خوگر ہو۔ فضائلِ نماز : اور نماز تو ایک عجیب تریاق مجرب ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ کی حمد وثناء اور دعا اور اس کے آگے سر کے بل جھکنا ہے، اس میں خوامخواہ بندے کو اللہ سے تقرب حاصل ہوتا ہے اور یہ روح کو منور کرنے کا اعلیٰ طریقہ ہے اور اسی لیے اس کی نسبت وارد ہے ان الصلوٰۃ تنہیٰ 1 ؎ عن الفحشاء والمنکر پس جب بندے کو مولیٰ سے تقرب و توصل ہوا تو اس کے سب کام انجام کو پہنچے اور چونکہ خدا تعالیٰ تمام کائنات کی اصل ہے تو ہر چیز جب اس کو موانع پیش نہیں آتے تو اپنی اصل کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجاتی ہے۔ چناچہ اس حدیث کے یہی معنی ہیں کان النبی ﷺ اذا اخرجہ امر قرع الی الصلوٰۃ (جامع الاصول) اور جبکہ خدا تعالیٰ نے صبر کی فضیلت میں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صابرین کو معیت اور تقرب غیب ہوتا ہے اور صبر کا اعلیٰ موقع قتل فی سبیل اللہ تھا۔ کس لیے کہ جان کے آگے مال یا کسی اور منفعت کی کچھ بھی وقعت نہیں۔ نقل مشہور ہے گر جان ہے تو جہاں ہے۔ پس جس قدر صبر اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں ہے اس قدر اور چیز کے صرف کرنے میں نہیں اور نیز اگلی آیات میں جہاد اور قتل فی سبیل اللہ کا حکم ہونے والا تھا۔ اسی لیے اس صبر کا اور بھی ذکر کرنا مناسب ہوا اور سب اجروں میں بڑا اجر یہ ہے کہ اس کے عوض میں بندے کو حیات ابدی عطا ہو۔ پس فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ٗ تم ان کو مردے نہ کہو کیونکہ ؎ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدہ عالم دوامِ 1 ؎ نماز بےشکر برائی اور بےحیائی کی باتوں سے روکتی ہے۔ بلکہ وہ زندہ ہیں کس لیے کہ ؎ کشتگان خنجر تسلیم را ہر زمان از غیب جانے دیگر است صرف یہ بات ہے کہ وہ تم کو نظر نہیں آتے۔ واضح ہو کہ انسان روح یا نفس ناطقہ ہے اور یہ جسم خاکی کہ جو ہم کو دکھائی دیتا ہے اس نفس ناطقہ یعنی (روح ہوائی کا کہ جس کو نسمہ کہتے ہیں) مرکب ہے۔ اعنی نفس ناطقہ کا تعلق روح ہوائی سے ہے کہ جو لطیف خون کے ابخرات سے پیدا ہوتی ہے اور روح ہوائی کا مرکب یہ جسم ہے۔ جب کسی سبب سے اس جسم خاکی سے تعلق منقطع ہوجاتا ہے ( اور اس ترک تعلق کا نام موت عرفی ہے تو نفس ناطقہ کو جو جوہر نورانی ہے باقی رہتا ہے اور نہایت عمدہ طرح سے حس و ادراک اور شعور وتمیز بھی باقی رہتے ہیں۔ اس میں کافر و مومن شہید غیر شہید سب برابر ہیں۔ پس اس معنی سے موت ہے تو جسم کو اور حیات ہے تو نفس ناطقہ کو لیکن کبھی پاک روحوں کا اثر جسم خاکی تک بھی پہنچتا ہے اور یہ جسم سڑتا گلتا نہیں جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائِ کرام و شہدائِ عظام کے اجساد سے ظاہر ہوا ہے۔ اسی طرح اس موت عرفی میں بھی سب انسان شریک ہیں۔ اس معنی سے اور غیر شہید انبیاء و غیر انبیاء سب کو موت ہے انک میت وانہم میتون٭ کل نفس ذائقۃ الموت (آپ بھی ایک روز مرنے والے اور وہ بھی مرنے والے ہیں ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے) اور اس لیے ان کے بعد ان پر احکام موت جاری ہوتے ہیں۔ مال میں حصے لگ جاتے ہیں۔ اب حیات شہداء و انبیاء کے یہ معنی ہیں اور آیت میں وہی مراد بھی ہیں کہ جسم سے روح جدا ہوجانے کے بعد روح کو اس عالم قدس میں ہر قسم کا آرام اور عزت نصیب ہو اور چونکہ روح بھی ایک جسم لطیف ہے۔ اس جسمانی خول کے آثار بھی اس میں مطیع ہوتے ہیں اور اس کی نورانی صورت کو اس جسمانی صورت سے بھی ایک ایسی مناسبت ہوتی ہے کہ روح کو وہی شخص روحانی عالم میں کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے اس عالم میں کہ جس کو اس عالم سے وہی نسبت ہے جو عالم خواب کو عالم بیداری سے ہے ٗ ہر قسم کی لذات ‘ میوے اور عمدہ مکان انہار و حورو قصورمیسر آتے اور ان سے لذت پاتے ہیں۔ بالخصوص شہدا کو ان کو نسمہ سابق سے ایک عجیب تعلق باقی رہتا ہے جس کے لیے عالم برزخی میں ان کے لیے ایک نہایت عمدہ پیکر عطا ہوتا ہے اور وہ اس پیکر نورانی سے بارگاہ قدس میں جہاں تک چاہتے ہیں طیران کرکے ترقی کرتے ہیں اوراقسام و انواع کے لذات سے مستفید ہوتے ہیں جس کی طرف آیت میں اشارہ ہے اور اس حدیث 1 ؎ میں بھی کہ جس کو شیخین نے روایت کیا ہے کہ شہداء سبز طیور کے قوالب میں آکر آشیانہ عرش میں رہتے اور جہاں سے جی چاہتا کھاتے ہیں۔ اسی طرف ایماء ہے۔ اسی طرح وہ جب چاہتے ہیں اس عالم کی طرف بھی نزول کرتے ہیں۔ کبھی لوگوں کو عیاناً بھی دکھائی دے جاتے ہیں مگر ان کے اس حیات جاودانی کو یہ آنکھیں اور یہ حواس نہیں محسوس کرسکتے کہ جو اجسام کثیفہ کے احساس کے لیے مخصوص ہیں اور اسی سے ایک انچ آگے بھی ان کا ادراک نہیں۔ یہ کامرانی دراصل وہ حیات ابدی ہے کہ جس کا آیت میں ذکر ہے۔ اس کے برخلاف کفار و فجار کا اس عالم میں معذب ہونا موت ہے۔ ایک شخص طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہے۔ دوسرا قسم قسم کی نعمتوں میں ہے۔ گو دونوں زندہ ہیں مگر اول الذکر کی زندگی کیا زندگی ہے۔ وہ تو موت سے بھی بدتر ہے۔ زندگی تو دوسرے شخص کی ہے۔ اس لیے شہیدوں کو زندہ کہا جاتا ہے اور اسی تعلق خاص کے سبب ان ان کے اعمال حسنہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے اور لوگوں کی طرح منقطع نہیں ہوجاتا۔ جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے۔ کل ابن ادم یختم علی عملہ اذامات الا المجاھد فی سبیل اللہ فانہ یمنی لہ عملہ الی یوم القیٰمۃ (رواہ البخاری و مسلم) ( ہر انسان جب مرتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں مگر مجاہد فی سبیل اللہ کے اعمال ہمیشہ جاری رہتے ہیں 12 منہ حقانی) لیکن اس حیات میں انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام شریک ہیں اور اس کے درجات بھی متفاوت ہیں مگر شہیدوں کو تلذذات حاصل کرنے میں 1 ؎ اس حدیث کے یہ معنی سمجھ کر (کہ شہید طوطے یعنی حیوان بن کر درختوں پر اڑانیں مارتے پھریں گے ان نیت سے حیوانیت میں آجاویں گے) اعتراض کرنا اور قہقہہ اڑانا ایک سخت کوڑ مغزی ہے 12 منہ ایک خصوصیت خاصہ ہے اور اس لیے جناب نبی ﷺ نے شہادت کی آرزو کی ہے اور کیوں نہ ہو جو خدا کو اپنی حیات مستعار سپرد کرتا ہے وہ اس کے بالعوض اس کو حیات ابدی 1 ؎ عطا کرتا ہے۔ گو وہ لوگ ہم کو نظر نہیں آتے اور اسی لیے خدا نے لاتشعرون فرمایا لاتعلمون نہ فرمایا۔ جب خدا تعالیٰ نتائجِ صبر اور اس کے فوائد بیان فرما چکا تو اس کے بعد مطلع کرتا ہے کہ ضرور تم کو دولت صبر سے بہرہ ور کریں گے جس لیے تم پر گو ناگوں مصائب پیش آویں گے۔ مخالفوں کا خوف اور بھوک اور نقصان مالی و جانی اور نقصان ثمرات یعنی مرگ اولاد اور باغ اور کھیت سے بےبہرہ رہنا اور اپنی کوششوں میں ناکامیاب ہونا ان برائیوں میں سے تم کو آزمائیں گے۔ پھر جو اس تپائو کے بعد کھرا نکلا اس کو حیات جاودانی اور دنیا میں بھی ہر طرح کی کامیابی ‘ فتح و ظفر ‘ نیکو نامی نصیب ہے۔ ان آیات میں ایمانداروں کو ثابت قدمی اور استقامت فی الدین اور ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے دین پر قائم رہنے کی تعلیم ہے اور دراصل انسان کی ترقی دنیا و دین کی یہی برداشت و استقبال اور جان کا ہی عمدہ سیڑھی ہے جس نے اس پر چڑھنے سے انکار کیا وہ ہر طرح سے محروم رہا اور جو اس پر چڑھ گیا ٗ وہ مراد کو پہنچا۔ اس آیت کے بعد صحابہ بلکہ خود حضرت رسالت پناہ (علیہ السلام) پر طرح طرح کے مصائب پیش آئے جن کا ذکر کرنے سے کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔ مگر صد آفرین ہے ان صادقوں پر کہ انہوں نے اس تلخ جام کو کس استقلال سے پیا اور دم نہ مارا۔ یہ کوچہ عشق ہے اس کی جانباز ہی سیر کرتے ہیں ؎ سرمد غم عشق بوالہوس را نہ دہند سوزِ غم پروانہ مگس را ندہند ابتدائِ اسلام میں یہ صبر و استقلال اور اس کے ذریعہ سے بےحد کامیابی نبوت کا صریح معجزہ ہے۔ آخر وہ کیا لذت روحانی تھی کہ جس کے لیے لوگوں نے یہ مصائب اٹھائے۔
Top