Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو تو یاد کرو کہ جو میں نے تم کو دی تھی اور یہ بھی کہ میں نے تم کو جہان پر فضیلت دی تھی
ترکیب : یا حرف ندا بنی مضاف اصل میں بنین ابن بمعنی پسر تھان اضافت سے ساقط ہوگیا اسرائیل مضاف الیہ مجموعہ منادی اذکروا فعل امر حاضر معروف ضمیر انتم فاعل نعمتی موصوف التی موصول انعمت علیکم جملہ صلہ عائد محذوف مجموعہ معطوف علیہ و انی فضلتکم علی العلمین جملہ معطوف پھر سب مل کر مفعول ہوا اذکروا کا۔ اذکروا اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ ندائیہ ہوا۔ واتقوا الخ اس کی ترکیب بیان ہوچکی وہاں دیکھ لو۔ تفسیر : اس سورة میں خدا تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل سے کلام شروع کیا تھا تو وہاں بھی یہی فرمایا تھا کہ یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی الآیہ اور پھر جب ان کی نصیحت اور ان کے مکائد پر فضیحت سے فراغت پائی تو پھر کلام کو تمام کرتے وقت بھی یہی فرمایا کہ اے بنی اسرائیل تم احسانات کو یاد کرو کہ میں نے تمہارے ساتھ مختلف اوقات اور مختلف مقامات میں کیا کیا احسان کئے یہاں تک کہ تمہارے خاندان کو ایک وقت میں دنیا کے تمام خاندانوں سے افضل اور اشرف کردیا تھا اور تم نے پھر جس قدر نافرمانیاں کیں ان کے برے نتائج دنیا میں بھگتے۔ اب اگر تم اپنی نافرمانی اور سرکشی سے باز نہیں آتے تو یہ بھی یاد رہے کہ میں جس طرح کریم و رحیم غصہ کا دھیما ہوں اسی طرح قہار و جبار بھی ہوں پھر تم روز قیامت سے ڈرتے رہو کہ جہاں نہ کسی کی سفارش کام آتی ہے نہ کچھ معاوضہ لیا جاتا ہے نہ کوئی مددگار مدد کرکے چھڑا سکتا ہے۔ یہ کمال بلاغت ہے کہ اول میں مورد نزاع کو قائم کرکے اس پر بہت کچھ دلائل لائے جائیں اور پھر نتیجہ میں وہی دعویٰ ذکر کیا جائے اور نیز نصیحت قبول کرانے کے حق میں یہ بات (کہ منافع اور رحمت سے امید دلائی جائے اور پھر انجام کا خوف بھی دلایا جاوے) اکسیر کا اثر رکھتی ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کسی قدر حالات بیان فرماتا ہے کہ جن کی نسل سے ہونے پر یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کو بڑا ناز تھا کہ خود ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کی کیفیت معلوم ہوجاوے اور انہی کے بیان سے نبی آخر الزمان کا برحق ہونا ثابت ہوجاوے اور خود ان کا ابراہیم (علیہ السلام) کے عہدئہ نبوت سے محروم ہونا معلوم ہوجاوے
Top