Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 110
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاةَ : اور تم نماز قائم کرو وَاٰتُوْا الزَّکَاةَ : اور دیتے رہوتم زکوۃ وَمَا : اور جو تُقَدِّمُوْا : آگے بھیجو گے لِاَنْفُسِكُمْ : اپنے لیے مِنْ خَيْرٍ : بھلائی تَجِدُوْهُ : تم اسے پالو گے عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللہ : اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِیْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور جو کچھ تم نیکی اپنے لیے آگے بھیجو گے تو اس کو خدا کے پاس موجود پاؤگے۔ بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
ترکیب : و اقیمو الخ جملہ انشائیہ معطوف ہے فاعفوا پر ماتقدموا میں ماشرطیہ من خیر بیان ہے ما کا یہ سب جملہ شرط تجدوہ الخ جواب شرط تفسیر : یہ کلام سابق کا تتمہ ہے یعنی تم کسی مشکک اور مغوی کے بہکانے میں نہ آئو ایمان پر ثابت قدم رہ کر عالم آخرت کے لیے کہ جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہے روح کو منور کرو۔ بدنی عبادتوں میں سب سے اعلیٰ نماز ہے اس کو یاد کرتے رہو اور مالی عبادت سے بھی غافل نہ رہو، زکوٰۃ دو اور علاوہ زکوٰۃ کے ہر قسم کی نیکی کرو خلق خدا سے بھلائی اور اپنے بیگانوں کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آئو جو کچھ کرو گے وہ ضائع نہ جائے گا۔ انسان کے سب اعمال عالم مثال میں موجود رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد سب کو وہاں جا کر ضرور پاوے گا کسی عمل کی جزا سے خدا غافل نہیں تم جو کچھ کر رہے ہو وہ سب دیکھ رہا ہے۔ فوائد : ام تریدون سے لے کر ان اللہ بما تعملون بصیر تک ایک مضمون متصل تھا اس کا اصل شان نزول تو وہی ہے کہ جو ہم نے بیان کیا کہ لوگ یہودیوں کے بہکانے سے آنحضرت (علیہ السلام) سے بیجا سوالات کرتے تھے جن میں نہ نفع دنیا نہ نفع آخرت بلکہ ضرر ایمان تھا۔ اس لیے منع کردیا گیا۔ مگر بعض مفسرین نے ان تسئلوا کے متعلق مختلف روایتیں بیان کی ہیں۔ ابن عباس ؓ اور مجاہد بیان فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن امیہ مخزومی نے مع چند قریش حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ کہا کہ ہم آپ پر جب ایمان لائیں گے کہ آپ ہمارے لیے مکہ کے خشک پہاڑوں میں سے چشمہ جاری کردیں یا کوئی وہاں انگور یا کھجور کا باغ پیدا کردیں یا کوئی سونے کا گھر بنا دیں یا آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ جائیں یا ہم پر کوئی خدا کی کتاب اترے کہ جس میں یوں لکھا ہو کہ اے عبداللہ تو محمد ﷺ پر ایمان لا۔ اصم اور جبابی اور ابی مسلم کہتے ہیں کہ یہ خطاب اہل اسلام کے ان لوگوں سے ہے کہ جو بیجا سوالات کرتے تھے اور یہی صحیح ہے۔ (2) حسد : کسی کی نعمت خداداد کا زوال چاہنا خواہ وہ نعمت اپنے لیے چاہے جیسا کہ کسی کا باغ یا مکان یا روپیہ یا عورت اپنے لیے چاہے یا اپنے لیے نہ چاہے یہ حسد حرام ہے۔ اس آیت و دیگر آیات و احادیث سے یہ وہ مرض بد ہے کہ جو انسان کی تمام برائیوں کا سرچشمہ اور نیکیوں کا جلانے والا شعلہ ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح جلاتا ہے کہ جس طرح آگ لکڑیوں کو، ابلیس کو اسی مرض نے ہلاک کیا تھا اور غبطہ حلال ہے وہ یہ کہ کسی کی برائی تو نہ چاہے مگر خدا سے اس طرح کی نعمت اپنے لیے بھی مانگے اور اسی کو مناقشہ بھی کہتے ہیں اور اس پر بھی مجازاً کبھی اطلاق حسد ہوتا ہے جیسا کہ صحیحین میں آیا ہے لاحسد الافی الاثنین رجل اتاہ اللہ مالا الحدیث۔ (3) یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ جن باتوں سے مسلمانوں کے عقائد میں شبہ پڑے ان کا سننا بھی حرام ہے۔ اس بناء پر مستورات کا پادریوں کے مدارس میں تعلیم کے لیے جانا اور ان کے مدارس کی ملازمت کرنا یا ان کی ان امور میں اعانت کرنا حرام ہے بلکہ تبدیل کفر بالایمان۔ اور یہی حال دیگر مذاہب کا ہے نعوذ باللہ منہ۔ 1 ؎ 1 ؎ پادریوں کے مدارس میں مسلمانوں کے عورات واطفال کا جانا حرام ہے۔ 12 منہ
Top