Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا اور اور اکڑنے لگتا ہے اور جب اس پر مصیبت آتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے۔
ترکیب : ناء بالف بعد الھمزۃ ای بعد عن الطاعۃ وبقرء بھمزۃ بعد الالف دفیہ و جہان احد ہما ھو مقلوب نائے والثانی ھو بمعنی نھض الارحمۃ مفعول لہ والتقدیر حفظناہ علیک للرحمۃ من ربک رحمۃ کی صفت یا حال۔ تفسیر : قرآن سے ان ظالموں کو زیادہ خسارہ ہونے کا یہ سبب نہیں کہ قرآن میں کوئی نقص ہے بلکہ یہ سبب ہے کہ اذا انعمنا علی الانسان الخ انسان کی جبلی عادت ہے کہ جب اس پر انعامِ الٰہی ہوتا ہے، دولت و راحت ملتی ہے تو بجائے شکرگزاری و فرمانبرداری کے اکڑنے لگتا ہے، متکبر ہوجاتا ہے، نبی اور خدا تعالیٰ کی کتاب کو نہیں مانتا اس لیے خسارہ میں پڑتا ہے اور جب مصیبت آتی ہے تو بجائے صبر کے ناامید ہوجاتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس پر بھی انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ہر ایک نیک و بد کو خواہ وہ کسی طریق پر کیوں نہ ہو مہلت دیتا ہے اس لیے آنحضرت ﷺ کو حکم دیتا ہے قل کل یعمل الخ کہ کہہ دو ہر ایک ہم میں سے اور تم میں سے اپنے اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہے کئے جائے لیکن ان میں سے دراصل کون نیک ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے مرنے کے بعد معلوم ہوجائے گا۔ منجملہ اسباب خسران کے ایک یہ بھی تھا کہ وہ قرآن مجید پر ہمیشہ بیہودہ نکتہ چینیاں کیا کرتے تھے چناچہ ایک بار باہم مشورہ کیا کہ یہود اہل کتاب ہیں ان سے دریافت کر کے کوئی ایسی بات محمد ﷺ سے پوچھنی چاہیے کہ جس کا جواب نہ آسکے اس لیے یہود سے دریافت کیا انہوں نے کہا تین باتیں پوچھو اگر ان میں سے دو کا بھی جواب دے دیا تو جاننا کہ نبی ہے ورنہ نہیں اور یہ تین باتیں بتلائیں۔ اول روح سے سوال کرو، دوم اصحاب کہف کا حال پوچھو، سوم ذی القرنین کا حال پوچھو، وہ کون تھا اور کہاں کہاں گیا اور اس نے کیا کیا ؟ سب سے اول ویسئلونک عن الروح الخ یہ انہوں نے روح سے سوال کیا۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ سے روح سے سوال کرتے ہیں وہ کیا ہے چونکہ یہ بیکار سوال تھا اور نیز حقائقِ اشیاء بالخصوص روح کی حقیقت کا ادراک کرنا ہی ان کے فہم و استعداد سے باہر تھا اس لیے جواب میں فرمایا قل الروح من امرربی کہہ دو روح 1 ؎ ایک امررب ہے اس کے حکم سے بنی ہے، حادث ہے، قدیم ذاتی نہیں نہ خدا ہے نہ اس کا کوئی جز ہے بلکہ مخلوق ہے جس پر اور مخلوق کی طرح خدا کو اختیار وقدرت ہے من امر ربی سے یہ باتیں سمجھی جاتی ہیں اس قدر علم کافی ہے جواب شافی ہوگیا باقی رہا اس کی حقیقت کا ادراک کلی۔ سو روح کا تو کیا اور بھی لاکھوں چیزوں کا انسان کو ادراک کلی نہیں خاک پانی کی بھی حقیقت پوری نہیں بتلا سکتے کیونکہ و ما اوتیتم من العلم الاقلیلا کہ تم کو اے انسان یا اے سوال کرنے والو حقائق الاشیاء سے ادراک کا بہت ہی کم حصہ ملا ہے۔ روح کی حقیقت میں حکماء کا مباحثہ چلا آتا ہے اور ہر ایک قوم نے دورازکار خیالی گھوڑے دوڑائے ہیں اور اب تک بھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ بھلا عرب کے جاہلوں سے بجز اس قدر جواب کے اور کیا کہا جاتا۔ اب اس بات کے ثبوت کے لیے پیغمبر (علیہ السلام) جو کچھ فرماتے ہیں وہ الہام اور وحی کے ذریعے سے ان کی خانہ ساز اس میں کوئی بات بھی نہیں فرمایا جاتا ہے۔ ولئن شئنا الخ کہ اگر ہم چاہتے تو قرآن مجید کو جو سرچشمہ علوم ہے محو کردیتے مگر ہمارا فضل ہے جو ایسا نہیں کیا یعنی یہ ہماری طرف سے ہے جس کے اٹھا لے جانے پر قادر ہیں۔
Top