Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہ ہے جو دریا میں تمہارے جہاز چلاتا ہے تاکہ تم اس کی روزی تلاش کرو کیونکہ وہ تم پر بڑا مہربان ہے
ترکیب : الا ایاہ استثناء منقطع وقیل متصل ان یخسف مفعول امنتم بکم حال ہے یایخسف کا صلہ جانب البر مفعول بہ الار جاء السوق والاجراء والتیسر بمعنی راندن۔ الحصب قال ابوعبیدہ والقنیبی ھوالرمی ریحًا شدید الحاصۃ التی ترمی بالحصاء الصفاء وقال الزجاج الحاصب القراب الذی فیہ حصاء وقیل الحصاء صب حجارۃ من السماء تارۃ مصدر یجمع علی تیرہ و تارات والفھا واویاء۔ القاصف الریح الشدیدہ التی تکسر بشدۃ من قصف الشیء یقصف من ضرب یضرب تبعانصیرا اومن تبعینًا بانکار مانزلنا۔ تفسیر : یہاں سے پھر دلائلِ توحید شروع کرتا ہے اور مشرکین کی عادات ناپسندیدہ کی برائی اور نیز یہ بات بھی بتلاتا ہے کہ خدا کے احسان یاد رکھا کرو اور پہلے جو فرماتا تھا کہ وہ بندوں کا کارساز ہے اب اس کارسازی کا جو نہایت بےبسی کی حالت میں ظہور پذیر ہوتی ہے اظہار فرماتا ہے۔ ربکم الذی انسان کے اوپر جو کچھ اس کے احسانات ہیں وہ بےانتہا ہیں ان میں سے وہ احسانات موقع بموقع بندوں کو یاد دلا کر اپنا وحدہ لاشریک ہونا ثابت کیا کرتا ہے۔ جو ان کے نزدیک زیادہ تر قابل التفات ہوتے ہیں۔ اس موقع پر عرب کو ان کے سفروحضر کے انعامات یاد دلاتا ہے عرب یا دریا میں سفر کرتے تھے یا خشکی میں اور اب بھی یہی حال ہے دریا کا سفر کشتی کے ذریعے سے ہوتا ہے خواہ وہ ہوائی ہو خواہ دخانی جو اس زمانہ میں ایجاد ہوتی ہیں اب سمندر کی ایسی پہاڑسی موجوں میں ایک تنکے کے برابر جہاز یا کشتی جو مسافروں یا تجارتی مال کو لے کر آتی جاتی ہے اس کو اسی کا ید قدرت چلاتا ہے۔ رحیما تک کا یہی مضمون ہے۔ واذا مسکم الضر یہ وہ حالت اضطراب بیان فرماتا ہے جو دریا میں کبھی کبھی پیش آجاتی ہے وہ یہ کہ طوفان میں مبتلا ہوجاتے ہیں سو ایسے موقع پر انسان اپنے فطری قاعدہ سے پھر اسی معبود برحق کی طرف التجا کرتا ہے اور سب فرضی معبودوں کو بھول جاتا ہے مگر جن کی فطرت میں فتور آگیا وہ اس حالت میں بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتے مگر عرب کے مشرک ایسا نہیں کرتے تھے وہ اس وقت خاص اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے مگر فلما نجکم الخ جب خشکی پر آتے تھے تو پھرجاتے تھے پھر اپنے معبودوں کی طرف رجوع کرتے تھے اس بات پر خدا تعالیٰ الزام دیتا ہے وکان الانسان کفورا کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے افسوس ہے کہ آج کل عام لوگ اس بلا میں مبتلا ہیں مصیبت کا وقت بھول جاتے ہیں جب مصیبت خدا دور کردیتا ہے اور نعمت دیتا ہے تو بجائے شکر کے یہ ناشکری کرتے ہیں کہ فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بھانڈ رنڈیوں کے ناچ کراتے ہیں۔ اب اس بات پر تہدید فرماتا ہے کہ افامنتم الخ کیا تم کو اس بات سے پورا اطمینان ہوگیا کہ اس حالت میں خدا تم پر اور دوسری قسم کی بلا نہیں بھیج سکے گا زمین میں غرق نہیں کرسکتا یا آسمان سے پتھر نہیں برسا سکتا کہ تم کو پھر دریا کا سفر آئے اور پھر تم کو اسی بلا میں پھنسا کر ہلاک کر دے۔ بنی آدم کا تو یہ حال ہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ ولقد کرمنا بنی آدم الخ ذات میں ‘ جسم میں ‘ صورت میں ‘ اوصاف میں ‘ علم میں اس کو مخلوقات پر عزت دی وحملنا ھم اور دریائی اور خشکی کے سفر میں سواری دی، دریا میں کشتی پر اور خشکی میں اونٹ گھوڑے گاڑی پر سوار ہوتے ہیں اور رزقنا ھم سفر وحضر میں عمدہ چیزیں کھانے کو دیں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو بزرگی 1 ؎ بخشی۔ 1 ؎ یہی بزرگی تو ہے جو دن بھر حضرت گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور بیلوں کو گاڑی میں جو تتے ہیں اسی طرح اور چیزوں پر آپ حکومت کر رہے ہیں قوی باطنیہ کے روز سے جن اور فرشتوں سے بڑھ جاتے ہیں۔ 12 منہ
Top