Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 59
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ١ؕ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا١ؕ وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
وَمَا مَنَعَنَآ : اور نہیں ہمیں روکا اَنْ : کہ نُّرْسِلَ : ہم بھیجیں بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ كَذَّبَ : جھٹلایا بِهَا : ان کو الْاَوَّلُوْنَ : اگلے لوگ (جمع) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی ثَمُوْدَ : ثمود النَّاقَةَ : اونٹنی مُبْصِرَةً : دکھانے کو (ذریعہ بصیرت فَظَلَمُوْا بِهَا : انہوں نے اس پر ظلم کیا وَ : اور مَا نُرْسِلُ : ہم نہیں بھیجتے بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّا : مگر تَخْوِيْفًا : ڈرانے کو
اور ہم کو ان معجزات کے بھیجنے سے اسی بات نے منع کر رکھا ہے کہ پہلے لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا تھا چناچہ ثمود کو ہم نے اونٹنی کا کھلا ہوا معجزہ دیا تھا پھر بھی انہوں نے اس پر ظلم کیا اور یہ نشان جو ہم بھیجتے ہیں تو محض خوف دلانے کو
ترکیب : ان کذب فی موضع رفع فاعل منعنا وفیہ حذف تقدیرہ الا اھلاک المکذبین ونحن ما یزید اھلاک قریش فلذالم نرسل بالآیات المسئولۃ بہا 1 ؎۔ 1 ؎ ومانرسل بالآیات المقترحۃ الاتخویفالمن ارسلت نبی علیھم مما یعصبھا من العذاب المستاصل (ابوالمسعود) ۔ تفسیر : مشرکین مکہ جواب سے عاجز آ کر یہ بھی کہا کرتے تھے اگر آپ نبی ہیں تو کوہ صفا کو سونے کا بنا دیں اور مکہ کے پہاڑوں کو ہٹا دیں تاکہ کھیتی کیا کریں۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی و ما منعنا الخ کہ ہم یہ بھی کرسکتے ہیں مگر یوں نہیں کرتے کہ پہلی امتوں میں بھی لوگوں نے انبیاء سے سوال کر کے معجزات طلب کئے تھے اور پہلے وعدہ کرلیا تھا کہ اگر ہماری خواہش کے مطابق معجزہ آئے گا تو ہم ایمان لائیں گے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے اور عادت الٰہی جاری ہے کہ جو ہٹ کر معجزات طلب کرتے ہیں اور پھر بھی ایمان نہیں لاتے تو ہلاک ہوتے ہیں چناچہ قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) سے اونٹنی کا سوال کیا ان کے کہنے کے موافق اونٹنی پیدا ہوئی آخر ایمان نہ لائے بلکہ اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تب ہلاک ہوئے۔ اس قسم کے معجزات خطرناک ہوتے ہیں۔ چناچہ فرماتا ہے ومانرسل بالآیات الاتخویفا اور ہم کو اہل مکہ کا ہلاک کرنا مقصود نہیں اس لیے ان کی یہ خواہشیں پوری نہیں کی جاتیں۔ اس تفسیر پر سلف سے خلف تک جمہور مفسرین متفق ہیں۔ پھر جو کوئی پادری اس آیت سے یہ ثابت کرے کہ آنحضرت ﷺ سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا جیسا کہ پادری فنڈر نے کتاب میزان الحق میں لکھا ہے اور پھر ان کی تقلید نیچر مفسر نے کی ہے بڑی غلطی ہے۔ الآیات سے بواسطہ الف لام وہی آیات یعنی معجزات مقصود ہیں کہ جن کا مشرکین سوال کرتے تھے نہ کہ کل مفسرین کا اسی پر اتفاق ہے اور ابن عباس ؓ کا بھی یہی قول ہے جب مشرکین مکہ کی خواہش کے موافق معجزات کے بھیجنے سے صاف جواب ہوگیا تو ان کو اور بھی دلیری ہوئی اور کہنے لگے کہ آپ نبی نہیں اور ڈرانے بھی لگے اور ظلم و ستم کر کے چاہتے تھے کہ آپ وعظ نہ بیان فرمایا کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی یا یوں کہو کہ اس آیت میں آپ کی تسلی کردی گئی۔ واذ قلنا اور یاد کرو جب کہ ہم تم سے کہہ چکے ہیں کہ تمہارے رب کے قابو میں سب لوگ ہیں تو پھر تمہیں کسی کا کیا خوف ہے آپ بےخوف ہو کر حکم الٰہی بیان کیا کریں۔ اس کے بعد وہ آنحضرت ﷺ کی معراج پر اور بھی مضحکہ کرتے تھے کہ ہمارے کہنے سے معجزہ تو دکھایا نہیں گیا آسمان پر چلے گئے۔ شباشب بیت المقدس پہنچ گئے، جنت دوزخ دیکھ آئے اور نیز قرآن پر ہنسی کرتے تھے کہ عجب کلام ہے جس میں دوزخیوں کے لیے آگ میں رہنا اور زقوم کا درخت کھانا مذکور ہے (اس پیڑ کو تلخ و بدمزہ ہونے کی وجہ سے شجرہ ملعونہ کہتے تھے اور قدیم عرب ایسی بری چیزوں کو ایسے ہی الفاظ سے تعبیر کیا کرتے تھے) اس کے جواب میں فرماتا ہے وماجعلنا الرویا التی الخ کہ ہم نے اس دریا کو اور شجرہ ملعونہ کو بھی ان کے لیے فتنہ یعنی آزمائش کی چیز کردیا۔ کم عقل ‘ بداعتقاد اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ رؤیاء اور شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے ؟ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جبکہ مکہ میں تھے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں مکہ چھوڑ کر ایک نئے شہر میں سکونت پذیر ہوا ہوں وہاں سے میرے دین کو ترقی ہوئی اور عالم میں آفتاب کے نور کی طرح بہت جلد پھیل گیا چونکہ یہ خواب مکہ میں مشہور ہوگیا تھا اس پر قریش مکہ تمسخر کرتے تھے یہی ان کے حق میں فتنہ یعنی گمراہی کا باعث ہوگیا جس کو خدا نے سچا کردیا اور شجرہ ملعونہ سے مراد زقوم کا پیڑ ہے چونکہ قرآن میں آچکا تھا کہ جہنمیوں کی یہ غذا ہوگا اس پر بھی قریش بہت تمسخر کیا کرتے تھے کہ آگ میں پیڑ ایک خلاف قیاس بات ہے تو ﷺ دیوانے ہیں حالانکہ وہ پیڑ بھی آگ کا ہوگا اور یوں بھی آگ میں ایک کیڑا رہتا ہے جس کو سمندر کہتے ہیں نباتات کیا بلکہ حیوانات بھی آگ میں ہوتی ہیں یہ بھی ان کے لیے فتنہ ہوگیا۔ اور ملعونہ اس لیے اس کو کہتے ہیں کہ بدمزہ ہے عرب بری چیز کو خبیث اور ملعون کہا کرتے ہیں بعض نے رؤیاء سے معراج سے مراد لی ہے واللہ اعلم۔
Top