Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 45
وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًاۙ
وَاِذَا : اور جب قَرَاْتَ : تم پڑھتے ہو الْقُرْاٰنَ : قرآن جَعَلْنَا : ہم کردیتے ہیں بَيْنَكَ : تمہارے درمیان وَبَيْنَ : اور درمیان الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر حِجَابًا : ایک پردہ مَّسْتُوْرًا : چھپا ہوا
اور (اے نبی ! ) جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک گاڑھا پردہ ڈال دیتے ہیں
ترکیب : مستورا و ساترا۔ بما یستمعون بہ ای بسببہ من الھزاء اذ ھم بدل من اذ قبلہ یوم یدعوکم ظرف لیکون بحمدہ فی موضع الحال۔ تفسیر : آسمانوں اور زمین کی چیزوں کی تسبیح تو تم اے مشرکین سمجھتے ہی نہ تھے۔ تمہاری سمجھ میں تو قرآن مجید بھی نہیں آتا جو خاص تمہاری زبان فصیح میں نازل ہوا ہے۔ واذاقرأت الخ اور یہ نہ سمجھنا قرآن کا اس لیے ہے کہ جب تم اے نبی ! قرآن پڑھتے ہو تو ان کی ازلی گمراہی کے پردے بیچ میں حائل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے مضامین میں غوروتامل نہیں کرسکتے اور جو کوئی ان کو دوسرا سمجھائے تو سنتے بھی نہیں۔ اور ان کے حواس باطنیہ کے ماؤف ہونے پر یہ دلیل ہے کہ جب قرآن میں توحید کا ذکر اور شرک کی برائی سنتے ہیں تو بدک کر بھاگ جاتے ہیں۔ یہ مکہ کے مشرکوں کا حال بیان ہو رہا ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ جب انسان پر گمراہی اور بدبختی سوار ہوتی ہے تو نہ اس کا دل و دماغ درست رہتا ہے نہ عقل کتنا ہی سمجھاؤ نہیں سمجھتا اور اسی کو پردے اور حجاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اول تو مکہ کے مشرک حضرت ﷺ سے قرآن سنتے ہی نہ تھے اور جو کبھی مجلس میں ٹھہر گئے تو اس غرض سے کچھ اس میں سے یاد کریں تاکہ پھر اس پر تمسخر اور ہنسی کریں اور پھر آپس میں دس دس پانچ پانچ جمع ہو کر سرگوشیاں کرتے اور یہ کہتے تھے کہ یہ لوگ جو اس نبی کے تابع ہو رہے ہیں احمق ہیں۔ یہ تو خود جادو کا مارا ہوا ہے کسی نے اس پر سحر کردیا ہے اس لیے ایسی ایسی نئی نئی باتیں کرتا ہے، دیوانہ ہوگیا ہے۔ نحن اعلم سے لے کر رجلا مسحورا تک میں یہی ذکر ہے۔ اس پر خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ دیکھو یہ بدنصیب تم پر کیا بےاصل عیب لگاتے ہیں اور کوئی بات تو عیب کی ملتی نہیں انظر الخ وقالوا سے ان کی دوسری بات اور بیان فرماتا ہے کہ جس پر وہ بدکتے تھے وہ یہ کہ جب حضرت ﷺ فرماتے تھے کہ مر کر پھر قیامت میں زندہ ہوں گے تو وہ کہتے کہ جب ہم مٹی میں مل جائیں گے ہڈیوں کا چورا ہوجائیں گے تو پھر کیونکر زندہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو چیز قابل حیات نہیں لوہا یا پتھر یا کوئی اور چیز اگر تم وہ بھی ہوجاؤ جس نے تم کو اول بار پیدا کیا وہ دوبارہ پھر پیدا کرنے پر قادر ہے پھر جب وہ قیامت میں بارگاہ عدالت میں طلب کرے گا تو تم زندہ ہو کر اس کے خوف کے مارے تسبیح و تہلیل کرتے ہوئے، جرم کا انکار و بت پرستی سے برأت ثابت کرتے ہوئے فوراً حاضر ہوجاؤ گے اور یہ سمجھو گے کہ دنیا میں یا مرنے کے بعد حشر تک قبروں میں بہت کم ٹھہرے تھے وہ عرصہ دراز اس عدالت آسمانی کے خوف سے بہت ہی کم معلوم ہوگا اور یہ انسان کی جبلی بات ہے کہ مصیبت کے وقت راحت کا زمانہ دراز بہت ہی کم معلوم ہوا کرتا ہے اس میں اشارہ ہے کہ جس دنیاوی سامان و عیش پر آج فدا ہو اس کی یہ حقیقت ہے۔
Top