Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 105
وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ
وَبِالْحَقِّ : اور حق کے ساتھ اَنْزَلْنٰهُ : ہم نے اسے نازل کیا وَبِالْحَقِّ : اور سچائی کے ساتھ نَزَلَ : نازل ہوا وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا اِلَّا : مگر مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اور ہم نے اس (قرآن) کو سچائی سے نازل کیا اور وہ سچائی ہی سے نازل ہوا اور آپ کو جو ہم نے بھیجا ہے تو خوشی اور ڈر سنانے کو
ترجمہ ترکیب : لفیفا حال ہے ضمیر کم سے اے حمیعا وقرانا منصوب بفعل مقدر ای اقرانک قرانا وقیل مضمر یفسرہ مابعدہ وھو فرقناہ بالتخفیف عندالجمہور وقریٔ مشددا یبکون حال من یخرون۔ تفسیر : فاذاجاء الخ مگر جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لے آئیں گے وعدالاخرہ سے بعض کہتے ہیں وہ دوسرا وعدہ مراد ہے جس کا ذکر اول سورة میں تھا یعنی تم دو بار سرکشی کرو گے اور دو بار تم پر آفت آئے گی۔ اب یہاں بتلایا جاتا ہے کہ بربادی کے بعد تم کو پھر ہم ایک جگہ جمع کریں گے چناچہ بابل کی اسیری کے بعد پھر بنی اسرائیل مجتمع ہوئے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں سے جداگانہ کلام مسئلہ حشر کی بابت شروع ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جب ہڈیوں کا چورا ہوجائے گا ہم کیوں کر زندہ ہوں گے اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو تمہارے مختلف اجزاء کو جمع کر کے لے آئیں گے اور تم تو کیا تمہارے اگلے پچھلوں کو بھی سمیٹ لے آئیں گے۔ وبالحق انزلناہ الخ یہاں سے پھر ان کے شبہات کا جواب ہے جو وہ قرآن مجید کی بابت کیا کرتے تھے اس قرآن کو سچائی سے ہم نے نازل کیا ہے کسی اور نے نہیں نہ اس کو محمد ﷺ نے آپ بنا لیا ہے اور سچائی سے نازل ہوا نہ اس میں کوئی بات غلط اور جھوٹ ہے نہ اس کے نازل ہونے میں کوئی آمیزش وہم و شیطان ہوئی ہے پھر جو ایسی کتاب کو بھی نہ مانے تو وہ محض بدنصیب ہے۔ اے پیغمبر ! آپ ایسے بدنصیبوں ‘ ازلی اندھوں پر کیا غم کھاتے ہیں۔ وما ارسلناک الامبشر اونذیرا آپ کو تو صرف ہم نے اسی لیے بھیجا ہے کہ نیکوں کو ان کی حیات ابدی کا مژدہ سنا دیں اور بدوں کو ان کے انجامِ بد سے ڈرا دیں اور اس قرآن کو ہم نے یکبارگی اسی لیے نازل نہیں کیا کہ ان پر بار نہ ہوجائے بلکہ وقرانا فرقناہ خود ہم نے اس کو تھوڑا کر کے اس مصلحت سے نازل کیا ہے کہ لتقراء علی الناس علی مکث الخ آپ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر ان کی حاجات و ضروریات دینیہ کا لحاظ کر کے سنا دیں ‘ یکبارگی نازل کرنے میں یہ بات کہاں۔ عرب کے لوگ بیشتر بےپڑھے لکھے تھے یکبارگی اتنی بڑی کتاب کی ان سے محافظت بھی نہ ہوسکتی لامحالہ اس میں تحریف و تبدیل ہوجاتی اور نیز ان کو تدریجاً نیکی طرف لانا مصلحت اور اثرپذیر تھا۔ سب احکام کی دفعۃً تعمیل کا حکم دینا ان پر شاق ہوجاتا اور حضرات انبیاء (علیہم السلام) پر آگے بھی جو کچھ کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے اس کے یہی معنی ہیں کہ حسب ضرورت عباد وقتاً فوقتاً الہام ہوا اس کو جمع کرلیا وہ ایک کتاب یا صحیفہ ہوگیا۔ یہ نہیں کہ لکھی لکھائی کوئی کتاب آسمان پر سے نبی پر آپڑی ہو یا فرشتہ نے لا کردی ہو جیسا کہ مشرکین طلب کرتے تھے۔ تھوڑا تھوڑا الہام ہونے میں یہ مصلحتیں ہیں۔ اس پر یہ شبہ کرنا کہ اور مصنفوں کی طرح سوچ سوچ کر تصنیف کرتے تھے محض نادانی ہے کیونکہ ایک بار لکھی لکھائی کتاب آنے میں تو اور بھی صدہا شبہات پیش آتے اور نیز الہام کے معنی بھی پائے نہ جاتے کیونکہ الہامی وہ حالت ہے کہ بشر بشریت کے خواص سے علیحدہ ہو کر ملکیت کے سلسلہ میں منسلک ہوجائے اور حجاب جسمانی اٹھ جانے کے بعد یا بذریعہ ملک مقرب کہ جس کو ناموس اکبر کہتے ہیں یا بلاذریعہ اس نبی کے دل پر صرف مطالب مع الفاظ القاء ہوں۔ 2 ؎ اہل کتاب کے باانصاف اور باعلم لوگ جن کو نبی آخرالزماں ﷺ کا مبعوث ہونا کتب سابقہ سے معلوم تھا ان کا یہ حال تھا کہ جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو خوف خدا سے روتے اور سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ یہ نجاشی حبشہ کے عیسائی بادشاہ کی طرف اشارہ ہے۔ 12 منہ۔
Top