Tafseer-e-Haqqani - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان بھی ہیں ا
ترکیب : نحن مبتداء نزلنا خبر جملہ انا کی خبر یا نحن انا کی تاکید۔ کذلک ای الامر کذلک السلک ایک چیز کا دوسری چیز میں داخل کرنا اور ممکن ہے کہ صفت ہو مصدر محذوف کی اے سلوکا مثل استھزائھم۔ والضمیر للاستھزاء ای کمثل اد خالنا التکذیب فی قلوب اولئک نسلکہ ای ندخل الاستھزاء فی قلوب المجرمین ای کفار مکۃ ولوفتحنا جملہ شرطیہ لقالوا اس کی جزا۔ کفار کے استہزاء کے چند اسباب : تفسیر : کفار نے رسول اللہ ﷺ کو دیوانہ کہا تھا جس سے ان کا یہ مطلب تھا کہ جو کچھ رسول ہم کو سناتا ہے وہ کلام الٰہی نہیں دیوانوں کی بڑ اور بکواس ہے اور کفار جو انبیاء (علیہم السلام) کی نسبت ایسی باتیں کہا کرتے تھے اس کے چند سبب تھے : اول یہ کہ رسول شہوات و لذات باطلہ کے ترک اور عبادت و نیک روی کی تاکید کرتے تھے یہ بات ان پر شاق گزرتی تھی۔ دوم رسوم بد اور مذاہب باطلہ کا ترک کرنا جو پشت در پشت ان میں مروج ہونے کی وجہ سے ایک امر ناحق قرار پا گیا تھا اور بھی ناگوار معلوم ہوتا تھا اور اب بھی لوگوں کا رسوم و عادات خلاف شرع ترک کرنے میں یہی حال ہے۔ سوم انبیاء فقراء ہوتے تھے نہ ان کے پاس مال و جاہ تھا، نہ اعوان و انصار ‘ اس لیے رؤساء پر ایسے لوگوں کا مطیع ہونا شاق گزرتا تھا۔ چہارم ان کا گمراہ ازلی ہونا بڑا سبب تھا۔ حفاظت قرآن کا وعدہ الٰہی : اس کے جواب میں فرماتا ہے انا نحن الخ کہ ذکر یعنی قرآن ہمارا ہی نازل کیا ہوا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ اس پیشین گوئی کے مطابق آج تیرہ سو سال ہونے کو آئے قرآن ایسا محفوظ ہے کہ مشرق سے مغرب تک سب مسلمانوں کی زبان پر یکساں الفاظ ہیں ایک لفظ یا زیروزبر کا بھی فرق نہیں۔ آنحضرت ﷺ کے عہد سے لے کر اب تک بلکہ قیامت تک حفاظ اور قراء اور علماء کی جماعتیں اس کی محافظت پر کمربستہ ہیں۔ یہ قرآن کا بڑا معجزہ ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں واعلم انہ لم یتفق لشیء من الکتب مثل ھذا الحفظ فانہ الا کتاب لاوقد دخلہ التصحیف والتحریف والتغییر۔ شیعہ میں جو متعصصب اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں سے عثمان ؓ نے فلاں فلاں سورتیں کم کردیں اس آیت اور دیگر آیات سے مردود ہیں وہ بھی شیع الاولین میں داخل ہیں جنہوں نے رسولوں کا انکار کیا۔ ولقد ارسلنا فرماتا ہے کہ ان کا ایسی باتیں کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ آپ سے پیشتر اے محمد ! پہلی قوموں میں بھی ہم نے رسول بھیجے تھے ان کا بھی یہی حال رہا کہ جو رسول آیا اس کو جھٹلاتے رہے۔ اسی طرح ان کفار کے دلوں میں قضاء و قدر نے یہ انکار و تکذیب ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے وہ قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ وقدخلت سنۃ الاولین اور پہلوں کے ساتھ جو کچھ اللہ کا دستور تھا کہ اخیر وہ ان کو ہلاک کرتا آیا ہے وہ بھی چلا آتا ہے۔ کفار کی ضد اور ہٹ دھرمی : ولوفتحنا الخ یعنی وہ جو کہتے ہیں کہ معجزہ کے طور پر فرشتے کیوں نہیں آتے فرشتے تو کیا اگر ہم ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتے اور سیڑھی لگا دیتے کہ جس سے چڑھ کر وہاں کے حالات دیکھ آتے (یا یہ معنی کہ آسمان کے دروازوں سے فرشتوں کو چڑھتے اترتے دیکھتے) تو بھی یہی کہہ دیتے کہ یہ نظربندی ہے اور جادو۔
Top