Tafseer-e-Haqqani - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
ضرور پرہیز گار باغوں اور چشموں میں رہیں گے
تفسیر : توحید ثابت کرتے کرتے اس کے ضمن میں دارآخرت کا ذکر آگیا اور وہاں گنہگاروں کے لیے جہنم میں جانا بھی مذکور ہوا تو اس کے بعد نیک لوگوں کا حال اور انجام بیان کرنا گویا بیان کو تمام کردینا ہے۔ فرماتا ہے کہ متقین یعنی شرک و کفر سے بچنے والے یا کبائر سے بھی حتی المقدور باز رہنے والوں کو باغ اور ان میں نہر رواں ملیں گے اور فرشتے ان سے استقبال کر کے کہیں گے ان باغوں اور چشموں میں سلامتی اور امن سے داخل ہوجاؤ یا سلام علیکم کہیں گے اور بہشتیوں کے دلوں میں باہمی کدورت اور رنج نہ ہوگا، دنیاوی رنجشیں دل سے نکال دی جاویں گی، بھائی بھائی بنے ہوئے سونے کے تختوں پر آمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ‘ کسی کو کوئی بیماری وغیرہ کی تکلیف نہ ہوگی، نہ وہاں سے نکلیں گے۔ اس لیے فرماتا ہے کہ بندوں کو کہہ دو کہ میں غفور رحیم ہوں، فرمانبرداروں کو جنت دوں گا اور میرا عذاب بھی سخت ہے۔ توحید اور دار آخرت کا ذکر کر کے انبیائِ سابقین اور ان کی قوموں کے عبرتناک واقعات شروع ہوتے ہیں تاکہ ناظرین کو عبرت اور نصیحت ہو یہاں سب سے اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور اس کے ضمن میں لوط علیہ اسلام کی قوم پر ہلاکت آنے کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک روز خیمہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس چند مسافر آئے، مہمانی کے طور پر حضرت ان کے لیے تلا ہوا بچھڑا کھانے کو لائے۔ وہ دراصل فرشتے تھے، کھانے سے انہوں نے ہاتھ روکا۔ ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے کہ یہ دشمن ہیں کیونکہ اس عہد میں دشمن اپنے دشمن کے گھر کھانا نہیں کھاتا تھا، یہی علامت عداوت تھی۔ کہنے لگے مجھے تم سے خوف معلوم ہوتا ہے۔ فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تسلی کی اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے ہلاک کرنے کا قصد بیان کیا۔ بحیرہ لوط کے کنارے قوم لوط کی کئی بستیاں تھیں جنہیں اغلام کی عادت تھی۔ فرشتوں نے کہہ دیا کہ ہم اس ناپاک قوم کو ہلاک کرنے آئے ہیں مگر لوط نبی اور اس کے خاندان کو بجز ان کی بیوی کے کہ وہ قوم میں پیچھے رہ جائے گی، بچا لیں گے۔
Top