Tafseer-e-Haqqani - Al-Hijr : 2
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِیْنَ
رُبَمَا : بسا اوقات يَوَدُّ : آرزو کریں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان
منکر بڑی حسرت کریں گے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوجاتے
ترکیب : رب بالتخفیف والتشدید و ضم الراء فتحہا وما کافۃ لرب و یمکن ان یکون نکرۃ موصوفۃ ای رب شیء یودہ الذین درب حرف جر لایعمل فیہ مابعدہ و العامل محذوف تقدیرہ رب کافر یود الاسلام الادلھا جملہ نعمت ہے قریۃ کی لوما بمعنی ھلا۔ بروز قیامت کفار کی حسرت : تفسیر : ربما یود کہ قیامت کے دن یا بوقت مرگ یہ لوگ خواہش کریں گے کہ کاش ہم ایمان والے ہوتے۔ رب کے معنی بعض کہتے ہیں کہ بہت کے ہیں کہ بہت حسرت کریں گے اور بعض کہتے ہیں کم کے ہیں مگر مراد یہاں بہت ہے کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کثیرالوجود چیز کو یقین دلانے کے لیے بلفظ قلیل ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اس شخص کی نسبت کہ جس سے ہمہ وقت یا اکثر اوقات یاد کرنا متوقع ہو کہتے ہیں کہ کبھی تو ہمیں یاد کرو گے۔ مکہ کے مشرک آنحضرت ﷺ کے ساتھ مقابلہ میں مصروف تھے اور خدا کی اس مہلت پر مست تھے کہ اگر پیغمبر سچا ہے تو ہم پر کوئی آسمانی عذاب کیوں نہیں آتا۔ ہم تو ویسے کے ویسے مزے اڑاتے پھرتے ہیں۔ یہ ان کی حالت تھی جس کے رد میں اول تو الٓر فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ یہ قرآن (الف) اللہ نے بواسطہ (لام) جبرئیل (ر) رسول اللہ پر نازل کیا ہے۔ اس میں کوئی دروغ نہیں۔ دوم اس سورة حجر کی نسبت جو قرآن مبین کا ایک جزو ہے فرماتا ہے کہ یہ قرآن مبین اور کتاب الٰہی کی چند آیات ہیں۔ ان کے مطالب پر غور کرو۔ تمہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ مضمون اس فصاحت و بلاغت کے ساتھ جس میں ان کی تکمیل کا پورا نقشہ ہے من جانب اللہ ہے۔ پھر مبین کے لفظ سے اشارہ ہے کہ قرآن کی سب ہدایتیں واضح ہیں۔ کوئی بھی خلاف عقل سلیم نہیں۔ پھر اس کے ماننے میں کیوں تردد ہے۔ سوم مرنے کے وقت جو قریب ہے یا مرنے کے بعد یہ اس جہل و نادانی پر افسوس کریں گے اور حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔ چہارم مہلت کی نسبت فرماتا ہے کہ یہ چند روزہ ہے۔ اس میں ان کو مزے کرلینے دو ۔ ان کی لمبی چوڑی آرزوئیں دنیاوی کاروبار کی بابت کہ یوں کریں گے انہیں خود غفلت میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اور یہی لمبی چوڑی آرزوئیں غفلت کا پردہ ہیں۔ پھر ان کو جلد معلوم ہوجائیگا کہ ہائے کس غفلت میں پڑے ہوئے تھے خصوصاً جبکہ اپنے افعالِ بد کا بدنتیجہ دیکھیں گے ان سے پہلے بھی بہت سی قومیں تباہ ہوئی ہیں مگر ان کا ایک وقت مقرر تھا اس لیے آگے یا پیچھے نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی طرح ان کا بھی وقت معین ہے چناچہ بدر میں اور قحط شدید میں ہلاک ہوئے۔ پیشین گوئی صادق آئی وہ کفار آنحضرت ﷺ کو دنیاوی مشاغل سے بےفکر اور آخرت کی طرف متوجہ دیکھ کر کہتے تھے کہ اے محمد ! ﷺ تو جو کہتا ہے کہ مجھ پر نصیحت یعنی قرآن نازل ہو رہا ہے ضرور دیوانہ ہے چونکہ یہ قول دیوانوں کا تھا اس کا جواب کیا دینا تھا مگر وہ یہ جو کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہمیں فرشتے کیوں نہیں لا کر دکھاتا۔ اس کا جواب دیا کہ فرشتے تو جب آتے ہیں فیصلے ہی کے لیے آتے ہیں خواہ ہلاکت عامہ کے وقت یا موت کے وقت پھر جب وہ آئی تو مہلت کہاں۔
Top