Tafseer-e-Haqqani - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور البتہ ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اس کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کردیا
اثبات توحید پر دلائل سماویہ : تفسیر : قرآن مجید کی عادت ہے کہ ایک مقصد کے بعد دوسرے مطلب کو بیان فرماتا ہے تاکہ سننے والے کے دل پر بار نہ معلوم ہو۔ اس جگہ جبکہ مسئلہ نبوت میں کلام کرچکا تو مسئلہ توحید کو شروع کرتا ہے جس پر اثبات نبوت موقوف ہے اور نیز توحید کے متعلق ایسا کلام کرنا گویا نبوت۔ نبی کو اس کے اثر سے مشاہدہ کرا دینا ہے کہ جس کے منہ سے ایسی بات الہامی اور روح کو تازہ کرنے والی نکلی وہ قطعی نبی ہے نہ کہ مجنوں ولقد جلعنا الخ توحید کے ثبوت میں دلائلِ سماویہ سے یہ اول دلیل ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور آسمان کو ستاروں سے مزین کیا اور شیاطین سے اس کو محفوظ رکھا کہ کوئی شیطان وہاں تک جا نہیں سکتا اور جو کوئی چوری کے طور پر وہاں آسمانی بات سننے کو جا بھی پہنچا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے تو شہاب مبین یا شہاب ثاقب یعنی آگ کا شعلہ جس کو ستارہ ٹوٹا کہتے ہیں اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ رجیم رجم سے مشتق ہے جس کے معنی پتھراؤ کرنا یعنی پتھر پھینک پھینک کر مارنا، گالی گلوچ اور بہتان لگانے کو بھی اسی لیے رجم کہتے ہیں کہ گویا بیہودہ باتوں کے پتھر مارتے جاتے ہیں۔ منہ قولہ لارجمنک ای لاسینبک اور اسی مناسبت سے تخمینی اور بےتکی باتوں کو بھی رجم کہتے ہیں۔ منہ قولہ رجما بالغیب گویا شیاطین پر آتشی شعلوں کے پتھر مارے جاتے ہیں۔ مقدمہ تفسیر : میں بیان ہوچکا ہے کہ شیاطین کو لطافت مادہ کی وجہ سے ملائکہ کی باتیں سننے اور ان کے دیکھنے اور اونچے چڑھنے کی قدرت عطا کی گئی ہے۔ بروج برج کی جمع ہے اسی طرح ایک جگہ قرآن میں آیا ہے تبارک الذی جعل فی السمآء بروجاً اور ایک جگہ ہے والسمآء ذات البروج اس سے یہ مراد نہیں کہ جس طرح اینٹ پتھروں کی گول گول عمارت قلعوں کی دیواروں پر اور دیگر جگہ ہوتی ہے اسی طرح آسمان پر برج بنے ہوئے ہیں بلکہ یہ مراد کہ آسمان میں مختلف ستاروں کے نمودار ہونے سے خرپزے کی پھانکوں کی طرح آسمان کے بارہ حصے یا ٹکڑے جدا جدا معلوم ہوتے ہیں اور ان کے زبان عرب میں یہ نام مشہور تھے۔ حمل، ثور، جوز، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ جبکہ طبیعت فلکیہ ایک تھی اور اسی لیے حکماء کے نزدیک اس کی شکل کروی یعنی گول بنی تو پھر یہ بروج مختلف الطبائع اور آسمان میں یہ گوناگوں چیزیں کس نے بنائیں ‘ ان میں کمی و بیشی کس نے کی اور ان اجزاء کو کس نے مرکب کیا ؟ صرف ایک اللہ قادر مختار ‘ قوی وقہار و جبار نے۔ پھر اس نے نہ صرف ستاروں کو آسمان کی زیب وزینت بنایا بلکہ وہاں کا انتظام لائق بھی کیا۔ چوٹے شیطانوں کے لیے شہاب مبین کو کو توال بنایا تو پھر کیا وہ انبیاء کو بھیج کر انتظام بنی آدم نہ کرتا ؟ اور نیز شیاطین کو تو عالم علوی کی طرف رسائی نہیں پھر اگر خدا کا الہام اور جبرئیل امین کی پیغام رسانی نہیں تو محمد ﷺ کو عالم علوی کی باتیں کیونکر معلوم ہوگئیں ؟ سبحان اللہ اس ایک جملہ سے کس قدر باتیں ثابت کردیں۔
Top