Fi-Zilal-al-Quran - Nooh : 5
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّ نَهَارًاۙ
قَالَ رَبِّ : اس نے کہا اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نے دَعَوْتُ : میں نے پکارا قَوْمِيْ : اپنی قوم کو لَيْلًا وَّنَهَارًا : رات کو اور دن کو
اس نے عرض کیا ” اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا
قال رب انی ............................ سبلا فجاجا یہ تھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کارکردگی اور یہ رہی ان کی رپورٹ۔ اس طویل عرصہ کارکردگی میں وہ اپنے رب کے سامنے اپنا حساب پیش فرماتے ہیں۔ آپ کی رپورٹ میں جو چیز نمایاں ہے ، وہ آپ کی جہد مسلسل ہے۔ انی دعوت .................... ونھارا (17 : 5) ” اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب وروز پکارا “۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری ، وقفہ نہیں کیا ، اور وہ لوگوں کو مسلسل اعراض اور اصرار کے باوجود مایوس نہیں ہوئے لیکن فلم یزدھم ................ فرار (17 : 6) ” لیکن میری پکار نے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا “۔ یعنی وہ داعی الی اللہ سے بھاگتے رہے اور شیطان کے پیچھے پڑے رہے۔ حالانکہ اللہ ان کا خالق تھا ، جن انعامات میں وہ مزے سے رہ رہے تھے ، وہ اللہ کی تخلیق کردہ تھیں۔ یہ ہدایت بھی اللہ ہی کی طرف سے آرہی تھی ، اور داعی نہ اجر کا طلبگار تھا اور نہ فیس عائد کررہا تھا۔ اور جس ذات سے وہ بھاگ رہے تھے وہ ان کو اس لئے بلارہی تھی کہ آﺅ تمہیں بخش دیا جائے ، آﺅ تمہیں ان گناہوں کے انجام سے بچایا جائے اور معصیت اور ضلال سے بچایا جائے۔ وہ تو بھاگتے رہے لیکن داعی حق ان کو گھیرتے رہے اور ہر طرح ان کے کانوں تک کلمہ حق پہنچاتے رہے لیکن انہوں نے نہ اس بات کو برداشت کیا کہ ان کے کانوں میں کلمہ حق پڑے اور نہ اس بات کو پسند کیا کہ پیغمبر پر ان کی نظریں پڑیں ، اس لئے انہوں نے گمراہی پر بےحد اصرار اور کلمہ حق کے قبول کرنے سے بڑا تکبر کیا۔
Top