Fi-Zilal-al-Quran - Nooh : 11
یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ
يُّرْسِلِ : بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان کو عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : خوب برسنے والا (بنا کر)
وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ،
یرسل .................... مدرارا (17 : 11) ویمدد ................ انھرا (17 : 21) ” وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کردے گا “۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے استغفار اور عظائے رزق جہاں کو باہم یکجا کردیا اور قرآن میں بیشمار مواقع پر ایمان ، ہدایت اور صلاح اور تقویٰ اور خوشحالی اور وافر رزق کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ آتا ہے : ولو ان .................... یکسبون (7 : 69) ” اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم آسمان و زمین سے ان پر نعمتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے پکڑا “۔ اور دوسری جگہ ہے : ولو ان ............................ ارجلھم (66) (5 : 56۔ 66) ” اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کردیتے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کردیتے ، اگر وہ توریت ، انجیل اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے ، ان کو قائم کرتے ، تو وہ اپنے اوپر سے اور اپنے پاﺅں کے نیچے سے کھاتے “۔ اور دوسری جگہ ہے : الا تعبدوا .................... فضل فضلہ (3) (11 : 2۔ 3) ” یہ کہ عبادت نہ کرو مگر اللہ کی میں تم کو اس کی طرف سے ڈر اور خوشخبری سناتا ہوں اور یہ کہ گناہ بخشواﺅ اپنے رب سے اور اس کی طرف رجوع کرو ، وہ تم کو بہت اچھا فائدہ پہنچائے گا۔ ایک مقرر وقت تک اور دے دے گا ہر صاحب فضل کو اس کا فضل “۔ یہ اصول جس کا ذکر قرآن کریم متفرق مقامات پر کرتا ہے ایک صحیح اصول ہے او یہ اللہ اپنے وعدے پر قائم ہے اور ان سنن حیات پر قائم ہے جو اللہ نے اس کائنات میں جاری کیے ہیں اور انسانوں کی عملی تاریخ اس پر شاہد عادل ہے۔ یہ قاعدہ اقوام کے لئے ہے افراد کے لئے نہیں ہے۔ اس جہاں میں جب بھی کسی قوم نے شریعت پر اپنا نظام استوار کیا ہے اور عمل صالح اختیار کرکے خدا خوفی کا رویہ اپنایا ہے اور اللہ سے ڈر کر اپنی کوتاہیوں سے معافی طلب کی ہے ، اللہ نے اسے مادی ترقی بھی دی ہے۔ غرض جب بھی کسی قوم نے تقویٰ اختیار کرکے اللہ کی بندگی اختیار کی ہے اور شریعت کو نافذ کیا ہے ، اور لوگوں کے درمیان عدل کا نظام رائج کیا ہے تو اس کائنات کی قدرتی قوتوں نے اس کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اللہ نے اسے زمین پر تمکین عطا کی ہے اور وہ دنیاوی ترقی کے اعتبار سے بھی عروج تک پہنچی ہے۔ بعض اوقات ہم اس کرہ ارض پر ایسی اقوام دیکھتے ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتیں اور جو اللہ کی شریعت کے مطابق عمل پیرا نہیں ہوتیں ، لیکن اس کے باوجود ان کو وافر رزق ملتا ہے۔ اور اس زمین کے اوپر ان کو اقتدار اعلیٰ بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے۔ وتبلوکم ................ فتنة ” اور ہم تمہیں خیروشر کے ذریعہ سے آزماتے ہیں “۔ پھر یہ خوشحالی ایک سڑی ہوئی خوشحالی ہوتی ہے اور اسے اجتماعی بیماریاں ، اخلاقی کر اوٹ ، ظلم اور زیادتی ، انسانی شرافت کا فقدان جیسی خرابیاں لاحق ہوتی ہیں اور ان کا مزہ کر کرا ہوتا ہے۔ آج ہمارے سامنے دو بڑی حکومتیں ہیں جن کو اللہ نے رزق میں وہ وسعت دی ہے۔ زمین کے ایک بڑے حصے پر ان کا اقتدار ملا ہوا ہے۔ ایک سرمایہ دار ہے اور ایک اشتراکی ہے۔ (سید قطب ، آپ کو اللہ نے اطلاع دے دی ہوگی کہ یہ نابود ہوچکی ہے) جہاں تک پہلی کا تعلق ہے اس کی اخلاقی حالت حیوانوں سے بھی زیادہ گری ہوئی ہے۔ اور ان کی زندگی کی مجموعی حالت یہ ہے کہ یہ صرف ڈالر پر قائم ہے اور ڈالر کے سوا وہاں کوئی اخلاقی قدر نہیں ہے۔ اور دوسری حکومت میں انسان ایک غلام سے بھی گرا ہوا ہے اور اس کا جاسوسی نظام اس قدر خوفناک ہے کہ ہر شخص ایک دائمی خوف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی شخص رات کو اس حال میں نہیں سوتا کہ اسے صبح گرفتاری کا ڈر نہ ہو۔ یہ دونوں ممالک انسانی معیاروں کے لحاظ سے گرے ہوئے ہیں۔ (صرف سٹالن نے 3 کروڑ انسان تہ تیغ کیے۔ مترجم)
Top