Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ تعالیٰ
يُحِبُّ الَّذِيْنَ
: محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے
يُقَاتِلُوْنَ فِيْ
: جو جنگ کرتے ہیں۔ میں
سَبِيْلِهٖ
: اس کے راستے (میں)
صَفًّا
: صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر
كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ
: گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں
مَّرْصُوْصٌ
: سیسہ پلائی ہوئی
اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔
ان اللہ .................... مرصوص (16 : 4) ” اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ صرف قتال ہی نہیں ، بلکہ قتال اللہ کی راہ میں ہو ، اور یہ قتال منظم ہو ، سوسائٹی کی صفوں کے اندر تنظیم کے بعدہو اور یہ قتال ہو بھی نہایت ہی جم کر لڑنے کی صورت میں۔ جیسا کہ ہم نے اس پارے کی متعدد سورتوں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قرآن کریم کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ایک ایسی امت کی تعمیر کی جائے جو اس زمین پر قرآن کی امانت کی حامل ہو۔ قرانی منہاج زندگی قائم کرنا اس کی منشا ہو ، اور قرآنی شریعت کو ایک مکمل نظام کی شکل میں پیش کرے۔ اس مقصد کے لئے ایک جماعت اور ایک سوسائٹی بنانا ضروری تھا۔ اور اسی جماعت کو ایک عملی جماعت بنانا ضروری تھا ، اور یہ سب کام ایک ساتھ کرنے ضروری تھے۔ یاد رہے کہ اسلامی نظام کا مزاج یہ ہے کہ اس میں فرد کی قیمت جماعت میں ہے ، تنہا کچھ نہیں۔ اسلام اپنے وجود کو ایک باہم مربوط اور منظم جماعت کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، جس کا ایک نظام ہو ، جس کا ایک ہدف ہو ، اور اس ہدف کے ارد گرد اس کے تمام افراد گھومتے ہوں۔ یوں کہ یہ نظام ہر ایک کے ضمیر میں ، ہر ایک کے عمل میں ، پھر اس کرہارض پر کسی امت کی عملی شکل میں نافذ ہو اور زمین کے ابوپر اس عملی سوسائٹی کی شکل میں ، ایک ایسی سوسائٹی ایک ، ایسی امت جو عملاً متحرک ہو اور اپنے تمام کام اس نظام کے حدود اور فریم ورک میں کرتی ہو۔ اسلام ، اگرچہ فرد کی اصلاح اور ایک فرد کی نیت کی اصلاح اور ضمیر کی اصلاح پر بہت زور دیتا ہے اور انفرادی ذمہ داری کا اصول بھی اسلام ہی نے عطا کیا ہے ، لیکن اسلام افراد کا دین نہیں ہے ، کہ ایک ایک عبادت خانے میں جاکر اپنی اپنی عبادت کرے۔ اس طرح اسلام کسی ایک فرد کی ذات میں حقیقت نہیں بن سکتا ، نہ کسی ایک منفرد شخص کی ذات میں بھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ نہ اسلام اس صورت میں آیا ہے کہ وہ ایک شخص کی زندگی میں گوشہ نشین ہوکر رہے ، بلکہ اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی زندگی پر حکمران ہو ، زندگی کے اندر تصرف کرے ، اس پر کنٹرول کرے ، اور لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اور سرگرمیوں پر حاوی ہو۔ اس لئے کہ انسان انفرادی طور پر زندہ نہیں رہتے بلکہ اجتماعی طور پر زندہ رہتے ہیں اور اسلام چونکہ انسانوں پر حکمرانی کے لئے آیا ہے اس لئے وہ ایک اجتماعی نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے آداب ، اس کے قواعد ، اس کے ارادے ، یہاں تک کہ اس کی عبادات بھی اجتماعی ہیں۔ اگر اسلام کا کوئی حکم کسی فرد کے لئے ہے تو بھی وہ ایک ایسے انسان کے لئے ہے جو سوشل ہے اور ایک جماعت کے اندررہتا ہے ، اس میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور اس جماعت میں اپنے دین کا امین ہے ، ایک نظام کا حامل ہے ، اور اس کا فرض ہے کہ اس نظام کو لوگوں کے اندر نافذ کرے۔ جب سے نبی ﷺ نے دعوت کا آغاز کیا ، اسلامی معاشرہ قائم ہونا شروع ہوگیا۔ اسلامی جماعت کی تشکیل شروع ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ اس جماعت کے قائد قرار پائے۔ یہ جماعت ایسی تھی جس کی جماعتی ذمہ داریاں تھیں ، جو اپنے ماحول سے بالکل ممتاز تھی۔ اس کو ایسے آداب سکھائے جاتے تھے کہ ان کا ایک سرا اگر ایک فرد انسان کے ضمیر میں ہوتا تھا تو دوسرا سرایک جماعت سے متعلق ہوتا تھا اور یہ اسلامی اجتماعی سوسائٹی اس وقت بھی تھی جب ابھی مدینہ میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی بلکہ مدینہ کی اسلامی حکومت قائم بھی مکہ کی اسلامی جماعت کے ذریعہ سے ہوئی تھی۔ ہم جب ان آیات پر غور کرتے ہیں تو دینی عقائد کے اوپر جو اخلاقی نظام ان میں استوار کیا جاتا ہے وہ ایک اجتماعی ضرورت بھی ہے اور یہ اخلاق ایک اجتماعی نظام ہی کی شکل میں ظاہر ہوسکے ہیں اور یہ نظام ایسا ہے کہ اسے نافذ کرنے کے لئے ایک انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ پہلی دو آیات میں اس بات پر گرفت کی گئی ہے کہ یہ بات ایک مسلمان اور مومن کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ ایک بات کہے اور پھر اس پر عمل نہ کرے۔ یہ ایک مسلمان اور مومن کی شخصیت کی بنیادی صفت ہے۔ سچائی اور استقامت اور راست بازی۔ اس کا باطن اور ظاہر ایک ہو۔ اس کا قول اور فعل یکساں ہوں اور یہ بات صرف مسئلہ جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک مومن کو ہر معاملے میں ایسا ہونا چاہئے۔ یہ کہ مسلم کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہئے اور قول وفعل یکساں ہونا چاہئے۔ ایک ایسی بات ہے جس پر قرآن نے بہت ہی تاکید کی ہے اور اس مضمون کو بار بار بیان کیا ہے۔ یہودیوں کے بارے میں کہا گیا۔ اتامرون ........................ تعقلون (2 : 44) ” تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے “۔ اور منافقین پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے : ومن الناس ............................ الفساد (502) (2 : 402) ” انسانوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے ، مگر حقیقت میں وہ بدترین دشمن حق ہوتا ہے۔ جب اسے اقتدار حاصل ہوجاتا ہے ، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے ، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” منافق کی علامتیں تین ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ، اور جب اس پر امانت کا اعتماد کیا جائے تو خیانت کرے “۔ (متفق علیہ) اس مضمون کی احادیث بہت ہیں ، آگے جو حدیث ہم ذکر کررہے ہیں ، وہ اس سلسلے میں شدید ترین اور سخت ترین ہدایت ہے۔ امام احمد نے عبداللہ ابن عامر ابن ربیعہ سے روایت کی۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر آئے۔ اس وقت میں بچہ تھا۔ میں گھر سے باہر جانے لگا کہ کھیلوں۔ میری ماں نے مجھے کہا عبداللہ ! ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ میری ماں سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کھجور کا دانہ۔ تو حضور نے فرمایا : اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارے خلاف ایک جھوٹ لکھ دیا جائے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام احمد ابن عقیل سفر کرکے ایک شخص کے پاس ایک حدیث نقل کرنے لگے اور یہ سفر کافی طویل تھا تو آپ نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ تھیلی پکڑے ہوئے ہے اور اپنے خچر کو یہ باور کر ارہا ہے کہ اس میں خوراک ہے ، حالانکہ وہ خالی تھی تو امام احمد نے اس شخص سے روایت کرنا مناسب نہ سمجھا ، کیونکہ اس نے اپنے خچر کے ساتھ جھوٹ بولا۔ یہ تھی اسلام کی اخلاقی تعمیر ۔ اور یہ تھا ایک مسلمان کے لئے اخلاقی معیار۔ اور یہ تھے وہ لوگ جن کو اسلامی نظام حیات کا امین بنایا گیا تھا۔ یہی معیار ہے جسے قائم کرنا اس سورت کا مقصد و محور ہے اور یہ اسلامی جماعت کی تربیت کا ایک اہم نکتہ ہے جسے اللہ اسلامی منہاج کو درست کرنے کے لئے اٹھاتا ہے۔ جب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جو اس سورت کا محور اور موضوع ہے یعنی جہاد فی سبیل اللہ۔ تو اس سے پہلے ہم کئی موضوعات اپنے سامنے پاتے ہیں تاکہ ہم ان پر غور کریں اور اس سے عبرت لیں۔ سب سے پہلے تو ہمارے سامنے حضرت انسان کا نفس آتا ہے اور اس نفس پر ضعف کے لمحات آتے ہیں۔ صرف اللہ ہی اسے اس ضعف سے بچا سکتا ہے اور دائمی یاد دہانی اور دائمی تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ نہایت ہی ابتدائی مہاجرین میں سے کچھ لوگ تھے جن کی خواہش تھی کہ ان کو قتال کی اجازت دی جائے۔ یہ لوگ اہل مکہ میں تھے اور ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ مکہ ہی میں لڑنا چاہتے تھے لیکن اس وقت ان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھوں کو روکے رکھیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔ لیکن جب ان پر جہاد فرض کیا گیا اور وہ بھی مدینہ میں اور مناب وقت پر ، تو ان میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ وہ لوگوں سے ایسے ڈرنے لگے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ڈرنے لگے۔ اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ۔ وقالوا ................ اجل قریب (4 : 77) ” اے اللہ تونے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا۔ ذرا اور ہمیں مہلت دی ہوتی “۔ یا یہ مدینہ ہی کی ایک جماعت تھی اور محبوب ترین اعمال کے بارے میں پوچھتی تھی اور جب بتایا گیا کہ محبوب ترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے تو انہوں نے اس کو ناپسند کیا۔ یہی ایک واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ نفس انسانی بہت کمزور ہے اور اسے رات دن مسلسل تربیت وتذیکر اور یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جکبہ اس کو مشکل ترین ٹارگٹ دیا جارہا ہو۔ یہ تربیت اس لئے ضروری ہے کہ یہ اپنی راہ پر درست چلتی رہے ، اپنی کمزوریوں پر قابو پائے اور دور افق بلند پر اس کی نظریں ہوں۔ نیز اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی کوئی مشکل ٹارگٹ لینے کے لئے ایک مسلم کو بےتاب نہیں ہونا چاہئے۔ جبکہ چاہت دین ہو تو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اگر ہم اللہ کے سامنے تجاویز پیش کریں اور اللہ وہ حالات پیش کردے تو شاید ہم ثابت قدم نہ رہ سکیں۔ دیکھئے یہ مسلمانوں کی پہلی جماعت ہے اور اس میں بھی ایسے لوگ ہیں جن پر گرفت ہورہی ہے کہ کیوں تم ایسی باتیں کرتے ہو جن پر عمل نہیں کرتے۔ یہ سخت عتاب ہے اور خوفناک گرفت ہے۔ دوسری بات جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں ، اس طرح جس طرح وہ بنیان مرصوص ہیں۔ اللہ اپنے راستے میں لڑنے کے لئے کس قدر زور دار انداز سے مسلمانوں کو آمادہ کرتا ہے لیکن ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ تاکید بعض لوگوں کی اس نفسیاتی حالت کو دور کرنے کے لئے کہی گئی جو جنگ کو پسند نہ کرتے تھے اور اسے اور موخر کرنا چاہتے تھے۔ اور جنگ سے پسپائی اختیار کررہے تھے۔ اس لئے یہاں ان کو سختی سے آمادہ کیا گیا۔ لیکن اس مخصوص سبب نزول کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ آیت مخصوص حالات کے لئے ہے بلکہ اسلام کی یہ عام پالیسی ہے کہ لوگوں کو بروقت جنگی حالات کے لئے آمادہ رکھا جائے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام خواہ مخواہ جنگی جنون پیدا کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ جنگ کو ایک محبوب چیز سمجھتا ہے۔ اسلام جنگ کو اس لئے فرض قرار دیتا ہے کہ حالات اسے مجبور کردیتے ہیں۔ پھر اسلام جن مقاصد کے لئے جنگ کرتا ہے وہ بلند مقاصد ہیں۔ اسلامی جنگ اس لئے ہوتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر اللہ کے آخری منہاج زندگی کو نافذ اور قائم کیا جائے۔ یہ اسلامی منہاج زندگی اگرچہ ایک فطری منہاج ہے لیکن اسلام انسانی نفوس پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس منہاج کے معیار تک بلند کریں تاکہ اس اعلیٰ معیار پر یہ نظام قائم رہ سکے۔ لیکن یہ بھی ایک عملی حقیقت ہے کہ ہمیشہ اس کرہ ارض پر ایسی قوتیں رہی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی اس دنیا میں قدم نہ جماسکے۔ اس لئے کہ دنیا کے جس قدر غیر اسلامی نظام ہیں ان کے کچھ مفادات وامتیازات ہوتے ہیں ، یہ نظام بعض کھوٹی اور جھوٹی قدروں پر قائم ہوتے ہیں ، جب بھی دنیا میں اسلامی نظام قائم ہوا ہے ایسی قوتوں کے مفادات ختم ہوگئے ہیں۔ یہ باطل نظامہائے زندگی انسانی نفوس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انسانوں کو انسانی سطح سے نیچے گر اکر اور ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا کرکے ، اور ان کو حقیقت سے جاہل رکھ کر اسلامی نظام کی مخالفت میں لاکرکھڑا کردیتے ہیں۔ اور یوں عوام الناس اپنی جہالت کی وجہ سے اسلام کی راہ روکنے لگتے ہیں۔ شرکا زور ہوتا ہے اور باطل پھولا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اور شیطان کی چالیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حاملین ایمان اور اسلامی منہاج حیات کے محافظین اور پاسداروں کے لئے اعلیٰ اخلاقی معیار تجویز کرتا ہے تاکہ وہ شر اور شیطان کے ایجنٹوں کا اچھی طرح مقابلہ کرسکیں۔ ان کی اخلاقی حالت مضبوط ہو ، وہ دشمنوں کے خلاف لڑسکیں۔ اور وہ ہر وقت ایسی جنگ کے لئے تیار ہوں جو ان پر اسلام کے دشمن مسلط کردیں۔ یہی ایک ضمانت ہے جس کی وجہ سے دعوت اسلامی کی راہ نہیں رکتی۔ جس کے ذریعہ سے اسلامی نظام قائم رہتا ہے۔ لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ملتی ہے۔ اور وہ اپنی مرضی کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کرتے ہیں نہ اپنی ذات کے لئے لڑتے ہیں اور نہ ہی کسی رنگ کی عصبیت کے لئے لڑتے ہیں۔ نہ نسلی ، نہ لسانی ، نہ علاقائی اور نہ خاندانی عصبیت کے لئے۔ صرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ اس لئے لڑتے ہیں کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” وہ جو صرف اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے “۔ کلمة اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے احکام ومقاصد کے لئے اور اللہ کا ارادہ بھی یہی ہے کہ جس طرح یہ پوری کائنات اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اللہ کے قانون قدرت کے مطابق چلتی ہے اسی طرح انسان بھی اللہ کے بھیجے ہوئے آخری اور مکمل نظام زندگی اور شریعت الٰہیہ کے مطابق چلے۔ اور یوں یہ پوری کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والے سب انسان اللہ کے قانون کے مطابق چلیں۔ اور اللہ کے سوا کسی کا قانون اور شریعت نہ چلے۔ یہ ضروری تھا کہ بعض افراد نظام شریعت کی راہ روکیں ، بعض طبقات اسلامی نظام کو قائم ہونے نہ دیں۔ بعض حکومتیں اسے اپنے لئے خطرہ سمجھیں اور اس کے سوا بھی چارہ نہ تھا کہ اسلام ان رکاوٹوں کو عبور کرے اور ان کا مقابلہ کرے۔ اور یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں پر جہاد و قتال فرض کیا گیا تاکہ اسلامی نظام کو قائم کیا جاسکے اور اسے قائم رکھا جاسکے۔ اور زمین کے اوپر اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو محبوب سمجھتا ہے ، جو اس کے راستے میں صف بندی سے لڑتے ہیں ، گویا وہ بنیان مرصوص ہیں۔ یہ ہے وہ حالت جس پر ہمیں بہت زیادہ غور کرنا چاہئے۔ الذین ........................ مرصوص (16 : 4) ” جو اللہ کی راہ میں صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ اگر مجاہدین اس حالت میں نہ ہوں تو شاید محبوب نہ ہوں۔ یہ ہر قرد کو بھی حکم ہے اور اجتماعی لحاظ سے بھی حکم ہے۔ یعنی ان کو اس طرح ہونا چاہئے کہ ان کی ایک مضبوط نظام والی جماعت ہو۔ اس لئے کہ جو قوتیں اسلام کی راہ میں روکتی ہیں وہ جماعتی اور اجتماعی قوت کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اور اس کے خلاف پوری قوتوں کو جمع کرتی ہیں۔ لہٰذا اسلامی قوتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں جمع کر نکلیں اور ملت واحد کی شکل میں آئیں۔ ایک پختہ دیوار کی شکل میں اور نہایت ہی منظم شکل میں نکلیں۔ ہم آہنگی سے نکلیں۔ لہٰذا یہ صورت کہ ایک انسان اکیلا اللہ کی بندگی کرے ، اکیلا جہاد کرے ، اکیلا زندگی بسر کرے ، یہ ایسی صورت ہے ، جو اس دین کے مزاج ہی کے خلاف ہے ، حالت جہاد کے جو تقاضے ہوتے ہیں ان کے خلاف ہے اور اس کے بعد پوری زندگی کو کنٹرول کرنے کی جو صورت ہوتی ہے ، اس کے خلاف ہے۔ یہ تصویر جو مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ یہاں پیش فرماتا ہے یہ دراصل مسلمانوں کے دین کی تصویر ہے۔ یہ تصویر دکھاتی ہے کہ مسلمانوں کے نشانات راہ کیا ہیں اور قرآن کریم ان کے لئے اجتماعی نظام کفالت وحمایت کس طرح تجویز کرتا ہے۔ صفا ................ مرصوص (16 : 4) ” ایک صف کی شکل میں ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ ایک ایسی دیوار جس کی اینٹیں ملی ہوئی ہیں ، باہم پیوست ہیں اور ہر اینٹ اپنا فریضہ ادا کررہی ہے اور ہر اینٹ اپنے مقام پر کھڑی ہے اور اپنا فریضہ ادا کررہی ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی نکال لی جائے تو پوری عمارت گر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر اینٹ آگے ہوجائے ، پیچھے ہوجائے یا اوپر والی اینٹ نیچے والی اینٹ سے جدا ہوجائے تو دیوار میں سوراخ ہوسکتا ہے۔ یہ سب باتیں جماعت کے افراد کے باہمی ربط کو متعین کری ہیں۔ جو ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یعنی وہ شعوری طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، فکر ونظر میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمقدم ہوں ، نظام میں بھی منظم ہوں جس طرح تسبیح کے دانے اور ہدف بھی ایک ہو۔
Top