Fi-Zilal-al-Quran - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟
یایھا الذین ................ مرصوص (4) (16 : 2 تا 4) ”” اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں “۔ علی ابن طلحہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ایسے تھے کہ فرضیت جہاد سے پہلے کہتے تھے کہ اللہ ہمیں کوئی ایسا عمل بتادے ، جو اسے بہت ہی محبوب ہو ، ہم اس پر عمل کریں۔ اللہ نے نبی ﷺ کو یہ اطلاع دی کہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل تو بیشک ایمان لانا ہے لیکن اس کے بعدان لوگوں کے خلاف جہاد کرنا اللہ کو محبوب ہے جو ایمان نہیں لاتے اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ایمان کا اقرار نہیں کرتے۔ جب جہاد کا یہ حکم نازل ہوا تو بعض مسلمانوں نے اسے پسند نہ کیا اور اسے انہوں نے ایک بھاری حکم سمجھا . تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یایھا الذین .................... تفعلون (3) (16 : 2۔ 3) ”” اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو “۔ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس قول کو اختیار کیا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا : جمہور نے کہا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں نے یہ تمنا کی کہ جہاد فرض ہوجائے ، جب جہاد فرض ہوگیا تو بعض لوگوں نے اسے پسند نہ کیا اور دوسری جگہ بھی اس کے بارے میں آیا ہے۔ الم ترالی ................................ مشیدة (87) (4 : 77۔ 87) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو ، اور زکوٰة دو ، اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسے ڈر رہے ہیں جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہئے ، یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ، کہتے ہیں خدایا ، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو ، دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی ، خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو “۔ قتادہ اور ضحاک نے کہا کہ یہ ان لوگوں کی سرزنش کے لئے نازل ہوئی ہے جو کہتے تھے کہ ہم نے قتل کیا ، تیرمارا ، تلوار چلائی ، اور یہ یہ کیا اور دراصل انہوں نے ایسا نہ کیا تھا۔ آیت کے سیاق کلام اور اس میں قتال کے ذکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہور مفسرین کی بات درست ہے۔ یہی رائے ابن جریر نے بھی اختیار کی ہے۔ لیکن قرآنی آیات کا مفہوم بالعموم شان نزول کے واقعات سے وسیع ہوتا ہے ۔ بلکہ بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے ہم عمومی مفہوم لیتے ہیں۔ خصوصی واقعہ نزول کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ہاں جس واقعہ میں آیت نازل ہوئی اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے .... آغاز یوں ہوتا ہے کہ کسی واقعہ یا واقعات پر عتاب ہے۔ یا یھا الذین ................ تفعلون (16 : 2) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں “۔ اور اس کی انتہا اس پر ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ فعل بہت ہی برا ہے۔
Top