Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 93
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَمَنْ
: اور کون
اَظْلَمُ
: بڑا ظالم
مِمَّنِ
: سے۔ جو
افْتَرٰي
: گھڑے (باندھے)
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
كَذِبًا
: جھوٹ
اَوْ
: یا
قَالَ
: کہے
اُوْحِيَ
: وحی کی گئی
اِلَيَّ
: میری طرف
وَلَمْ يُوْحَ
: اور نہیں وحی کی گئی
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
شَيْءٌ
: کچھ
وَّمَنْ
: اور جو
قَالَ
: کہے
سَاُنْزِلُ
: میں ابھی اتارتا ہوں
مِثْلَ
: مثل
مَآ اَنْزَلَ
: جو نازل کیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَلَوْ
: اور اگر
تَرٰٓي
: تو دیکھے
اِذِ
: جب
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
فِيْ غَمَرٰتِ
: سختیوں میں
الْمَوْتِ
: موت
وَالْمَلٰٓئِكَةُ
: اور فرشتے
بَاسِطُوْٓا
: پھیلائے ہوں
اَيْدِيْهِمْ
: اپنے ہاتھ
اَخْرِجُوْٓا
: نکالو
اَنْفُسَكُمْ
: اپنی جانیں
اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ
: آج تمہیں بدلہ دیا جائیگا
عَذَابَ
: عذاب
الْهُوْنِ
: ذلت
بِمَا
: بسبب
كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے تھے
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر (بارہ میں)
غَيْرَ الْحَقِّ
: جھوٹ
وَكُنْتُمْ
: اور تم تھے
عَنْ
: سے
اٰيٰتِهٖ
: اس کی آیتیں
تَسْتَكْبِرُوْنَ
: تکبر کرتے
اور اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے ‘ کہے کہ مجھ پر وحی آئی درآں حالیکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو ‘ یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلے میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھا دوں گا ؟ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے
(آیت) ” نمبر 93 تا 94۔ حضرت قتادہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سین یہ روایت ہے کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب اور اس کی بیوی سجاح بنت حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسود عنسی کے بارے میں بھی ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے حضور ﷺ کی زندگی میں نبوت کا دعوی کیا تھا ۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی ہے ۔ رہی یہ بات کہ (آیت) ” سانزل مثل ما انزل اللہ “۔ (6 : 93) یا جس نے کہا کہ ” میری طرف بھی وحی آئی ہے ۔ “ تو حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد عبداللہ ابن سعد ابن ابی سرح ہیں ۔ یہ ایمان لائے تھے ۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کے کاتب وحی تھے ۔ جب سورة المومنون کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” لقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین “۔ (23 : 12) تو نبی کریم ﷺ نے اسے بلایا اور اسے لکھوانا شروع کیا اور جب یہ آیات یہاں تک پہنچیں ۔ (آیت) ” ثم انشانہ خلقا اخر “۔ (23 : 14) تو عبداللہ کی تخلیق کی ان تفصیلات پر تعجب ہوا ۔ تو اس نے کہا : (آیت) ” فتبرک اللہ احسن الخلقین “۔ (23 : 14) تو رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ اسی طرح آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مقام پر عبداللہ نے شک کرلیا کہ اگر محمد سچا ہو تو پھر مجھ پر بھی ویسے ہی وحی نازل ہوگئی جس طرح ان پر نازل ہوئی اور اگر ہوں تو جس طرح انہوں نے کہا ویسا ہی میں نے بھی کہا ۔ اسی طرح وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگیا اور مشرکین سے دوبارہ مل گیا ۔ یہ ہے مصداق اس آیت کا ۔ (آیت) ” سانزل مثل ماانزل اللہ “۔ (6 : 93) (روایت کلبی عن عباس) یہاں سیاق کلام میں ‘ ان مشرک ظالموں کے جس انجام کا ذکر ہوا ہے وہ نہایت خوفناک ‘ کربناک اور ہراساں کنندہ ہے ۔ نظر آتا ہے کہ یہ ظالم سکرات الموت کی حالت میں ہیں اور اس حالت کے لئے لفظ غمرات کا استعمال بتایا ہے کہ ان کی حالت نہایت دردناک ہوگی ۔ فرشتے ان کی جان لینے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے اور فرشتوں کی یہ گرفت بھی سزا دہی کے طور پر ہوگی ۔ یہ فرشتے ان کی روح نکال لیں گے اور پھر عذاب الہی ان کے لئے حاضر ہوگا ۔ (آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ (93) ” کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے “ ۔ ان کے استکبار اور سرکشی کی وجہ سے انہیں عذاب عظیم میں مبتلا ہونا ہوگا ۔ یہ توہین آمیز سزا انہیں اس لئے دی جا رہی ہے کہ انہوں نے اللہ پر افتراء باندھا ۔ ان تمام امور کے تذکرے سے اس منظر پر ایک خوفناک فضا طاری ہوجاتی ہے اور اس کو دیکھ کر انسان مارے خوف فضا طاری ہوجاتی ہے اور اس کا دیکھ کر انسان مارے خوف کے دہشت زدہ ہوجاتا ہے اور اس کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ آخر میں یہ توبیخ اور جھڑک اس وقت ہوتی ہے جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور اللہ تعالیٰ کا خطاب ان سے ایسے حالات میں یوں ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (6 : 94) (اور اللہ فرمائے گا) ” لو اب تم ویسے ہی تنا تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے ہو جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا “۔ اب تمہارے پاس فقط تمہاری ذات ہے ۔ تم بالکل اکیلے ہو ‘ تم اپنے رب کے سامنے گروہ کی شکل میں نہ ہوگے بلکہ فردا فردا جس طرح تم ماں کے پیٹ سے اکیلے اس جہان میں آئے تھے ‘ ننگا جسم اور بےیارومددگار ۔ اب تم سے تمہارے تمام یارومددگار دور ہوچکے ہیں ۔ ہر سہارا اور وسیلہ تم سے دور ہوچکا ہے ۔ اب تمہیں ان چیزوں پر بھی اختیارات حاصل نہیں ہیں جنہیں اللہ نے تمہاری ملکیت میں دیا تھا ۔ (آیت) ” وَتَرَکْتُم مَّا خَوَّلْنَاکُمْ وَرَاء ظُہُورِکُمْ “ (6 : 94) ” جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو “۔ وہ مال وزینت جس کے تم دنیا میں مالک تھے ‘ وہ تم سے پیچھے رہ گیا ہے ۔ اولاد اور مرتبہ تم سے پیچھے رہ گیا ہے ۔ قوت اور اختیارات سب کے سب ختم ہوگئے ۔ یہ سب چیزیں دنیا میں رہ گئیں اور اب تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور نہ کسی دنیاوی امر پر اب تمہیں کوئی اختیار حاصل ہے ۔ (آیت) ” وَمَا نَرَی مَعَکُمْ شُفَعَاء کُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ أَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکَاء (6 : 94) ” اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ ‘ یہ لوگ جن کے بارے میں تم سمجھتے تھے کہ یہ لوگ مشکلات میں تمہاری سفارش کریں گے اور تم انہیں اپنی زندگی اور اپنے مال میں شریک ٹھہراتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے ہاں یہ تمہارے سفارشی ہوں گے ۔ دوسری جگہ میں آتا ہے ۔ (آیت) ” ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی “۔ ہم تو ان کی بندگی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ “ چاہئے یہ شریک لوگ ہوں ‘ کاہن ہوں یا وقت کے حکمران ہوں ‘ یا پتھر ہوں یا حجر وشجر کے بت ہوں ‘ جنات ہوں یا ملائکہ ہوں ‘ ستارے ہوں یا سیارے ہوں یا اولیاء فقراء ہوں بتاؤ وہ کہاں ہیں ؟ بتوں کی نسبت یا ستاروں کی نسبت وہ اپنے جھوٹے خداؤں کی طرف کرتے تھے اور اپنے مال اور اپنی زندگی میں یہ لوگ انہیں شریک بناتے تھے ۔ اللہ میاں سوال کریں گے ‘ بتاؤ وہ کہاں گئے ؟۔ (آیت) ” لَقَد تَّقَطَّعَ بَیْْنَکُمْ “۔ (6 : 94) ” تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے ۔ “ تمام رابطے ٹوٹ گئے ‘ تمام تعلقات ختم ہوگئے اور تمام اسباب اور وسیلے ختم ہوگئے ۔ اب وہ تمہارے تمام مزعومہ خدا اور الہ غائب ہوگئے ہیں ‘ جس طرح شرکاء غائب ہیں اسی طرح تمہارے مزعومہ عقائد بھی کافور ہوگئے ہیں ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میرے ہاں اب ان کا نہ کوئی اثر ہے نہ کوئی سفارش ہے اور نہ اثر ورسوخ ہے ۔ غرض یہ ایک ایسا منظر ہے جو انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ یہ منظر نہایت ہی مجسم شکل میں اور متحرک طور پر سامنے نظر آتا ہے ۔ نفس انسانی پر اس کی چھاؤں پڑتی ہے ۔ دل میں مومن معرفت سے بھر جاتا ہے ۔ یہ سائے نہایت ہی خوفناک اور دہشتناک ہیں ۔ بیشک یہ قرآن ہی کا انداز بیان ہے اور قرآن ہی کا حصہ ہے ۔ درس نمبر 66 ایک نظر میں : مناسب ہے کہ یہاں وہ تبصرہ ہمارے پیش نظر رہے جو ہم نے اس سورة پر کیا تھا ‘ اور یہ بات بھی ہمارے سامنے رہے کہ اس سورة کے مضامین دریا کی لہروں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آرہے ہیں اور لہر کے پیچھے لہر چلی آرہی ہے اس کا انداز بیان اس حد تک خوبصورت اور اس قدر فصیح وبلیغ ہے کہ حسن تعبیر کے بارے میں انسان جس حد تک سوچ سکتا ہے ۔ اثر آفریں کلام کی جو آخری حد ہو سکتی ہے یہ سورة اس سے بھی آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہم نے کہا تھا : ” یہ سورة اپنے اساسی موضوع کو ایک منفرد طریقے پر لے رہی ہے ۔ ہر لمحے ‘ ہر موقف اور ہر منظر میں اس کا انداز بیان خیرہ کن ہے ۔ جب انسان اس پر غور کرتا ہے اور اس کے مناظر کی سیر کرتا ہے تو احساس اس کے مناظر کا گرفتار ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے سانس رک سا جاتا ہے خصوصا جب انسان اس کے مناظر پر غور کرے ۔ اس کے زیروبم کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کے اثرات کو محسوس کرے ۔ “ ” یہ سورة اپنے مشاہد ومواقف ‘ اپنے اشارات واثرات اور اپنی تقاریر وشیڈز کے ساتھ اس طرح جاری وساری ہے جس طرح کوئی لہر اور دریا اپنی امواج اور لہروں کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے ۔ ایک لہر ساحل سے نہیں ٹکراتی کہ دوسری اٹھ رہی ہوتی ہے ۔ امواج کے اس تلاطم میں اس سورة کا دریا اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ “ ” یہ سورة اپنی امواج کے اس تلاطم کے ساتھ اور اپنی لہروں کے باہم ٹکراؤ کے روشنی میں اس قدر خوبصورت نظر آتی ہے کہ انسان مسحور ہوجاتا ہے ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مضامین اور مفہومات کو نہایت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے اور اس قدر اثر انگیز طریقے سے مضامین پیش کئے گئے ہیں کہ انسان کے احساسات دنگ رہ جاتے ہیں ۔ نہایت ہی زندہ ‘ متحرک ‘ ہم آہنگ اور موثر صوتی اثرات کے ذریعے نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثر انداز ہو کر اسے مسحور کردیتے ہیں ۔ “ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام خصوصیات جن کا اوپر اس سورة کے بارے میں ذکر ہوا ‘ اس سبق میں پوری طرح عیاں اور نمایاں ہیں ۔ قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ یہ مناظر اسکرین پر یکے بعد دیگرے چل رہے ہیں ۔ چمک دمک کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ۔ جس طرح الفاظ کا سیل رواں سامنے آتا ہے ‘ اسی طرح معانی کا بھی ایک سیلاب ہے جو امڈتا چلا آرہا ہے اور دونوں کے درمیان ہم آہنگی ہے ۔ جس طرح یہ مناظر سب کچھ دکھا رہے ہیں ‘ اسی طرح لفظی تعبیر بھی پورے مفہوم و مراد کو واضح کرتی چلی جاتی ہے اور دونوں اپنے ہدف کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ ان مناظر ومشاہد میں سے ہر منظر کسی نامعلوم خزانہ سے نہایت ہی چمک دمک اور نہایت ہی دل کشی ساتھ لے کر سامنے آتا ہے اور دل دل و دماغ اور قلب ونظر کو روشن کر کے غائب ہوجاتا ہے ۔ پھر الفاظ وعبارات اس طرح ہیں جس طرح ایک قدرتی چشمہ سے پانی پھوٹتا ہے ۔ عبارت یوں چلتی ہے جس طرح کہ گویا کسی منظر پر رننگ کمنٹری ہو رہی ہو اور الفاظ اور ان سے مراد مناظر دونوں نہایت تابانی کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلتے ہیں ۔ یہ مناظر اور یہ تصورات اور یہ الفاظ ونعرے یوں چلتے ہیں جس طرح لہریں اور موجیں یکے بعد دیگرے ایک توازن کے ساتھ چلتی ہیں ۔ انسان کی نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں اور یوں کہ جس طرح چندھیا جائیں ‘ خیالات و تصورات کی اہل لہر ابھی ساحل کے ساتھ ٹکرا کر ختم نہیں ہوتی کہ تصورات کی اور بہت سی لہریں اٹھتی ہیں ۔ اس سبق یا اس لہر میں وہ تمام خواص نمایاں ہیں جن کا ہم نے سورة کے آغاز میں ذکر کیا ہے ۔ خوبصورتی اس لہر کی نمایاں خصوصیت ہے ‘ اس قدر خوبصورتی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ اس سبق میں جو مناظر ہیں وہ بالکل صاف ہیں اور خوبصورتی کے اعتبار سے منتخب ہیں ۔ الفاظ ‘ عبارتیں اپنے مفہوم ومدلول کے اعتبار سے اور اپنے لفظی حسن کے اعتبار سے ار اپنے تصورات اور حقائق کے اعتبار سے نہایت ہی اعلی میعار کی اور حسین و جمیل ہیں ۔ غرض مفہوم اور حقائق موتیوں کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔ اس سبق کی خوبصورتی اور تروتازہ حسن کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ خود اللہ جل شانہ نے ایک منظر کے حسن و خوبی کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ باغات کے اندر پھلوں کی تازگی اور حسن کے سلسلے میں دعوت نظارہ دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے ۔ (آیت) ” انظُرُواْ إِلِی ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ (6 : 99) ” یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو “۔ یہ براہ راست دعوت نظارہ ہے کہ اس قدرتی جمال کو دیکھو ‘ اس پر غور کرو اور لطف اندوز ہوتے رہو۔ اب ایک ایسا مقام آتا ہے کہ یہ خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔ ۔ نہایت ہی تعجب میں پڑجاتا ہے اور اس کے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں ۔ اب یہ بہار اس کائنات کے دائرے سے نکل کر ماوراء کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے ۔ اور اب یہ بہار ‘ تروتازگی اور خوبصورت بیان بدیع السماوات والارض ‘ ذات کبریا کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ ذات کبریا کے بارے میں یہاں جو بات کی جاتی ہے بتائی جاتی ہے اس میں معیار فصاحت وبلاغت بدستور ہے ۔ ذرا قرآن ہی کے الفاظ میں پڑھئے ۔ (آیت) ” لاَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (103) ” نگائیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے ۔ وہ نہایت ہی باریک بین اور باخبر ہے ۔ “ اب میں ایک دوسرے پہلو کو لیتا ہوں ۔ اس سبق میں ہم اس کائنات کی کھلی کتاب کو پڑھتے ہیں ۔ اس کتاب کو غافل لوگ ہر لحظہ دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں مگر وہ کتاب کائنات کے عجائبات اور معجزات کو گہری نظر سے نہیں دیکھتے ۔ “ جو صاف اندھے ہیں انہیں تو کچھ نہیں ہی نہیں آتا ۔ وہ کیا دیکھیں کہ اس میں کیا کیا اعجوبے ہیں لیکن قرآن کریم کی یہ آیات ہمیں ایک ایک اعجوبے کے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں ۔ یوں نظر آتا ہے کہ شاید اس سے پہلے ہم اس دنیا میں نہ تھے اور اب اس میں اتر رہے ہیں ۔ یہ آیات ہمیں اس کتاب کے عجیب و غریب نشانات کے سامنے کھڑا کردیتی ہیں ۔ اور ہمارے تجسس کو ان عجائبات کی طرف ابھارتی ہیں جن پر سے دنیا کے غافل انسان یونہی گزر جاتے ہیں ۔ اب ہم ایک ایسے خارق العادت اعجوبے کے سامنے ہیں جو رات کے ہر لحظہ میں رونما ہوتا رہتا ہے ‘ یہ کہ اس دنیا میں مردہ چیزوں سے زندہ اشیاء رات اور دن نمودار ہو رہی ہیں ۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ مردہ زمین سے یہ روئیدگی کس طرح نمودار ہو رہی ہے ؟ ہم اس کرہ ارض پر زندگی کے مختلف نمونے پاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور تعبیر نہیں ہے کہ اللہ کے حکم اور فیصلے کے مطابق سب کچھ ہو رہا ہے ۔ انسان نہ تو یہ عمل کرسکتا ہے کہ کسی مردہ چیز سے زندہ چیز کو نکالے اور نہ ہی وہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔ اب ہم زمین و آسمان کے نظام کی گردش بلکہ گردشوں کے سامنے ہیں ۔ یہ گردشیں بھی عجیب ہیں ۔ زمین کی گردش جو رات دن ہو رہی ہے ‘ نہایت ہی تعجب خیز ہے اور ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے ۔ اب ہم خود تخلیقی انسان کے سامنے ہیں ایک ہی نفس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اپنی نسل کشی کے نظام سے بڑھتا جاتا ہے ۔ اب ہم نباتات اگائی کے نظام کے سامنے ہیں ۔ نباتات کو زندگی مل رہی ہے ۔ بارشیں ہو رہی ہیں ‘ پھل پھول اگ رہے ہیں ‘ کیا ہی خوبصورت ہیں اور کیا ہی خوش ذائقہ ہیں ۔ ان میں قسم قسم کے حیوانات ہیں اور عجیب و غریب مناظر ہیں ‘ اگر ہم زندہ احساس اور روشن آنکھوں سے انہیں دیکھیں تو ہر ایک میں سامان عبرت ہے ۔ اب ہم اس پوری کائنات کے سامنے ہیں ۔ اب یہ ہمیں اس طرح نظر آرہی ہے گویا ہم اسے پہلی بار دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک زندی کائنات ہے ۔ وہ ہم سے پیار کرتی ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں ۔ یہ رواں دواں ہے ‘ اس کی رگ رگ میں حرکت اور دوڑ ہے ۔ یہ ہمارے احساس و شعور کا دامن پکڑتی ہے اور اپنے خالق کی بات کرنا چاہتی ہے وہ اپنی انفرادی اور انوکھی حیثیت میں اللہ کی قدرت اور اس کی ذات کے لئے دلیل وبرہان ہے ۔ یہاں آکر اچانک بات کا رخ شرک باللہ کی طرف پھرجاتا ہے اور شرک اور مشرکین کی مذمت کی جاتی ہے ۔ یہ اس کائنات کی فطرت اور اس کے وجود کے مزاج ہی کے خلاف تصور ہے ‘ یہ فطرت کائنات کے خلاف ہے ۔ جو شخص دلائل و شواہد کی اس بھری کائنات کا مطالعہ کرتا ہے اس کے آئینہ فطرت پر یہ ایک بدنما داغ نظر آتا ہے ۔ شرک اور اللہ کے ساتھ ! اس کائنات کا گہرا مطالعہ اسے یکسر ردکر دیتا ہے اور یوں غور کرنے والے کا دل گہرے ایمان سے بھر جاتا ہے ۔ قرآن کریم جب شخصیت انسانی کو ذات باری کے بارے میں خطاب کرتا ہے تو اس کا انداز بحث یہ ہوتا ہے ۔ دیکھو وہ تمہارا اور پوری کائنات کا خالق ہے اس نے اس کرہ ارض پر سب سے پہلے زندگی اور روئیدگی پیدا کی ۔ پھر اس نے تمام جانداروں اور نباتات کی زندگی میں نشوونما کا انتظام کیا اور ان کے اپنی پوری کائنات کی قوتوں کو ممدومعاون بنایا ۔ اللہ وہ ذات ہے کہ عالم اسباب اور اس کائنات کے اندر ہونے والے تمام تغیرات اور تصرفات صرف اس کی مرضی اور ادارے سے ہوتے ہیں ۔ اس دنیا کے تمام ظاہری اسباب کو اللہ ہی نے تاثیر بخشی ہوئی ہے ۔ لہذا تمہیں چاہئے کہ تم صرف اللہ کی بندگی کرو ۔ کیا تم اشارات فطرت کو نہیں پاتے ؟ کیا اس دنیا کی رنگا رنگ بو قلمونیاں انسان کے لئے برہان ناطق نہیں ہیں کی وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرے ‘ صرف اللہ ہی کے سامنے مراسم عبودیت بجا لائے اور اسی کے سامنے عاجزی اور خشوع کرے اور اس کی اطاعت کرے ؟ اس کائنات کی کھلی کتاب کو برائے مطالعہ پیش کرکے قرآن کریم یہ دعوت دیتا ہے کہ چونکہ تخلیق اس کی ہے رزق اس کا ہے ‘ کفالت اس کی ہے تو سلطنت اور بندگی بھی اس کی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدائی اور خدائی کے حقوق میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ اسی کے لئے مراسم عبودیت بجا لائیں ‘ وہی حاکم ہو اور زندگی کے تمام امور میں وہی متصرف ہو ‘ اور اس کے سوا جو بھی ان حقوق وخصائص کا مدعی ہو اس کا انکار کیا جائے ۔ اس سبق میں آتا ہے ۔ (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ فَاعْبُدُوہُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ وَکِیْلٌ(102) ” یہ سب کام تمہارے رب کے ہیں ۔ اس کے سوا کوئی حکم نہیں ہے ۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے ‘ پس اس کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کانگہبان ہے ۔ “ یہ ہے قرآن کریم کا منہاج استدلال کہ چونکہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اس کے لئے بندگی اسی کی چاہئے وہی اس کا مستحق ہے ۔ اس سبق کے آخر میں ‘ کتاب کائنات کا کھولنے اور اس کے اندر سے خوارق ومعجزات دکھانے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات کے ہوتے ہوئے بھی جو لوگ مزید معجزات اور خوارق عادت امور کے طالب ہیں وہ نہایت ہی کم عقل ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ اب بھی منکر ہیں وہ دلائل ومعجزات کی کمی کی وجہ سے منکر نہیں ہیں بلکہ انکی چشم بصیرت میں بینائی نہیں ہے ورنہ اس کائنات میں تو ہر طرف وجود باری اور خصائص الوہیت پر دلائل ومعجزات کے انبار لگے ہوئے ہیں اور دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔
Top