Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ
: اور
لَقَدْ اَرْسَلْنَآ
: تحقیق ہم نے بھیجے (رسول)
اِلٰٓى
: طرف
اُمَمٍ
: امتیں
مِّنْ قَبْلِكَ
: تم سے پہلے
فَاَخَذْنٰهُمْ
: پس ہم نے انہیں پکڑا
بِالْبَاْسَآءِ
: سختی میں
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَضَرَّعُوْنَ
: تاکہ وہ عاجزی کریں
تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب وآلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ جھک جائیں ۔
(آیت) ” نمبر 42 تا 45۔ یہ لہر عذاب الہی کی ایک جھلکی ہے اور انسان کی تاریخ کی واقعی صورت حال کی طرف اشارہ ہے لیکن اس میں کسی واقعہ کے بجائے یہ بتایا گیا ہے کہ لوگ عذاب الہی کی زد میں کس طرح آتے ہیں ۔ اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ عذاب سے پہلے اللہ تعالیٰ کس طرح انہیں مہلت کے بعد مہلت دیتا چلا جاتا ہے اور کس طرح ان کی تنبیہ کے بعد تنبیہ کی جاتی رہتی ہے ۔ لیکن وہ بھلاتے ہی چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات شدید سے شدید عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے نہیں جگا سکتا ۔ اور جب ان پر انعامات واکرامات کی بارش کردی جاتی ہے تو وہ شکر ادا نہیں کرتے یا زوال نعمت اور فتنوں سے نہیں ڈرتے ۔ ان کی فطرت اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ اب وہ لاعلاج ہوجاتے ہیں ۔ ان کی زندگی میں اس قدر عمل بگاڑ رونما ہوجاتا ہے کہ اب اصلاح احوال ممکن ہی نہیں رہتی ۔ ایسے لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور ان پر اللہ کا ایسا عذاب آتا ہے کہ پھر ان میں کا کوئی متنفس زندہ نہیں رہتا ۔ (آیت) ” وَلَقَدْ أَرْسَلنَا إِلَی أُمَمٍ مِّن قَبْلِکَ فَأَخَذْنَاہُمْ بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُونَ (42) فَلَوْلا إِذْ جَاء ہُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَـکِن قَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (43) ” تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور ان قوموں کو مصائب وآلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ جھک جائیں ۔ پس جب ہماری طرف سے ان پر سختی آئی تو کیوں نہ انہوں نے عاجزی اختیار کی ؟ مگر ان کے دل تو وہ سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلایا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو ۔ انسانی تاریخ میں ایسی اقوام بکثرت موجود ہیں اور ان میں سے بیشمار قرآن کریم نے انسانوں کو گنوا کر انکے حالات بتائے ہیں ۔ قرآن نے یہ حالات اس وقت بتائے جب انسانی تاریخ ابھی مدون ہی نہ ہوئی تھی ۔ تاریخ کی جن کتابوں کو انسانوں نے مرتب کیا ہے وہ تو بہت ہی قریبی ادوار سے متعلق ہیں وہ حدیث السن اور نومولود ہے ۔ ہماری تاریخ انسان کی طویل ترین تاریخ کو سمجھنے سمجھانے کی اہل نہیں ہے کیونکہ کرہ ارض پر انسان کے بسنے کی تاریخ بہت ہی طویل ہے اور انسان نے جو تاریخ مرتب کی ہے یہ تو جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ وہ ہے بھی بہت ہی مختصر اور اس کے اندر تاریخ کے اصل عوام اور اسباب کا احاطہ ہی نہیں کیا سکا ۔ ان تاریخی عوامل میں سے بعض تو نفس انسانی کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہیں اور بعض ایسے اسباب ہیں جو پردہ غیب میں مستور ہیں اور ان میں سے نہایت ہی قلیل حصہ انسان پر ظاہر ہوا ہے ۔ پھر جو بعض انسانوں پر ظاہر بھی ہوئے ہیں انسانوں نے ان کے جمع وتدوین میں غلطی کی ۔ ٹھیک طور پر واقعات جمع کر بھی لئے گئے تو ان کے سمجھنے میں غلطیاں کی گئیں اور ان میں سے سچے اور جھوٹے واقعات واسباب کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جاسکا ۔ صرف چند واقعات کا درست تجزیہ ہوسکا ۔ لہذا کسی انسان کی جانب سے یہ دعوی کرنا کہ اس نے پوری انسانی تاریخ کے واقعات واسباب کا احاطہ کرلیا ہے اور یہ کہ وہ ان واقعات کی سائنٹیفک تفسیر کرسکتا ہے اور یہ کہ وہ تاریخ کے مستقبل کے رخ کو بھی صحیح طرح متعین کرسکتا اور نتائج اخذ کرسکتا ہے تو یہ بہت ہی بڑا جھوٹ ہے جو کوئی بول سکتا ہے ۔ ایک نہایت ہی تعجب انگیز بات یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے جھوٹ کا دعوی کرتے نہیں شرماتے ۔ اگر ایسے لوگ یہ کہتے کہ مستقبل میں یہ واقعات ظاہر ہونے کی توقع ہے تو ان کی بات معقول ہوتی لیکن اگر کسی جھوٹے شخص کو ایسے افراد مل رہے ہوں جو اس کے جھوٹ کی تصدیق کے لئے ہر وقت تیار ہوں تو اسے جھوٹ سے باز رہنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ بہرحال سچائی بیان کرتا ہے اور صادق القول ہے ۔ اللہ جانتا ہے کہ دنیا میں کیا واقعات ہو گزرے ہیں ۔ اور اپنی مہربانی اور فضل کی وجہ سے وہ بندوں کے سامنے ان حقائق کو بیان کرتا ہے ۔ کلام الہی اللہ کی تقدیر ‘ اس کے فیصلوں اور اس کائنات میں اس کی سنت پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ لوگ احتیاط کریں اور واقعات سے عبرت حاصل کریں ۔ وہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ ان واقعات کے پیچھے کی اسباب وعوام کارفرما تھے اور ظاہری اسباب کیا نظر آتے تھے ۔ تاکہ وہ ان تاریخی واقعات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور ان کی تشریح تجزیہ اور تحلیل کرسکیں ۔ پھر آئندہ تاریخ پر پڑنے والے اثرات اور نکلنے والے نتائم کو سمجھ سکیں اور ان کا استدلال سنت الہیہ کی روشنی میں ہو جس کے اصول یہاں اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کئے ہیں ۔ آیات زیر بحث میں ایسے واقعات کی صورت گری کی گئی ہے جو مختلف اقوام میں بار بار پیش آتے رہے ہیں ۔ ان اقوام کے پاس اللہ کی طرف سے بھیجے گئے رسول آئے ‘ لیکن انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں مشکلات اور تکالیف کے ذریعے ابتلاء میں ڈالا گیا ۔ یہ مشکلات مالی بھی تھیں اور جانی بھی ۔ ان کو مشکل حالات اور مشکل مسائل میں مبتلا کردیا گیا لیکن یہ مشکلات ابھی عذاب الہی کی حد تک نہ پہنچی تھیں ‘ جن کا ذکر اس سے قبل کی آیات میں آگیا ہے ۔ یعنی یہ مشکلات تباہی اور بربادی کی حد تک نہ تھیں ۔ قرآن کریم نے ان اقوام کے بعض نمونے پیش کئے ہیں اور ان مشکلات اور مصائب کا ذکر بھی کیا ہے جو ان پر ڈالے گئے ان میں سے فرعون اور اس کے ساتھیوں کا قصہ بہت ہی مشہور ہے ۔ (آیت) ” وَلَقَدْ أَخَذْنَا آلَ فِرْعَونَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّن الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ (130) فَإِذَا جَاء تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُواْ لَنَا ہَـذِہِ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُواْ بِمُوسَی وَمَن مَّعَہُ أَلا إِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِندَ اللّہُ وَلَـکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (131) وَقَالُواْ مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِن آیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ (132) فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آیَاتٍ مُّفَصَّلاَتٍ فَاسْتَکْبَرُواْ وَکَانُواْ قَوْماً مُّجْرِمِیْنَ (133) ” ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آجائے ۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق ہیں اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لئے فال بد ٹھہراتے ‘ حالانکہ درحقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی ‘ مگر ان میں سے اکثر بےعلم تھے ۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا :” تو ہمیں مسحور کرنے کے لئے خواہ کوئی نشانی لے آئے ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں ۔ “ آخرکار ہم نے ان پر طوفان بھیجا ‘ ٹڈی دل چھوڑے ‘ سرسریاں پھیلائیں ‘ مینڈک نکالے اور خون برسایا ۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں مگر وہ سرکشی کئے چلے گئے “۔ یہ ہے ایک نمونہ ان واقعات کا ‘ جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو مشکلات ومصائب سے محض اس لئے دو چار کیا کہ وہ ذرا ہوش میں آجائیں ‘ وہ ذرا اپنے ضمیر میں جھانکیں اور اپنے حالات پر غوروفکر کریں محض اس لئے کہ ان شدائد کی وجہ سے شاید وہ اللہ کے سامنے عاجزی کرنے لگیں اور اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذلیل وجھکنے والے بنا دیں ۔ وہ اپنے کبر و غرور کو چھور کر سنجیدہ رویہ اختیار کریں اور اخلاص سے دعا کریں کہ اللہ ان پر سے یہ مشکلات دور کر دے ۔ ان کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ‘ لیکن ان کے لئے جو مناسب تھا وہ انہوں نے نہ کیا ۔ انہوں نے اللہ کی پناہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور اپنے عناد اور سرکشی کو جاری رکھا اور ان مشکلات کی وجہ سے بھی ان کی سوچ اس طرف نہ لوٹی ۔ ان کی چشم بصیرت وا نہ ہوئی اور ان کے دل نرم نہ ہوئے ۔ شیطان ان کے پیچھے خوب لگا ہوا تھا وہ ان کے لئے ان کی ضلالت اور سرکشی کو مزین کر رہا تھا ۔ ” مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ جو کچھ تم کر رہے ہو خوب کر رہے ہو ۔ “ وہ دل جو شدائد مصائب کے باوجود رجوع الی اللہ اختیار نہیں کرتا وہ دل میں اس طرح خشک ہوگیا ہے جس طرح پتھر خشک ہوتا ہے اور اس کے اندر رس کا ایک قطرہ بھی نہیں ہوتا جسے شدائد اور مصائب نچوڑ سکیں ۔ یہ دل مر گیا ہے اور اس پر جس قدر دباؤ آئے اسے احساس نہ ہوگا ۔ اس دل کے اندر سے قبولیت حق کا تمام مواد خارج ہوچکا ہے ۔ وہ پوری طرح مرچکا ہے اس لئے اس کو احساس دلانے کے لئے چاہے جس قدر چٹکیاں بھریں اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ حالانکہ زندہ دل ایسے جھٹکوں کے نتیجے میں بیدار ہوجاتے ہیں اور اللہ کی جانب سے اس قسم کے مصائب آتے ہی حق کو قبول کرلیتے ہیں ۔ وہ جاگ اٹھتے ہیں اور ان کے دریچے کھل جاتے ہیں اور یوں ان کو رجوع الی اللہ نصیب ہوجاتا ہے ۔ وہ اس رحمت اور رافت اور جود وکرم کے مستحق ہوجاتے ہیں جسے اللہ نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے ۔ جو شخص مر چکا ہو یہ مشکلات اس کے لئے محاسبہ اور سزا ہوتے ہیں اور ان سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ الٹا اس شخص کے تمام عذرات ختم ہوجاتے ہیں اور تمام دلائل بیکار جاتے ہیں ۔ وہ انجام بد اور شقاوت کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ لہذا اللہ کا عذاب اس کے لئے طے ہوجاتا ہے ۔ یہ امم سابقہ جن کی خبریں اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے ہیں اور آپ کے واسطے سے ہمیں پہنچاتے ہیں ‘ انہوں نے ان مصائب وشدائد سے کوئی عبرت نہ پکڑی ۔ انہوں نے رجوع الی اللہ اختیار نہ کیا اور نہ اللہ کے سامنے بدست بدعا ہوئے ۔ شیطان نے ان کے لئے روگردانی اور عناد کو مزین کردیا ہے وہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ ایسی اقوام کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتے ہیں اور انہیں آزاد چھوڑے دیتے ہیں اور وہ حدوں سے گزر جاتے ہیں ۔ (آیت) ” فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (45) ” پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی ‘ بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے ‘ یہاں تک کہ جب ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں وہ خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ ہو ہر چیز سے مایوس تھے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا ، اور تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی) “۔ خوشحالی بھی دراصل ابتلاء ہے جس طرح مصائب اور شدائد ابتلاء ہیں لیکن خوشحالی غربت اور بدحالی کے مقابلے میں شدید ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح بدحالی سے آزماتا ہے اسی طرح خوشحالی سے بھی آزماتا ہے ۔ جب کسی مومن پر بدحالی آجائے اور وہ آزمائش میں مبتلا ہوجائے تو وہ صبر کرتا ہے اور اگر مومن پر خوشحالی آجائے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اس لئے وہ ہر حالت میں اچھا رہتا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے : ” مومن بھی عجیب ہے کہ اس کے تمام حالات خیر ہی خیر ہوتے ہیں اور یہ خصوصیت صرف مومن کو حاصل ہے ۔ اگر اسے خوشحالی نصیب ہو اور وہ اس کا شکر ادا کرے تو یہ اس کے لئے خیر ہے اور اگر وہ بدحال ہو اور صبر کرے تو بھی اس کے لئے خیر ہے ۔ “ (روایت مسلم) رہیں وہ اقوام جنہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور جن کی کہانیاں اللہ نے یہاں بیان کیں تو انہوں نے اس ہدایت کو بھلا دیا جو انہیں دی گئی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ اب وہ ہلاکت سے دو چار ہونے ہی والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو شدائد ومصائب میں ڈالا تو بھی انہیں ہوش نہ آیا ۔ اور ان میں سے بعض پر انعامات کے دروازے کھول دیئے اور ہر چیز کی فراوانی کردی اور ان کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ سرکشی میں خوب آگے بڑھ جائیں ۔ یہاں قرآن کا انداز تعبیر بھی نہایت ہی خوبصورت ہے ۔ (آیت) ” فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ (6 : 44) ” ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے “ اس کے اندر ہر قسم کی بھلائیاں ہر قسم کے ضروریات ‘ سازوسامان اور عزت وشان کی بڑی فروانی کے ساتھ شامل ہیں ۔ یعنی ہر چیز سیلاب کی طرح بہتات ہیں ‘ بغیر رکاوٹ اور پابندی کے ان کے لئے عام کردی نعمت انہیں بسہولت ارزاں ملتی رہی بغیر کسی محنت ومشقت کے ۔ فی الحقیقت یہ ایک نہایت ہی موثر منظر ہے ۔ قرآن کریم کے فنی انداز تعبیر کا یہ ایک نادر نمونہ ہے ۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی میں باب طریقۃ القرآن) (آیت) ” حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ (6 : 44۔ 45) ‘ یہاں تک کہ جب ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں وہ خوب مگن ہوگئے “۔ ہر قسم کی بھلائیوں اور سازوسامان کی بہتات میں وہ غرق ہوگئے اور عیش و عشرت میں مگن ہوگئے ۔ انہوں نے ایسے حالات میں نہ خدا کو یاد کیا اور نہ اس کا شکر ادا کیا اور ان کے دلوں سے منعم حقیقی کا تصور محو ہوگیا اور خشیت الہی سے انکے دل خالی ہوگئے ۔ وہ عیش کوشی اور کام ودہن کی لذت کوشی میں مکمل طور پر گھر گئے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر ان چیزوں کے حوالے کردیا ۔ ان کی زندگی میں اعلی اقدام کی کوئی اہمیت نہ رہی اور یہ لہو ولعب اور عیش طرب میں غرق لوگوں کی عام عادت ہوتی ہے کہ ان میں سے اعلی قدریں غائب ہوجاتی ہیں ۔ اس کے بعد ان کی سوسائٹی سے نظم اور اچھی عادات غائب ہوجاتی ہیں اور وہ اخلاقی اعتبار سے مکمل طور پر تباہ جاتے ہیں ۔ یوں ان کے یہ حالات اس پر منتج ہوتے ہیں کہ ان کی پوری زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور اب یہ تباہی قدرتی ہوتی ہے ۔ یہ عین سنت الہیہ ہے ۔ (آیت) ” أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ (44) ” تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ ہو ہر چیز سے مایوس تھے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا “۔ کسی قوم کا دابر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سب سے پیچھے آتا ہے یعنی ان کا آخری آدمی ۔ جب آخری آدمی ہی کٹ گیا تو اس سے پہلے کے بدرجہ اولی کٹ گئے ۔ (آیت) ” ِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ “۔ (6 : 45) ، سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے شرک کیا اس لئے قرآن کریم بیشتر مقامات پر مشرکین کو ظال میں سے تعبیر کرتا ہے اور شرک پر ظلم کے لفظ کا اطلاق کرتا ہے ۔ (آیت) ” وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (45) اور تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے “۔ یہ تبصرہ ہے اس بات پر کہ اللہ نے مشرکین کی جڑ کاٹ دی اور یوں انہیں مہلت دیتے دیتے اچانک پکڑ لیا ۔ سوا یہ ہے کہ اللہ کی حمد تو اللہ کے انعام واکرام پر ہوتی ہے ؟ ہاں ‘ لیکن اللہ کی زمین کا تو ظالموں سے پاک ہونا بھی ایک گونہ نعمت ہے ۔ نیز اللہ کی حمد اس کی رحمت پر ہوتی ہے تو زمین کو پاک کردینا بھی سب سے بڑی رحمت ہے ۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) ‘ ہود (علیہ السلام) صالح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی اقوام کو پکڑا ۔ فرعون اور اہل یونان اور اہل روما کر پکڑا اور اسی سنت کے مطابق اس نے دوسری اقوام کو بھی عروج کے بعد پکڑا ۔ پہلے ان کی تہذیب و تمدن کو خوب ترقی دی اور پھر انہیں تباہ وبرباد کردیا ۔ یہ بہرحال اللہ کی تقدیروں کے راز ہیں ۔ لیکن سنت الہیہ عروج وزوال کی اس داستان میں ظاہر ہے اور اللہ اسی کی داستاں یہاں اس اصولی انداز میں ثبت فرماتے ہیں ۔ ان اقوام کی اپنی اپنی تہذبییں تھیں اور اپنے وقت میں ان کو بڑا عروج تھا ۔ ان کو بڑی فراوانی اور دولتمندی حاصل تھی ۔ بعض پہلوؤں سے وہ آج کے ترقی یافتہ دور سے بھی زیادہ خوشحال تھے انہوں نے شان و شوکت اور سازو سامان اور فراوانی حاصل تھی اور وہ اس دھوکے میں تھے کہ وہ یوں ہی رہیں گے ۔ یہ اقوام ان دوسری اقوام کو بھی دھوکے دے رہی تھیں جو خوشحالی اور ترقی کے بارے میں سنت الہیہ سے واقف نہ تھیں ۔ یہ اقوام اس بات کو نہ سمجھ سکیں کہ اس کائنات میں سنت الہیہ کام کرتی ہے ۔ وہ یہ بات بھی نہ سمجھ سکیں کہ انہیں ڈھیل دی جاری ہے ‘ اس سنت کی پالیسی کے عین مطابق ۔ جو لوگ سنت الہیہ کے آسمان میں گردش کر رہے تھے اللہ کی نعمتوں کی بارش نے ان کی آنکھیں چندھیا دی تھیں ۔ شوکت وقوت نے ان کے اندر بہت ہی زیادہ اعتماد پیدا کردیا تھا اور ان خوشحال اقوام کو جو مہلت اور ڈھیل دی گئی تھی اس کی وجہ سے وہ دھوکے میں پڑگئے تھے ۔ یہ لوگ نہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور نہ انہیں اللہ کی معرفت حاصل تھی ۔ یہ لوگ اللہ کی حاکمیت کے خلاف باغی ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے حق حاکمیت کا دعوی خود کیا تھا حالانکہ حاکمیت الوہیت کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے ۔ یہ لوگ زمین میں فساد پھیلاتے تھے ‘ لوگوں پر مظالم ڈھاتے تھے اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے مقابلے میں حاکمیت کا دعوی خود کرلیا تھا ۔ جب میں امریکہ میں تھا تو میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا وہ اس آیت کا مصداق تھا ۔ (آیت) ” فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ “ (6 : 44) ” پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی ‘ بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے ‘ ‘۔ یہ منظر جس کی تصویر کشی اس آیت میں کی گئی ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان لوگوں پر رزق کی فراوانی تھی اور ہر جانب سے بلاحساب سہولیات کا سیلاب تھا جو امڈتا چلا آرہا تھا ۔ یہ منظر امریکہ میں پوری طرح عروج پر تھا ۔ میں نے دیکھا کہ یہ قوم اس خوشحالی پر بےحد مغرور بھی ہے اور ان کے شعور میں یہ بات پوری طرح بیٹھی ہوئی نظر آتی تھی کہ سہولتوں کی یہ بہتات صرف سفید رنگ کے لوگوں کے لئے مخصوص ہے ۔ رنگ دار لوگوں کے ساتھ انکا طرز عمل نہایت متکبرانہ اور وحشیانہ ہوتا ہے ۔ امریکی پورے کرہ ارض کے لوگوں کو اس قدر کم وقعت سمجھتے ہیں جس کے مقابلے میں یہودیوں کا نازی ازم بھی کچھ وقعت نہیں رکھتا حالانکہ یہودی اس کے بارے میں بہت مشہور ہیں اور قومی اور نسلی افتخار ان کا طرہ امتیاز ہے ۔ سفید رنگ امریکیوں کا رویہ رنگ دار امریکیوں کی نسبت یہودیوں سے بھی زیادہ برا اور زیادہ سخت ہے ۔ یہ سختی خصوصا اور زیادہ ہوجاتی ہے جب رنگ دار لوگ مسلمان ہوں۔ امریکہ میں ‘ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور یہ توقع کرتا رہا کہ سنت الہیہ ایک دن ضرور اپنا کام کرے گی ۔ مجھے نظر آرہا ہے کہ سنت الہیہ امریکی سوسائٹی کی طرف دھیمی رفتار سے بڑی رھی ہی ہے ۔ (آیت) ’ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ (44) فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (45) ” یہاں تک کہ جب ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں وہ خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ ہو ہر چیز سے مایوس تھے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا ، اور تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے “۔ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم پر یہ رحم فرمایا کہ اب ان کو مسخ نہ کیا جائے گا اور نہ انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا ۔ لیکن اللہ کے عذابوں کی کئی اقسام اب بھی آتی رہتی ہیں خصوصا ان اقوام پر جنہیں خوشحالی اور فراوانی دی گئی ہے ۔ ان پر انواع و اقسام کے عذاب آئے دن آتے رہتے ہیں ‘ اس کے باوجود کہ انکے ہاں ضروریات زندگی کی پیداوار حد سے زیادہ ہوچکی ہے اور انہیں رزق اور سہولیات کی بہتات سے نوازا گیا ہے۔ نفسیاتی عذاب ‘ روحانی بےچینی ‘ جنسی بےراہ روی اور اخلاقی بگاڑ جیسے عذابوں نے انہیں تباہ کردیا ہے اور ان کی اس خوشحالی اور مادی پیداوار اور سازوسامان میں بھی ان کے لئے کوئی ذریعہ اطمینان نہیں ہے اور قریب ہے کہ ان کی پوری زندگی بدبختی ‘ قلق و پریشانی میں ڈوب جائے ۔ (دیکھئے میری کتاب اسلام اور مشکلات تہذیب کا باب خبط و اضطراب) اس خوشحالی کے باوجود ان لوگوں کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے سیاسی راز چند ٹکوں میں بیچ دیئے جاتے ہیں اور پوری قوم کے خلاف جرم خیانت کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور حاصل کیا ہوتا ہے چند لمحوں کی عیاشی ‘ جنسی لذت اور چند ٹکے اور یہ ایسی علامات ہیں کہ مستقبل قریب میں ایسی اقوام کے لئے شدید خطرے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اقوام مغرب کی تباہی کے یہ بالکل ابتدائی آثار ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے بالکل سچ فرمایا :” جب تم دیکھو کہ جب اللہ کسی کو اس کی بدکرداری کے باوجود سب کچھ دے جو وہ چاہتا ہو ‘ تو سمجھ لو کہ یہ اسے ڈھیل دی جارہی ہے ۔ “ اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی “ یہاں تک کہ جب ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں وہ خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ ہو ہر چیز سے مایوس ہوگئے ۔ اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا ، اور تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم) لیکن یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اہل باطل کو ہلاک کرنے کا اصول اور سنت الہیہ کو اسکیم میں صرف یہ نہیں ہوتا کہ اہل باطل کو نیست ونابود کردیا جائے بلکہ یہ امر بھی اس کا حصہ ہوتا ہے کہ اہل حق قائم اور غالب کردیا جائے اور یہ اہل حق ایک امت کی شکل میں نمودار ہوں ۔ اصل اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سچائی کے ذریعے اور اہل حق کے ذریعے باطل پر وار کرتا ہے اور باطل کا سر پھوڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ باطل نابود ہوجاتا ہے لہذا اہل حق کو ڈھیلے ہو کر بیٹھ نہ جانا چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف سنت الہیہ کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ سنت الہیہ بھی اسلامی جدوجہد کے نتیجے میں روبعمل ہوتی ہے ۔ اگر اہل حق بےعمل ہو کر بیٹھ جائیں تو وہ اہل حق نہ رہیں گے اور وہ غلبہ اور باطل کا سر پھوڑنے کے قابل ہی نہ رہیں گے ۔ خصوصا جبکہ وہ سست اور بےعمل ہو کر بیٹھ جائیں ۔ حق تو ایسی امت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے جو کرہ ارض پر اللہ کی حاکمیت کے مقام کے لئے جدوجہد کر رہی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے مقابلے میں دفاع کررہی ہوتی ہے جنہوں نے اللہ کے مقابلے میں اپنی حاکمیت قائم کی ہوئی ہوتی ہے جبکہ حاکمیت الہیہ خصائص الوہیت میں سے ایک خاصہ ہے ۔ یہ ہے اصلی اور بنیادی سچائی ۔ (آیت) ” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “۔ (اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسروں کے ذریعے نہ روکتا تو زمین میں فساد برپا ہوجاتا) اب سیاق کلام مشرکین کو عذاب الہی کے سامنے لاکر کھڑا کردیتا ہے اور عذاب کی یہ مجوزہ شکل ان کی ذات اور ان کے نفوس کے ساتھ متعلق ہے ۔ اس کا تعلق ان کی قوت باصرہ ‘ قوت سامعہ اور قوت ادراک کے ساتھ ہے ۔ تجویز یہ ہے کہ اگر اللہ ان قوتوں کو سلب کرے تو کون ہے جو تمہیں یہ قوتیں لوٹا کر دے دے ‘ کوئی نہیں ہے ۔ اب سوچنے کے بعد وہ بھی یقین کرلیتے ہیں کہ کوئی نہ ہوگا جو انہیں ‘ قوت سماعت ‘ قوت باصرہ اور قوت ادراک دے سکے اگر اللہ ان قوتوں کو چھین لے ۔
Top