Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ
: وہ
الَّذِيْ
: جس نے
خَلَقَكُمْ
: تمہیں پیدا کیا
مِّنْ
: سے
طِيْنٍ
: مٹی
ثُمَّ
: پھر
قَضٰٓى
: مقرر کیا
اَجَلًا
: ایک وقت
وَاَجَلٌ
: اور ایک وقت
مُّسَمًّى
: مقرر
عِنْدَهٗ
: اس کے ہاں
ثُمَّ
: پھر
اَنْتُمْ
: تم
تَمْتَرُوْنَ
: شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی ‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ، مگر تم لوگ ہو جو شک میں پڑے ہوئے ہو ۔
سورة کا آغاز اس مضمون سے ہوتا ہے کہ مشرکین جو اللہ کے ساتھ الہ ٹھہراتے ہیں ان کا موقف نہایت ہی بودا ہے حالانکہ توحید کے دلائل ان کے سامنے ہیں ‘ ہر طرف سے انہیں گھیرے ہوئے ہیں اور وہ اپنے نفوس میں آفاق میں انہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ سورة ہمارا استقبال ایک واضح حقیقت الوہیت کے ساتھ کرتی ہے اور چند جھلکیوں کے ذریعے اس پوری کائنات کے اوراق الٹ دیتی ہے ۔ صرف تین جھلکیوں میں ہم اس پوری کائنات کی تہ تک اتر جاتے ہیں اور اس کی وسعت کو اپنے دائرے میں لے لیتے ہیں ۔ یہ تین جھلکیاں ہیں ۔ ایک جھلکی میں اس پوری کائنات کی تخلیق دکھائی جاتی ہے ‘ دوسری میں پوری انسانیت کی تخلیق دکھائی جاتی ہے اور تیسری مین ان دونوں وجودوں کو ذات باری گھیرے ہوئے ہے ۔ کیا اعجاز ہے یہ ! کلام کی شوکت اور زور کو تو دیکھئے کس قدر جامع اور مانع بات ہے ! اس کائنات کے ہوتے ہوئے جو وحدت خالق پر دال ہے ‘ وجود انسانی کے ہوتے ہوئے جو ایک ذات مدبر پر شاہد عادل ہے اور اس کرہ ارض اور کر ات سماوی اور ان کے اندر اللہ کی جاری وساری حاکمیت کے ہوتے ہوئے مشرکین کے شرک اور کرنے والوں کی شک کی کوئی گنجائش از روئے عقل نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ رویہ نظام کائنات ‘ انسان کے نفس اور اس کی فطرت اور ایک صحت مند انسان کے دل اور اس کی عقل کی روشنی میں تعجب انگیز ہے ۔ اس لمحے میں اس سورة کے دریا میں ایک دوسری لہر نمودار ہوتی ہے ۔ اس میں جھٹلاتے والوں کا موقف پیش کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ایسی نشانیوں اور ایسے دلائل کو جھٹلاتے ہیں جو اس پوری کائنات اور خود انسان کے نفس کے اندر بکھرے پڑے ہیں اور موجود ہیں ۔ ان منکرین کے عجیب و غریب موقف کو پیش کر کے انہیں سخت تنبیہ بھی کی جاتی ہے ۔ ان کے سامنے ان منکرین کے نقشے پیش کئے جاتے ہیں جن کے لاشے انسانی تاریخ کی اسکرین پر بکھرے نظر آتے ہیں ۔ اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی قوت قاہرہ کے مقابلے میں ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہے ۔ تعجب ہے کہ وہ اللہ کی ایسی ہی کسی پکڑ سے بالکل نہیں ڈرتے ۔ وہ حق مبین کو دیکھتے ہوئے بھی ‘ اپنی سرکشی پر قائم ہیں ۔ اس لہر سے ظاہر ہوتا ہے کہ منکرین دلائل کی کمی کی وجہ سے انکار نہیں کرتے بلکہ ان کی نیت درست نہیں ہے اور ان کے دل قبولیت حق کے لئے ابھی نہیں کھلے ‘ ان کے دلوں کے دروازے بند ہیں ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ۔ ” لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں ہے جو ان کے سامنے آئی ہو ‘ اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔ چناچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا ۔ اچھا ‘ جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ چیزیں انہیں پہنچیں گی ۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ اے پیغمبر ﷺ اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہوچکا ہوتا ‘ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی ۔ اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل میں اتارتے اور اس طرح انہیں اسی شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں ۔ اے محمد ﷺ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ‘ مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ ان سے کہو ‘ ذرا زمین پر چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔ اس مقام پر اب ایک تیسری موج اٹھتی ہے اس لہر میں شان الوہیت کا حقیقی تعارف ہے اور اس کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ زمین وآسمانوں اور مافیہا کا مالک ذات باری ہے ۔ رات کے اندھیروں میں اور دن کے اجالوں میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے وہ اسی کا ہے ۔ اور ایسا رازق ہے جو سب کا کھلا رہا ہے اور اسے کسی جانب سے جوابی کھلانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف وہی ولی ہی اور اس کے سوا کوئی اور ولی نہیں ہے بندوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو صرف اس کے حوالے کردیں ۔ یہ وہی تو ہے جو آخرت میں نافرمانوں کو سزا دے گا ۔ وہی ہے جو بندوں کی بھلائی اور مصیبت کا مالک ہے ‘ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اپنے بندوں پر اسے مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ وہ حکیم وخبیر ہے ۔ اس پوری تمہید کے بعد اب یہ لہر اپنی بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ رسول اور اس کی قوم کے درمیان ثبوت واثباث کے بعد مکمل فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ قوم کو ڈرایا جاتا ہے کہ وہ شرک سے دور رہیں اور یہ کہ رسول ان کے شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ یہ اعلان نہایت ہی بلند آہنگی اور نہایت ہی فیصلہ کن انداز میں ہوتا ہے ۔ ذرا قرآن کے الفاظ دیکھیں ‘ ” ان سے پوچھو ‘ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہو سب کچھ اللہ کا ہے ‘ اس نے رحم وکرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔ قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا ‘ یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے ۔ مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کرلیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ رات کے اندھیرے اور دن کے اجالے میں جو کچھ ٹھہرا ہوا ہے ‘ سب اللہ کا ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ کہو ‘ اللہ کو چھوڑ کر کیا میں کسی اور کو اپنا سرپرست بنا لوں ؟ اس خدا کو چھوڑ کر جو زمین وآسمانوں کا خالق ہے اور جو روزی دیتا ہے اور روزی لیتا نہیں ؟ کہو ‘ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں اس کے آگے سرتسلیم خم کروں اور ” تو بہر حال مشرکوں میں شامل نہ ہو “ کہو ‘ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی ۔ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا ہی رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی ہے ۔ اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ‘ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ اپنے بندوں پر کامل اختیار رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔ ان سے پوچھو کس کی گواہی بڑھ کر ہے ؟ کہو میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ۔ یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘ سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا تم لوگ واقعی یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی شریک ہیں ؟ کہو میں تو اس کی شہادت ہر گز نہیں دے سکتا ۔ کہو خدا تو وہی ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔ “ اب ایک چوتھی لہر اٹھتی ہے ۔ اس میں اس نئی کتاب کے بارے میں اہل کتاب کے رویے کا ذکر ہے ‘ جسے مشرکین نے جھٹلایا ہے ۔ اس لہر میں یہ بتایا گیا ہے کہ شرک ایک عظیم ظلم ہے اور یہ تمام مظالم سے بدتر ہے ۔ اس لہر میں مشرکین کے سامنے قیامت میں ان کو پیش آنے والے واقعات کے منظر کو پیش کیا جاتا ہے ۔ اس منظر میں اہل شرک ان لوگوں سے دریافت کرتے ہیں جنہیں وہ شریک ٹھہراتے تھے ‘ یہ لوگ ان کے اس شرک کا صاف صاف انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کی اس افتراء پردازی کے تار وپود بکھر جاتے ہیں ۔ اس لہر میں اہل شرک کے حالات کی تصویر کشی کی جاتی ہے ۔ نظر آتا ہے کہ ان کی قبولیت حق کی فطری قوتیں معطل ہیں ۔ وہ ایمان کے اشارات سے استفادہ کرنے سے قاصر ہیں اس لئے وہ ایمان نہیں لاتے ۔ وہ دلائل نہیں پاتے ‘ اس لئے کہ ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ‘ کیونکہ ان کا دعوی یہ ہے کہ قرآن محض پرانے قصوں پر مشتمل ہے ۔ اس لہر میں ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ہدایت قبول کرنے سے روکتے ہیں اور خود بھی قرآن سے دور بھاگتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔ ان کے حالات کی تصویر کشی یوں کی جاتی ہے ‘ اس وقت کے حالات کی جب وہ آگ پر کھڑے ہوں گے ‘ اس وقت ان کی سوچ کی کیفیت یہ ہوگی کہ کاش ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیا جاتا اور ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور اہل ایمان میں شامل ہوجائیں لیکن اگر وہ لوٹا بھی دیئے جائیں تو پھر معاد اور آخرت کا انکار کردیں ۔ تصور کا ایک دوسرا رخ جب وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہوتے ہیں ‘ ان سے ان کے اس جحود و انکار کے بارے میں بازپرس ہوتی ہے ۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کو شخص طور پر اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ اس لہر کے آخر میں ان کی حسرت اور پشیمانی کا ذکر ہے ۔ اس ملاقات میں ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حیات دنیا محض لہو ولعب تھی اور آخرت ہی زندگی جاوداں ہے ۔ قرآن کریم کے الفاظ دیکھیں ۔ ” جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس بات کو اس طرح غیر مشتبہ طور پر پہچانتے ہیں جیسے ان کو اپنے بیٹوں کے پہچاننے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا ۔ مگر جنہوں نے اپنے آپ کو خود خسارے میں ڈال دیا ہے وہ اسے نہیں مانتے ۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔ جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہوجائیں گے ۔ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں مگر حال یہ ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پردے ڈال رکھے ہیں جن کی وجہ سے وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال دی ہے ۔ وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ‘ اس پر ایمان لا کر نہ دیں گے ۔ حد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس آکر تم سے جھگڑتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ اس امر حق کو قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں حالانکہ دراصل وہ خود اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے کہ جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ درحقیقت یہ بات وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بےنقاب ہو کر ان کے سامنے آچکی ہوگی ‘ ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔ وہ تو ہیں ہی جھوٹے ۔ آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ کاش وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا ” کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ “ یہ کہیں گے ” ہاں ہمارے رب ! یہ حقیقت ہی ہے ۔ “ وہ فرمائے گا ” اچھا تو اپنے انکار کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو “۔۔۔۔ نقصان میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا ۔ جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے ” افسوس ! ہم سے اس معاملے میں کیسی تقصیر ہوئی “۔ اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھو کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں ۔ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے ‘ حقیقت میں آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں ۔ پھر کیا تم لوگ عقل سے کام نہ لوگے ؟ “ اب اس سورة کے دریا میں پانچویں موج اٹھتی ہے ۔ اس میں روئے سخن رسول اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے ۔ آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کے حزن وملال کو دور کیا جاتا ہے ۔ آپ کی پریشانی یہ تھی کہ لوگ آپ کو اور آپ پر نازل ہونے والے کلام کی تکذیب کرتے تھے ۔ آپ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ انبیائے سابقین کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں جن کی تکذیب کی گئی جن کو جھٹلایا گیا اور جن کو اذیت دی گئی ۔ یہا تک کہ اللہ کی نصرت آپہنچی ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی سنت ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوتی لیکن اللہ کی سنت اپنے وقت سے پہلے بھی نہیں آتی ۔ اگر آپ ان کے جحود و انکار پر صبر نہیں کرتے تو آپ خود اپنی طرف سے کوئی معجزہ لے آئیں اور یہ سوچیں کہ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو اللہ ان سب کو ہدایت پر جمع کردیتا ۔ اللہ وحدہ صاحب حکم و تصرف ہے اور اس کی مشیت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ لوگ دعوت حق کو قبول کریں جن کی فطری قوتیں قبولیت حق کی نااہل نہیں ہو چکیں ۔ رہے وہ لوگ جو روحانی طور پر مر چکے ہیں اور ان کے اندر زندگی کی رمق باقی نہیں ہے تو وہ اشارات ہدایت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور سچائی کو قبول نہیں کرتے ۔ ایک دن آنے والا بہرحال ہے اور وہ سب اٹھ کر اس کے سامنے پیش ہوں گے ۔ ” اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ۔ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور ان اذیتوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں انہوں نے صبر کیا ‘ یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی ۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ چکی ہیں ۔ تاہم اگر ان لوگوں کی بےرخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لہذا نادان مت بنو ۔ دعوت حق پر لبیک وہی کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ‘ رہے مردے تو انہیں تو بس اللہ قبروں سے اٹھائے گا اور پھر وہ واپس لائے جائیں گے ۔ “ یوں اس سورة میں کلام کی روانی موج در موج کی صورت میں چلتی ہے اور اس انداز میں جس کے نمونے ہم نے قارئین کے سامنے رکھے ۔ ان نمونوں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس سورة کا مزاج کیسا ہے نیز اس سے سورة کے موضوع کے بارے میں بھی اچھی طرح روشنی حاصل ہوجاتی ہے ۔ اس کی بعض لہریں ان سے بھی اونچی ہیں جن کو ہم نے بطور نمونے درج کیا ۔ بعض مقامات میں ان کا بہاؤ اور ٹکراؤ زیادہ پر جوش اور شدید ہے ۔ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس پوری سورت کا تنقیدی جائزہ اور تعارف ان مختصر الفاظ میں کرسکیں ۔ بہرحال اس کا ایک دوسرا پہلو اگلے پیراگراف میں دیکھیں ۔ اس سے پہلے ہم یہ بات کہہ آئے ہیں کہ یہ سورة اپنے مرکزی موضوع کو نہایت ہی منفرد انداز میں پیش کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ سورة ہر لمحہ میں ‘ ہر موقف میں اور ہر منظر میں آنکھوں میں چکا چوند کرنے والا حسن لیے ہوئے ہے ۔ جب انسان اس کے مناظر ‘ اس کے اثرات ‘ اور اس کے اشارات کو پے درپے دیکھتا ہے تو نفس انسانی انہیں اپنا حصہ بنا لیتا ہے اس کے تمام اثرات کو پلے باندھ لیتا ہے اور ہدایت کی روشنی حاصل کرلیتا ہے ۔ ب ہم قارئین کے سامنے بعض ایسی آیات رکھتے ہیں جن سے یہ حقائق براہ راست قرآنی اسلوب میں نظر آئیں اس لیے کہ تبصرے کے ذریعے ہم جس قدر تعریف بھی کریں وہ براہ راست قرآنی آیات کے مطالعے کے مقابلے میں کم ہی مفید ہوتی ہے ۔ آیات کا براہ راست اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ مقام الوہیت کا بیان ‘ لوگوں کو اپنے سچے رب سے متعارف کرانا اور لوگوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کے دائرے میں لانا اس سورة کا مرکزی موضوع اور محور ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے مختلف مواقع اور مواقف پر قرآن کریم اس موضوع کو کس طرح لیتا ہے ۔ شہادت اور فیصلہ کن موقف کے وقت ‘ جہاں قلب مومن میں مقام الوہیت اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے ‘ جہاں مخالفین کے سامنے صاف صاف یہ موقف واضح کردیا جاتا ہے نہایت ہی قوت اور نہایت ہی یقین کے ساتھ تو قرآن کا اسلوب یہ ہوتا ہے : (آیت) ” نمبر 2 : ” وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی ‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ، مگر تم لوگ ہو جو شک میں پڑے ہوئے ہو ۔ کائنات کے بعد اب اس کائنات کے اندر وجود انسانی کی جھلکی دکھائی جاتی ہے ۔ پہلے اس کائنات اور اس میں پیدا ہونے والے بڑے مظاہر روز وشب کو غور و فکر کے لئے پیش کیا گیا تھا ۔ اس بےجان کائنات کے اندر ایک جاندار اور شاندار مخلوق انسانی کو غور فکر کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ ایک بےجان اور تاریک مٹی کے اندر انقلاب برپا کر کے اللہ نے اسے ایک زندہ اور تروتازہ مخلوق کو پیدا کیا ۔ دونوں جھلکیوں کے اندر دو اور جھلکیاں بھی ہیں ‘ ایک یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ اس زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور دوسرے یہ کہ بیک وقت یہ تمام مردہ لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے ۔ تمام مردہ اور ساکن لوگ بیک وقت جنبش میں آجائیں گے اور میدان حشر برپا ہوگا جس میں ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوگی جس طرح مٹی ساکن اور ہر جاندار متحرک ہوتا ہے ۔ ان مردوں اور زندوں کے درمیان اپنی حقیقت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق اور فاصلہ ہے ۔ ان تمام مناظر ومظاہر کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایک سلیم الفطرت انسان کا کاسہ دل ایمان سے لبریز ہوجاتا اور وہ اللہ کے سامنے ایک دن پیش ہونے کا یقین کرلیتا لیکن اس سورة کے مخاطب اہل کفر اس کے باوجود اس میں شک کرتے ہیں ۔ (آیت) ” ثم انتم تمترون (2 : 2) ” مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو ۔ “ تیسری جھلکی کی نوعیت یہ ہے کہ وہ ان تمام سابقہ مظاہر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ یہ پوری کائنات ‘ یہ پوری زندگی اور پھر خصوصا پورا عالم انسانیت اللہ کے دائرہ حکومت میں داخل ہے ۔
Top