Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا
: اور وہ کہتے ہیں
اِنْ
: نہیں
هِىَ
: ہے
اِلَّا
: مگر (صرف)
حَيَاتُنَا
: ہماری زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
وَمَا
: اور نہیں
نَحْنُ
: ہم
بِمَبْعُوْثِيْنَ
: اٹھائے جانے والے
آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔
(آیت) ” نمبر 29 تا 32۔ قیامت کی جزا وسزا اور دار آخرت کا عقیدہ اسلامی عقائد ونظریات کی اساس ہے اور ہمیشہ یہ عقیدہ صرف اسلام نے پیش کیا ہے اور عقیدہ توحید کے بعد اسلامی نظام کا ڈھانچہ اسی پر استوار ہے ۔ دین اسلام کے عقائد ونظریات ‘ اخلاق وطرز عمل ‘ قانون ودستور صرف اسی صورت میں قائم اور استوار ہو سکتے ہیں جب لوگوں کے اندر آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا ہوجائے ۔ یہ دین جسے اللہ نے مکمل فرمایا ہے ‘ اور اس دین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا ہے اسے اللہ نے مسلمانوں کے نظام حیات کے طور پر پسند کرلیا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم خود یہ کہتا ہے کہ یہ دین درحقیقت زندگی کا ایک مکمل نظام ہے اور اپنی ساخت میں وہ باہم مربوط اور باہم متعلق ہے ۔ اس کے اخلاقی اصولوں اور عقائد ونظریات کے درمیان ایک گہرا ربط وتعلق ہے ۔ اور پھر عقائد واخلاقیات دونوں کا قانون ‘ دستور اور انتظام ملک سے تعلق ہے ۔ یہ تمام امور اللہ کے عقیدہ حاکمیت اور آخرت کے جوابدہی کی اساس پر قائم ہیں ۔ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق زندگی وہ مختصر عرصہ نہیں ہے جو ایک فرد اس جہان میں بسر کرتا ہے اور نہ زندگی وہ مختصر عرصہ ہے جس میں کوئی قوم زندہ رہتی ہے ۔ اور نہ زندگی وہ عرصہ معلوم ہے جو اس دنیا میں انسانیت کو دیا گیا ہے اور جسے ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق زندگی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا عرصہ ہے ۔ یہ آفاق کائنات میں وسعت پذیر ہے اور تمام جہانوں میں گہرائی تک چلا گیا ہے ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے متنوع اور رنگارنگ ہے اور یہ اس زندگی سے بالکل مختلف ہے جسے آخرت کے منکر یا اس سے غافل لوگ زندگی سمجھتے ہیں اسے بسر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں بس یہی زندگی ہے اور اس جہان کے بعد کوئی اور جہان نہیں ہے ۔ اس طرح وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق زندگی بہت ہی وسیع ہے ۔ اس میں یہ زمانہ بھی شامل ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں ‘ یعنی دنیا ۔ وہ اخروی زمانہ بھی اس میں شامل ہے جسے اللہ کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ۔ اس طویل اخروی زندگی کے مقابلے مین یہ زندگی اس قدر قصیر ہے کہ یہ ساعتہ من نہار ہی کہی جاسکتی ہے ۔ یعنی دن کا ایک حصہ ۔ مکانیت کے اعتبار سے یہ تصور اس قدر وسیع ہے کہ وہ اس جہان اور اس کرہ ارض کے مقابلے میں مزید کروں اور جہانوں کا قائل ہے ۔ وہ ایک ایسی جنت کا قائل ہے جو آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ وسیع ہے ۔ جہنم بھی اس قدر وسیع ہے کہ اس کے پیٹ کو ان تمام انس وجن سے نہیں بھرا جاسکتا جو آغاز انسانیت سے اس دنیا میں آباد ہیں اور یہ آبادی لاکھوں سالوں پر مشتمل ہے ۔ پھر یہ تصور نامعلوم جہانوں تک وسیع ہوجاتا ہے ۔ اس جہان سے آگے کئی جہان ہیں جن کے بارے میں صرف ذات باری کو علم ہے اور ہم اس کے بارے میں وہی کچھ اور صرف اسی قدر جانتے ہیں ۔ جس قدر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اور یہ اخروی زندگی موت سے شروع ہو کر دار آخرت تک جا پہنچتی ہے ۔ عالم موت اور عالم آخرت دونوں غیبی جہان ہیں اور ان میں انسانی وجود اس صورت میں آگے بڑھتا ہے جس کی صحیح کیفیت صرف اللہ کے علم میں ہے ۔ یہ زندگی بھی وسعت اختیار کرتی ہے ۔ ‘ یہ جہاں جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس سے آگے بڑھتی ہے اور آخرت میں جنت و دوزخ میں بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ یہ اس زندگی کے مختلف رنگ ہیں اور اس دنیا کی زندگی میں اس کی صورتیں اور ذائقے مختلف ہیں۔ آخرت میں بھی اس کے رنگ ڈھنگ ہیں لیکن دنیا کی یہ پوری زندگی اخروی زندگی کے مقابلے میں اس قدر بےقیمت ہے جس طرح دنیا کے مقابلے میں مچھر کا ایک پر بےقیمت ہے ۔ یہ ہے اسلامی تصور حیات کے مطاق انسانی شخصیت جس کا وجود زمانے کی حدود سے باہر پھیلا ہوا ہے جس کا عمل دخل مکان سے آگے آفاق کائنات میں وسعت رکھتا ہے اور جس کا مرتبہ اس کائنات میں پائے جانے والے عالمین سے زیادہ گہرا ہے ۔ اس کا تصور اس پوری کائنات تک وسیع ہے اور پورے انسانی وجود کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ اس کا ذوق حیات بہت ہی وسیع ہے ۔ اس میں انسانیت کی اہمیت ہے ۔ انسانی روابط کی اہمیت ہے اور انسانی اقدار کی اہمیت ہے ۔ جس طرح یہ تصور وسیع ہے جو زمان ومکان کے حدود وقیود سے ماوراء ہے ‘ لیکن جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی سوچ خود اس کائنات کے بارے میں نہایت ہی محدود اور کمزور ہے ۔ انسانی تصور حیات کے بارے میں ان کی سوچ بہت ہی محدود ہے ۔ وہ اپنے آپ کو ‘ اپنی اقدار حیات کو اور اپنے تصورات کو اس محدود دنیا کی تنگنائی تک محدود کرتے ہیں ۔ اس نظریاتی اختلاف کی وجہ سے پھر اقدار حیات ‘ زندگی کے تفصیلی نظام اور عملی شکل میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کس قدر جامع اور مکمل نظام زندگی ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام کی تشکیل میں عقیدہ آخرت کا کس قدر دخل ہے ۔ نظریات و تصورات کے اعتبار سے ‘ اخلاق اور طرز عمل کے اعتبار سے اور نظام قانون اور نظام دستور کے اعتبار سے ۔ وہ انسان جو اس طویل زمانے ‘ اس وسیع و عریض کائنات اور اس کے اندر پائے جانے والی تمام مخلوقات کے ساتھ پس رہا ہے ‘ یقینا اس انسان سے مختلف ہے جو اس تنگ دنیا کے غار میں بند ہے اور وہ اس تنگ غار میں بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ برسرپیکار ہے ۔ اس کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اگر اس دنیا میں وہ کسی چیز سے محروم رہ گیا تو عالم آخرت میں وہ اس سے بہتر پائے گا اور اگر دنیا میں اسے کسی عمل کا اجر نہ ملا تو اسے آخرت میں یقینا بہتر اجر ملے گا اگر اس کے اندر یہ یقین پیدا ہوجائے تو یہ شخص اس دنیا کے لوگوں اور مفادات کے بارے میں بہت ہی سخت رویہ اختیار کرے گا ۔ جس قدر انسان کی سوچ وسیع ہوتی ہے اور حقائق کا گہرا ادراک اسے حاصل ہوتا ہے ‘ اسی قدر اس کی شخصیت بڑی ہوتی ہے ۔ اس کی ترجیحات بلند ہوتی ہیں ‘ اس کا شعور بلند ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے اخلاق اور اس کا طرز عمل بھی بہت ہی پاکیزہ بن جاتا ہے اور ایسے شخص کا طرز عمل ان لوگوں کے مقابلے میں بہت ہی بلند ہوتا ہے جو سوراخوں میں بند ہوتے ہیں ۔ جب ایسے وسیع سوچ رکھنے والے کسی فرد کی سوچ میں عقیدہ آخرت اور اخروی جزاء وسزا کی سوچ داخل ہوجاتی ہے تو اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے ۔ اس کی سوچ میں نفاست اور پاکیزگی آجاتی ہے ۔ اس کا دل بھلائی اور جزائے اخروی کے راستے میں خرچ کے لئے تیار ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس پر اخروی جزاء مرتب ہوگئی یوں اس کا اخلاق اور اس کا طرز عمل صالح ہوجاتا ہے اور وہ پختہ کردار کا مالک بن جاتا ہے ۔ یہ پختگی اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس کے دل و دماغ پر یہ عقیدہ چھایا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ ہر وقت اصلاح اور بھلائی کے لئے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ خاموش رہے تو نہ صرف یہ کہ ان کی دنیا فساد کا شکار ہوگی بلکہ آخرت میں تھی وہ خسران کا شکار ہوجائیں گے ۔ جو لوگ حیات اخروی کے بارے میں افتراء باندھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اخروی زندگی کی طرف بلانا اس جہاں کے سلسلے میں ایک منفی رویہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ اس دنیا سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور پھر وہ اس دنیا کو خوبصورت بنانے اور اس کی اصلاح کے لئے جدوجہد نہیں کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے اقتدار پر مفسدوں کا قبضہ ہوجاتا ہے کیونکہ ان نیک لوگوں کی نظریں صرف آخرت ہی پر لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو لوگ اسلام پر یہ الزام دھرتے ہیں وہ جہالت میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ اسلام کے نظریہ آخرت اور اہل کینسہ کے نظام رہبانیت اور ترک دنیا کے اندر فرق نہیں کرتے ۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق آخرت کا تصور یہ ہے کہ دنیا آخرت کے لئے ایک مزرع ہے اور دنیا میں ہم اس کھیت میں جو بوئیں گے وہی آخرت میں کاٹیں گے ۔ اسلام کا نظریہ جہاد بھی تو اس دنیا کی اصلاح کے لئے ہے ۔ یہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ اس دنیا سے شر و فساد کو بالکلیہ مٹا دیا جائے اور اس جہان میں جو لوگ اللہ کے حق حاکمیت اور اقتدار اعلی پر دست درازی کرتے ہیں ان کا ہاتھ پکڑا جائے ۔ یہاں تمام ظالم طاغوتوں کی حکومت کو ختم کرکے کرہ ارض پر عادلانہ نظام قائم کیا جائے جس میں تمام انسانوں کی بھلائی اور خیر ہو ‘ اور یہ تمام کام فلاح اخروی کے لئے کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور باطل کے ساتھ اس کشمکش میں وہ جو وہاں اللہ انہیں اس کا عوض ادا کرتا ہے انہوں نے اس کی راہ میں جو اذیت اٹھائی اس کے بدلے انہیں راحت دیتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا نظریہ حیات جس کی سوچ یہ ہو ‘ وہ انسانی زندگی معطل کرکے اسے متعفن بنا دے ؟ یا یہ زندگی فساد زادہ اور خفلشار میں مبتلا ہو ‘ یا اس میں ظلم اور سرکشی کا دور دورہ ہو اور کوئی نہ ہو کہ ظالم کا ہاتھ روکے ۔ یا وہ زندگی کو پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ حالت میں چھوڑ دے جبکہ ایسے نظریے کے حامل لوگ کی نظریں آخرت پر لگی ہوں اور وہ آخرت میں جزاء کے طالب ہوں ۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کے بعض ادوار میں لوگ منفی سوچ کے حامل رہے ہیں ۔ وہ شر و فساد ظلم وسرکشی کے داعی رہے ہیں ۔ پسماندگی اور جہالت ان کی زندگی پر چھائی رہی ہے اور یہ لوگ اپنے ان حالات کے ساتھ ۔۔۔۔۔ اسلام کے مدعی بھی رہے ہیں ۔ لیکن ان کے یہ حالات اسلام کی وجہ سے نہ تھے بلکہ اسلام کے بارے میں ان کی سوچ صحت مند نہ تھی ۔ ان کا تصور اسلام بگڑا ہوا تھا ۔ وہ جادہ مستقیم سے منحرف ہوگئے تھے اور آخرت پر انہیں کوئی یقین نہ رہا تھا ۔ ان کا ایمان متزلزل تھا ۔ ان کے یہ حالات اس لئے نہ تھے کہ وہ حقیقتا دین پر چل رہے تھے اور انہیں پورا یقین تھا کہ انہوں نے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہر گز ایسے حالات میں زندگی بسر نہ کرتے جن میں انہیں نے پوری زندگی گزار دی کیونکہ جو شخص حقیقت دین کو پالیتا ہے وہ ان لوگوں کی طرح زندگی بسر نہیں کرسکتا ۔ یعنی منفی سوچ کا حامل پسماندہ اور شروفساد پر راضی ۔ ایک مسلمان اس دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ لیکن وہ اپنے آپ کو اس دنیا سے بہت ہی اونچا تصور کرتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اس حقیر دنیا سے بہت ہی عظیم سمجھتا ہے ۔ وہ اس دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو کام میں لاتا ہے یا وہ جائز اور حلال چیزوں سے بھی دامن پاک رکھتا ہے محض اپنی اخروی فلاح کے لئے ۔ وہ دنیا کی قوتوں کی تسخیر اور دنیاوی زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے پوری کوشش کرتا ہے لیکن اس نقطہ نظر سے کہ یہ جدوجہد اس پر اس کے منصب خلافت کی رو سے بطور فریضہ عائد ہوتی ہے اور یہ کہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس جہان میں شر و فساد اور ظلم وسرکشی کے خلاف جہاد کرے ۔ اور اس جہاد کی راہ میں جان ومال کی قربانی دے تاکہ اسے فلاح اخروی حاصل ہو ۔ اس کا دین اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور آخرت تک پہنچنے کا واحد راستہ یہ دنیا ہے ۔ اس دنیا سے ہو کر ہر شخص کو آخرت تک پہنچنا ہے ۔ لیکن آخرت کے مقابلے میں دنیا نہایت ہی حقیر اور کم ہے ۔ بہرحال دنیا بھی ایک محدود نعمت ہے اور اس محدود نعمت کو انسان عبور کر کے لامحدود نعمتوں میں داخل ہوتا ہے ۔ اسلامی نظام کا ہر جزء اخروی زندگی کے لئے ایک سیڑھی کا کام دیتا ہے ۔ اسلامی نظام کی اس سوچ کی وجہ سے انسان کے تصور میں وسعت ‘ حسن اور بلندی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس سوچ کے نتیجے میں رفعت ‘ پاکیزگی اور رواداری پیدا ہوتی ہے اور انسان اس راہ کے لئے پرجوش ہوجاتا ہے ۔ وہ محتاط اور متقی بن جاتا ہے اور انسانی جدوجہد اور زندگی میں خود ‘ پختگی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی زندگی صرف تصور آخرت پر استوار ہو سکتی ہے اور اسی لئے قرآن کریم نے اول سے آخر تک جگہ جگہ خوف آخرت اور یقین قیامت پر زور دیا ہے اور حقیقت آخرت کے مضامین ومناظر کو پیش کیا ہے ۔ عرب ایک گھمبیر جاہلیت میں ڈوبے ہوئے تھے اور اسی جاہلیت کی وجہ سے ان کی سوچ اور ان کے شعور کی تنگ حدود میں عالم آخرت کا تصور نہیں سماتا تھا اور وہ اس دنیا کے علاوہ کوئی اور بات نہ سوچ سکتے تھے ۔ وہ صرف اسی دنیا کو دیکھ سکتے تھے جو ان کی نظروں کے سامنے تھی ۔ وہ اپنی شخصیت اور اپنی فکر کو اس محدود دنیا حدود کے آگے نہ بڑھا سکتے تھے اور نہ ہی کائنات کی مزید وسعتوں کے بارے میں کوئی تصور کرسکتے تھے ۔ انکی سوچ اور ان کا شعور بالکل حیوانی سطح تک تھا اور وہ بعینہ اس طرح سوچتے تھے جس طرح جدید جاہلیت سوچتی ہے ۔ حالانکہ دور جدید کے لوگ اپنے آپ کو علمی اور سائنسی اعتبار سے ترقی یافتہ کہتے ہیں ۔ چناچہ عربوں کی سوچ یہ تھی ۔ (آیت) ” وَقَالُواْ إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِیْنَ (29) ” آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہر گز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ مذکورہ بالا نظریہ حیات اور اعتقادات کے نتیجے میں ایک پاکیزہ ‘ شریفانہ اور بلند مرتبہ زندگی وجود میں نہیں لائی جاسکتی ۔ شعور اور تصور کے یہ محدود دائرے انسان کو گرا کر اسے مٹی میں ملا دیتے ہیں اور اس کی سوچ کو جانوروں کی طرح محسوسات تک محدود کردیتے ہیں ۔ جب انسان اس محدود دنیا کے اندر بند ہوجاتا ہے تو اس کے نفس کے اندر دنیا کی بھوک پیدا ہوجاتی ہے اور دنیاوی وسائل کے بارے میں حرص اور آز پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور انسان دنیا کی اس مال ومتاع کا بندہ بن جاتا ہے ۔ جس طرح شہوت پرستیاں جب بےلگام ہوجائیں تو خرمستیاں کرتی ہیں اور بےروک ٹوک اور بغیر ٹھہراؤ کے اور بغیر کسی حدود کے زیادہ ہی ہوتی رہتی ہیں ۔ پھر اگر یہ خواہشات اور شہوات پوری نہیں ہوتیں تو انسان اپنے آپ کو محروم تصور کرتا ہے کیونکہ اسے کسی اخروی اجر کی بھی امید نہیں ہوتی اگرچہ وہ نہایت ہی گری ہوئی کیوں نہ ہوں اور وہ نہایت ہی چھوٹی خواہشات کیوں نہ ہوں اور ان کی نوعیت محض حیوانی خواہشات کی ہی کیوں نہ ہو ۔ آج دنیا کی جو صورت حال ہے اور اس کے ردعمل میں آج لوگوں کا جو طرز عمل ہے صرف دنیا کے اس محدود دائرے کو پیش نظر رکھ کر تشکیل پاتا ہے ‘ جس میں لوگوں کے پیش نظر صرف زمان ومکان کا محدود دائرہ ہوتا ہے جس میں عدل و انصاف اور ہمدردی اور رحم دلی کا کوئی نام ونشان نہیں ہے ‘ جس میں ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ برسرجنگ ہے ‘ جس میں ہر طبقہ دوسرے طبقے سے برسرپیکار ہے ‘ جس میں ایک نسل دوسری نسل کی بیخ کنی میں مصروف ہے اور سب انسان جنگل کے جانوروں کی طرح اس دنیا کے جنگل میں آزاد پھر رہے ہیں ۔ وحشیوں کی طرح جس کے جی میں جو آتا ہے کرنے پر آمادہ ہے ۔ یہ مناظر آج کی مہذب دنیا میں رات اور دن ہم دیکھتے ہیں اور ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ یہ سب کے سب دنیا کے اس محدود تصور کی وجہ سے ہیں۔ ذات باری کو ان سب حالات کا علم تھا کہ وہ امت جسے پوری انسانیت کی نگرانی کا فریضہ سپرد کیا جانا تھا ‘ اور جس کے فرائض میں یہ بات بھی شامل تھی کہ پوری انسانیت کو وہ مقام بلند تک پہنچا دے اور اسے اس طرح ترقی دے کہ اس میں انسان کا انسانی پہلو اپنی حقیقی شکل میں نمودار ہوجائے ۔ اپنے یہ فرائض اس وقت تک سرانجام نہیں دے سکتی جب تک وہ دنیا کے اس محدود دائرے سے باہر نہیں آجاتی ۔ جب تک وہ دنیا کے اس محدود دائرے سے باہر نہیں آجاتی ۔ جب تک اس کے تصورات اور اس کی اقدار اس محدود وغار سے نکل کر آفاقی نہیں بن جاتے اور جب تک یہ امت دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر آخرت کی وسعتوں کی سیر نہیں کرتی ۔ یہ وہ سبب ہے جس کی وجہ سے قرآن نے عقیدہ آخرت پر بہت ہی زور دیا ہے ۔ ایک تو اس لئے کہ یہ ایک حقیقت ہے جو آنے والی ہے ‘ اور قرآن کریم کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ وہ حقائق بیان کرے ۔ دوسرے اس لئے کہ اس عقیدے کے سوا کوئی انسان مکمل انسان ہی نہیں بن سکتا۔ نہ تصورات و عقائد کے اعتبار سے ‘ نہ اخلاق اور طرز عمل کے اعتبار سے اور نہ اپنے نظام قانون اور نظام دستور کے اعتبار سے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس لہر میں اس قدر شدید اتار چڑھاؤ ہے ۔ اور اس میں ایک ایسی خوفناک فضا پائی جاتی ہے جس سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ان خوفناک مناظر کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ انسان پر بہت پر بہت ہی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس سے انسان کے دل و دماغ کے دریچے وا ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے اندر قبولیت حق کی جو فطری استعداد ودیعت کی گئی ہے وہ جاگ اٹھتی ہے ۔ اس کے اندر حرکت پیش ہوجاتی ہے ‘ وہ زندہ انسان نظر آتا ہے اور ہر وقت سچائی کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے ۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عظیم سچائی کا اظہار ہے ۔
Top