Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 10
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠ ۧ
وَلَقَدِ
: اور البتہ
اسْتُهْزِئَ
: ہنسی کی گئی
بِرُسُلٍ
: رسولوں کے ساتھ
مِّنْ
: سے
قَبْلِكَ
: آپ سے پہلے
فَحَاقَ
: تو گھیر لیا
بِالَّذِيْنَ
: ان لوگوں کو جنہوں نے
سَخِرُوْا
: ہنسی کی
مِنْهُمْ
: ان سے
مَّا
: جو۔ جس
كَانُوْا
: وہ تھے
بِهٖ
: اس پر
يَسْتَهْزِءُوْنَ
: ہنسی کرتے
اے نبی ﷺ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے ‘ مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔
(آیت) ” نمبر 10 تا 11۔ یہ ایک جھلکی ہے ‘ جو ان لوگوں کی روگردانی اور ہٹ دھرمی کے بعد اور ان کی جاہلانہ اور احمقانہ مطالبات کے بعد آتی ہے۔ اور اس کے بعد کہ ان کے اس چیلنج اور ان کے مطالبات کو اللہ تعالیٰ نے نہایت مہربانی اور نہایت ہی بربادی کر کے قبول نہ کیا ورنہ وہ ہلاک ہوجاتے ‘ تو اس موقعہ پر اس جھلکی سے دو مقاصد مطلوب ہیں ۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی جائے اور ان کے دل سے غبار غم چھٹ جائے کوئی روگردانی کرنے والوں اور مذاق اڑانے والوں کے رویے کی وجہ سے اور مسلسل ہٹ دھرمی کی وجہ سے آپ بہت ہی پریشان ہوجاتے تھے ۔ اس طرح حضور ﷺ کا دل مطمئن ہوجاتا کہ جھٹلانے والوں اور مذاق اڑانے والوں کا انجام آخر کار خراب ہی ہوتا ہے ۔ حضور ﷺ کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ تاریخ دعوت وتاریخ رسل میں یہ رویہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔ آپ سے پہلے بھی رسولوں کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا گیا ۔ مذاق اڑانے والوں کا یہی انجام رہا ہے اور وہ جس چیز سے مذاق کرتے تھے آخر کار اسی چیز نے انہیں گھیر لیا اور جس کو دھمکی سمجھتے تھے وہ عذاب ان پر آکر رہا اور حق کو باطل پر آخر کار غلبہ نصیب ہوا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان جھٹلانے والوں اور مذاق کرنے والوں کے دلوں کو بھی ذرا جھنجوڑا جائے اور انہیں اس طرح متوجہ کیا جائے کہ وہ ذرا اپنے اسلام کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں جنہوں نے نبیوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا اور اس کی وجہ سے اللہ کے عذاب نے انہیں گھیرا ۔ یہ لوگ قوت اور شوکت کے اعتبار سے تم سے زیادہ قوی اور پرشوکت تھے ۔ وہ زیادہ آسودہ حال اور ترقی یافتہ تھے ۔ اس طرح انہیں اس طرح متوجہ کیا ۔ شاید کہ وہ ہدایت قبول کرلیں جس طرح سورة کے آغاز میں بھی انہیں واقعات تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ قرآن کریم کے درج ذیل الفاظ قابل غور ہیں : (آیت) ” قُلْ سِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ ثُمَّ انظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (11) ” ان سے کہو ‘ ذرا زمین پر چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ؟ ۔ زمین میں سیروسیاحت کے مقاصد یہ ہیں کہ پھرنے والے کو علم حاصل ہو ‘ وہ حالات پر غور کرے اور ان سے عبرت حاصل کرے ۔ اور پھر تدبر کے بعد پھرنے والا یہ معلوم کرے کہ سنن الہیہ حوادث وواقعات میں کس طرح کار فرما ہوتی ہیں ۔ سنن الہیہ آثار قدیمہ سے بھی معلوم ہو سکتی ہیں جو نظر آتے ہیں اور ابھی تک کھڑے ہیں ۔ ان تاریخی واقعات کے اندر بھی معلوم کی جاسکتی ہیں جو ہر خطے اور ہر قوم کی روایتی تاریخ کے اندر منضبط ہوتے ہیں ۔ زمین کے اندر اس غرض کے لئے اور اس نہج پر سیاحت کرنا عربوں کے لئے ایک انوکھی بات تھی ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں جیسی بدوی اور سادہ قوم میں قرآن مجید فکر ونظر کا کس قدر عظیم انقلاب لارہا ہے ۔ وہ اہل جاہل اور ان پڑھ قوم کو فلسفہ تاریخ پڑھا رہا ہے ۔ وہ زمین میں پھرتے تھے ‘ سیاحت کے عادی تھے ۔ وہ زندگی گزارنے اور تجارت کے لئے قافلوں کی صورت میں پھرنے کے عادی تھے لیکن ان کے پیش نظر صرف وہ امور تھے جن کا تعلق صرف تجارت اور شکار وغیرہ سے تھا ۔ تربیتی مقاصد کے لئے سیر و سیاحت کبھی ان کا مقصود نہیں رہی تھی ۔ یہ سفر ان کے لئے بالکل جدید تھا ۔ یہ جدید نظام حیات انہیں سچ کی یہ نئی لائن دے رہا تھا اور بچوں کی طرح انہیں ہاتھ سے پکڑ کر جاہلیت کی گہرائیوں اور تاریکیوں سے نکال رہا تھا ۔ انہیں ایک بلند اور کھلی شاہراہ پر ڈال کر مقام سربلندی تک لے جا رہا تھا اور تاریخ شاہد ہے کہ قرآن پر عمل کرکے ہی وہ اس بلند مقام تک پہنچے ۔ مطالعہ تاریخ کا یہ منہاج جو قرآن کریم عربوں کو سکھا رہا تھا اپنے اول اور آخر سے یہ انسانی تاریخ کے مطالعے کا بالکل ایک نیا منہاج تھا جس کے مطابق اس دور میں اسلامی نظام زندگی نے انسانی عقل کے سامنے انسانی تاریخ کو پیش کیا ۔ اس طرز مطالعہ سے صاف صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ جب کچھ اسباب اللہ کی مشیت کے مطابق جمع ہوجاتے ہیں تو ان کے نتائج لازما ظہور پذیر ہوتے ہیں اور انسانی کھلی آنکھوں سے تاریخ میں واقعات واحداث کو سنن الہیہ کے مطابق ظاہر ہوتا دیکھتا ہے ۔ اسلامی نظام سے پہلے انسان اور ان کی روایات میں سے محض چند واقعات گنوائے گئے تھے اور کچھ مشاہدات اور لوگوں کے کچھ رسوم اور رواجات کو قلم بند کیا گیا تھا ۔ کہیں بھی واقعات کے اسباب اور وجوہات کے بارے میں کوئی بحث اور تبصرہ نہیں ہوا تھا اور نہ ان کا تجزیہ کیا گیا تھا کہ یہ اسباب اور یہ ان کے نتائج نکلے ۔ یہ تھے تاریخ کے مراحل اور انقلابات ۔ یہ اسلامی نظام اور قرآن تھا جس نے انسان کو فلسفہ تاریخ دیا اور اسے یہ سکھایا کہ تاریخی واقعات کے اندر اسباب ونتائج کا مطالعہ کرو۔ قرآن نے فلسفہ تاریخ کا کوئی مرحلہ پیش نہیں کیا اور نہ کسی پرانی فکر کو آگے بڑھایا ہے بلکہ قرآن نے انسان کو تاریخی تجزیہ کا ایک منہاج دیا ہے اور صرف اس منہاج کے مطابق ہی انسانی تاریخ کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے ۔ بعض لوگ اس امر پر تعجب کرتے ہیں کہ اسلامی نظام نے اور رسالت محمدیہ نے صرف ربع صدی کے ایک مختصر عرصے میں عربوں کی زندگی میں ایک عظیم اور بےمثال ثقافتی اور اقتصادی انقلاب برپا کردیا ۔ یہ عرصہ بظاہر اس قدر عظیم اور ہمہ گیر انقلاب کے لئے نہایت ہی قلیل ہے ۔ اگر وہ اقصادی انقلاب کے اصل عوامل کا مطالعہ کریں تو وہ ہر گز یہ تعجب نہ کریں گے ۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ عوامل کیا تھا جو حضرت محمد ﷺ خدائے علیم وخبیر کی طرف سے لے کر آئے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقتصادی انقلاب بھی اسلامی نظام زندگی کا دکھایا ہوا معجزہ تھا اور اس کا راز اسی نظام میں پنہاں ہے جو لوگ دور جدید کے جدید اقتصادی نظریات اور کھوئے ہوئے اقتصادی اصولوں کے اندر جو چیز تلاش کر رہے ہیں اور اس کے لئے تاریخ کی مادی تعبیر کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ یہ راز اسلامی نظام کے اندر تلاش کریں ۔ اگر وہ اس کے اسباب نظام زندگی کے اندر تلاش نہیں کرتے تو رسالت محمدیہ کے نتیجے میں پسماندہ اور بدوی عربوں میں جو اقتصادی انقلاب برپا ہوا ‘ اس کے نتیجے میں لوگوں کو ایک نظریہ اور تصور حیات ملا ‘ ایک نظام حکومت ملا ‘ فکر ونظر کا نیا انداز ملا ‘ اخلاق ملا ‘ اقدار ملیں ‘ اجتماعی اوضاع واطوار ملے اور نہایت ہی مختصر عرصے یعنی ربع صدی میں ملے ان کے وہ کیا اسباب اور عوامل بتا سکیں گے ؟ (ھاتوا برھانکم انکنتم صادقین) اس جھلکی پر ذرا دوبارہ غور کیجئے ۔ (آیت) ” قُلْ سِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ ثُمَّ انظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (11) ” ان سے کہو ‘ ذرا زمین پر چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اس لہر کے ابتدائی حصہ میں آنے والے ریمارک کو ذرا دوبارہ ذہن میں تازہ کریں۔ (آیت) ” أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاء عَلَیْْہِم مِّدْرَاراً وَجَعَلْنَا الأَنْہَارَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُم بِذُنُوبِہِمْ وَأَنْشَأْنَا مِن بَعْدِہِمْ قَرْناً آخَرِیْنَ (6) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے ؟ ان کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا جو تمہیں نہیں بخشا ‘ ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں (مگر انہوں نے کفران نعمت کیا) تو آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کردیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا ۔ “ یہ آیات اور ایسی ہی آیات اس سورة میں اور پورے قرآن میں پائی جاتی ہیں اور انسانیت کو فکر ونظر کا ایک جدید منہاج عطا کرتی ہیں ۔ یہ زندہ رہنے والا منہاج ہے اور یہ بےمثال اور لاثانی نظام زندگی ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتاب خصائص التصور الاسلامی وتومانہ کی ” فصل “ اسلام کا فلسفہ تاریخ) درس نمبر 57 ایک نظر میں : یہ لہر نہایت ہی اونچی ہے اور اس کا ٹکراؤ بھی بہت خوفناک ہے ۔ جھٹلانے ‘ روگردانی کرنے ‘ مذاق اڑانے اور دعوت اسلامی کے ساتھ استہزاء کرنے بحث کے بعد متصلا یہ لہر اٹھتی ہے ۔ روگردانی اور استہزاء کی گزشتہ بحث کے درمیان لوگوں کے لئے ڈراوا اور انجام بد سے ان کے دلوں میں خوف پیدا کیا گیا تھا اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا گیا تھا کہ وہ جھٹلانے والوں اور مذاق اڑانے والوں کی اس تاریخی انجام پر بھی غور کریں ‘ جس سے وہ دوچار ہوئے ۔ مکذبین کے متعلق لہر نمبر 2 ، سے پہلے اس سورت کی افتتاحی لہر میں اس پوری کائنات میں حقیقت الٰہی اور اس کی شان حاکمیت سے بحث کی گئی تھی ۔ یہ شان پوری کائنات کے ساتھ ساتھ خود نفس انسانی کی اندر بھی دکھائی گئی تھی ۔ اب اس لہر میں بھی ذات باری کے اقتدار اعلی اور اس کے تصرفات کے کچھ اور پہلو دکھائے گئے ہیں ۔ ایک نئے زیروبم اور کچھ نئے فیکٹرز کے ساتھ ۔ گویا افتتاحی لہر اور اس لہر کا مضمون ایک ہی ہے ‘ فرق صرف یہ ہے ان دونوں کے درمیان مکذبین اور مذاق اڑانے والوں کے لئے ایک سخت تنبیہ آگئی ہے اور جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ معترضین کا یہ فعل نہایت ہی شنیع فعل ہے ۔ جو لوگ دعوت سے منہ موڑتے ہیں وہ بہت ہی بری حرکت کر رہے ہیں ۔ پہلی لہر میں شان الہی کو زمین و آسمان کی تخلیق میں دکھایا گیا کہ کس طرح ظلمت ونور کا نظام پیدا کیا گیا اور پھر اس کائنات کے اندر کیچڑ سے انسان کو کس طرح پیدا کیا گیا ‘ پہلا مرحلہ اس کی عمر کا طے کیا گیا اور دوسرا مرحلہ اس کی قیامت اور بعث کے لئے مقرر کیا گیا ۔ یہ بھی بتایا گیا کہ خدا کی خدائی زمین وآسمانوں سب پر حاوی ہے ۔ زمین پر اس مخلوق یعنی حضرت انسان کی تمام سرگرمیوں پر بھی حاوی ہے چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ‘ بلند آواز سے ہوں یا خفیہ ‘ ان کے افعال کھلے بندوں ہوں یا پوشیدگی کے ساتھ ۔ یہ سب امور اس لئے نہ لائے گئے کہ قرآن کے پیش نظر کوئی لاہوتی یا نظریاتی بحث نہ تھی بلکہ اس لئے کہ ان حقائق کے تقاضے انسانی زندگی میں عملا نمودار ہوں ۔ انسان کی پوری کی پوری زندگی الہ واحد کے سامنے سرنگوں ہو اور انسان الہ العالمین کے سوا کسی اور کے آگے نہ جھکے اور توحید میں کوئی شک وشبہ نہ رہے ۔ وہ یہ سمجھے اور اقرار کرے کہ اللہ کی حاکمیت اس پوری کائنات اور انسان کی ظاہری وباطنی زندگی پر حاوی ہے اور یوں انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو حاکمیت الہیہ کے تابع کر دے ۔ جس طرح کہ اس کی تکوینی زندگی حاکمیت الہیہ کے تابع ہے ۔ اس جدید بلند لہر کا مقصد بھی حقیقت الوہیت اور حاکمیت الہیہ کا اظہار ہے وہ اس طرح کہ اس پوری کائنات کا مالک اللہ ہی ہے ۔ فعال بھی وہی ہے ۔ رزق بھی وہی دیتا ہے اور کفالت بھی وہی کرتا ہے ۔ وہ قادر اور قہار ہے ‘ وہ نافع اور ضار ہے ‘ لیکن یہ عقائد محض سلبی اور نظریاتی نہیں ہیں بلکہ ضروری ہے کہ ان عقائد کی روشنی میں اللہ وحدہ کو ولی تسلیم کیا جائے اور اس کی طرف رجوع کیا جائے ۔ اس کی مکمل بندگی کی جائے اور اس کا مطیع فرمان رہا جائے ۔ ان تمام امور کا اظہار اس طرح ہوگا کہ اللہ ہی کو اپنا دوست اور حاکم تسلیم کیا جائے ‘ اس لئے کہ وہی تو ہے جو ہمارا رب اور مطعم ہے جبکہ ہماری جانب سے اسے کچھ نہیں دیا جاتا ۔ دوسرے یہ کہ خود اس نے اس بات سے منع کیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو ولی حاکم اور دوست بنایا جائے یا ان امور میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا جائے ۔ اس مقصد کے لئے اس شکل میں ‘ حقیقت الوہیت کے بیان کے ساتھ ساتھ ان مؤثرات اور فیکٹرز کو بھی بیان کردیا گیا ہے جو دل کو پریشان کرتے ہیں ۔ آغاز اس سے کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا مالک ہے ‘ پھر وہی رب ہے لیکن اس طرح کہ وہ تمام لوگوں کو کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا اور نہ وہ محتاج ہے ۔ پھر اللہ کے اس عذاب کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ اگر کسی سے وہ عذاب ٹل جائے تو گویا اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی ۔ پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ خیر وشر پر قادر ہیں۔ اور یہ کہ وہ ہر فعل پر قادر ہیں اور قہار ہیں ‘ وہ حکیم اور تجربہ کار ہیں ۔ ان تمام امور کو ایک موثر انداز بیان ساتھ لایا جاتا ہے اور نہایت ہی بلند شان سے کہا جاتا ہے ۔ کہہ دو ‘ کہہ دو ‘ کہہ دو ۔ حقیقت حاکمیت الہیہ کے اس گہرے اور موثر بیان کا خاتمہ نہایت ہی بلند آہنگی کے ساتھ ہوتا ہے اور عقیدہ توحید اور رد شرک اور ان کے درمیان فرق و امتیاز کو نہایت ہی پرزور انداز میں بیان کر کے اس کی شہادت دی جاتی ہے اور یہ شہادت بھی نہایت ہی شاہانہ انداز میں دی جاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” قل ای شیء اکبر شھادۃ “ سب سے بڑی شہادت کیا ہے ؟ قل للہ کہو اللہ ‘ کہو میں تو شرک پر شہادت نہیں دیتا ۔ اس لئے کہ اللہ تو صرف ایک ہی ذات ہے جو الہ واحد ہے ۔ ان فقروں اور تنبیہ آمیز سوال و جواب کی وجہ سے ایک پر خطر اور خوفناک فضا پیدا ہوجاتی ہے اور ماحول یکلخت سنجیدہ ہوجاتا ہے ۔
Top