Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ
: پھر کیا وہ غور نہیں کرتے
الْقُرْاٰنَ
: قرآن
وَلَوْ كَانَ
: اور اگر ہوتا
مِنْ
: سے
عِنْدِ
: پاس
غَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
لَوَجَدُوْا
: ضرور پاتے
فِيْهِ
: اس میں
اخْتِلَافًا
: اختلاف
كَثِيْرًا
: بہت
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کی سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی
(آیت) ” افلا یتدبرون القران ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا (4 : 82) ” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کی سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔ اس بیان اور ہدایت کے اندر انسانیت کے لئے انتہائی عزوشرف کا مقام پوشیدہ ہے ۔ اس میں انسان کے ادراک پر مکمل بھروسہ کیا گیا ہے ۔ اور اس کی شخصیت کو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے ۔ نیز اس میں عدالت عقل میں فیصلہ لے جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی ایک ایسے مظہر میں جس کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے زیادہ دشوار نہیں ہے ۔ قرآن کے اندر پائی جانے والی مکمل ‘ جامع اور بےقید ہم آہنگی ایک ایسا مظہر ہے جو اس شخص کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا جو اس کتاب پر تدبر کرے ۔ اس مظہر کی سطح اور اس کا دائرہ مختلف لوگوں کی فہم کے مطابق وسیع اور تنگ ہو سکتا ہے ۔ مختلف نسلوں اور مختلف قسم کے ذہین لوگوں کے نتائج فکر مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہر عقل اور ہر نسل اور ہر دور کے لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق اس سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے اور یہ کمی بیشی لوگوں کے فہم ان کی عقل اور ان کے علم و ثقافت کے اعتبار سے ہو سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کا نتیجہ فکر ان کے تجربے صلاحیت اور تقوی کے مطابق محدود یا لامحدود ہو سکتا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ ہر شخص اس آیت کا مخاطب ہے ‘ ہر نسل اس کی مخاطب ہے ‘ اور درست منہاج فکر و تدبر کے مطابق وہ اس مظہر کا ادراک کرسکتا ہے ۔ یعنی یہ وصف کہ قرآن کے اندر خلاف بیانی نہیں ہے اور اس کے اندر مکمل ہم آہنگی اور تناسق پایا جاتا ہے ۔ البتہ جس طرح ہم نے کہا یہ فہم انسان کی صلاحیت اس کے علمی مقام تجربے اور تقوی کے حدود کے اندر رہتا ہے ۔ یہ گروہ ‘ جسے اس وقت کی موجودہ نسل کی صورت میں مخاطب کیا گیا تھا ‘ ایک ایسے کلام سے مخاطب کیا جارہا تھا جسے وہ خوب سمجھتا تھا ۔ اور اپنے فہم وادراک کے ذریعے وہ اسے عمل میں لاتا تھا ‘ جس قدر اس کی طاقت کے حدود میں ہوتا تھا ۔ یہ مظہر اور یہ صفت یعنی مکمل اتحاد فکر اور ہم آہنگی کی صفت کا اظہار سب سے پہلے قرآن کریم کے انداز تعبیر میں ہوتا ہے ۔ قرآن کی طرز ادا اور فنی طریقہ اظہار مدعا کے اندر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ انسانی کلام ہمارے سامنے ہیں ‘ بڑے سے بڑے ادب پاروں میں نشیب و فراز بھی ہوتے ہیں ‘ ہم آہنگی بھی ہوتی ہے اور لغزش کلام بھی ہوتی ہے ۔ ایک حصہ اگر پر زور ہوتا ہے تو دوسرے میں جھول ہوتی ہے ۔ ایک میں اگر فکری تخلیق ہے تو دوسرے حصہ میں پیش پا افتادہ ہوتا ہے ‘ ایک حصہ اگر رواں ہوتا ہے تو دوسرا نہایت ہی گنجلک ہوتا ہے ۔ ایک اگر نہایت ہی روشن ہے تو دوسرا حصہ تاریک ہے غرض کلام کی فصاحت وبلاغت اور نقص کے سلسلے میں جو اوصاف ہوتے ہیں ان کے اعتبار سے انسانی کلام میں نشیب و فراز ہوتا ہے ۔ نقائص کلام میں سے اہم نقص کلام کے اندر روانی اور ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے جس میں بات جلدی جلدی ایک معیار سے گرتی ہے یا گرے ہوئے معیار سے اوپر کو اٹھتی ہے ۔ ہر انسانی کلام کے اندر یہ مظہر قدم قدم پر سامنے آتا ہے ‘ کسی ایک ادیب کے اگر ادبی کردار کو لیں ‘ یا اس کے انکار کو لیں ‘ یا کسی ایک ہی ادیب کے فن پاروں کو لیں یا کسی ایک سیاست دان کی پالیسیوں کو لیں یا کسی ایک جرنیل کی جنگی چالوں ‘ یا کسی ایک شخص کی صنعت کاری کو لیں ‘ اس میں معیار کا یہ تفاوت قدم قدم پر نظر آئے گا ۔ معیار تعبیر کے اندر زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا ۔ قرآن کریم کے اندر یہ صفت نہایت ہی واضح ہیں اور پوری طرح منعکس ہے ‘ یعنی کلام میں پختگی اور ہم آہنگی ۔ پورے قرآن کے اندر یہ صفت ملحوظ رکھی گئی ہے ۔ ہم یہاں جو بات کر رہے ہیں وہ صرف لفظی اور تعبیر کی ہم آہنگی کے ذاویے سے ہے ۔ اس پوری کتاب کے اندر کلام اور اسلوب اظہار کا ایک ہی میعار ہے ‘ اسی وجہ سے یہ کتاب معجزانہ شان لئے ہوئے ہے ۔ یہ کتاب جن موضوعات پر کلام کرتی ہے ‘ مضمون کے اعتبار سے اس کے رنگ مختلف ضرور ہوتے ہیں لیکن فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اس کا معیار ایک ہی رہتا ہے ۔ اسلوب ادا میں اس کا کمال قائم رہتا ہے ۔ اور کسی جگہ کلام اپنی معیاری سطح سے گرنے نہیں پاتا ۔ کسی جگہ اس کی حالت ایسی نہیں ہوتی جس طرح انسانی کلام کی حالت ہوتی ہے کہ کبھی میعار کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ۔ یہ کتاب اللہ کی شان کاریگری لئے ہوئے ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کے کہنے والا متغیر نہیں ہے اور وہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف متغیر نہیں ہوتا ۔ اور نہ اس پر ایک حال کے بعد دوسرا حال طاری ہوتا ہے ۔ (دیکھئے ‘ التصویر الفنی فی القرآن) اس کے فنی اسلوب کے بعد پھر یہ عدم اختلاف کی صفت اور مکمل ہم آہنگی اور عام وحدت فکر اس نظام کے اندر بھی پائی جاتی ہے جس کا اظہار وبیان قرآن کریم کی ان عبارات کے اندر کیا گیا ہے اور جس کا مفہوم ان ہم آہنگ عبارتوں کی اندر بیان ہوا ہے ۔ یعنی وہ نظام فکر جس کی اوپر نفس انسانی کی تربیت کی گئی ہے یا انسانی معاشرے کی تربیت کی گئی ہے ۔ نیز اس نظام زندگی کے تمام اجزاء اور اس کے تمام پہلوؤں کے اندر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح ایک فرد کی زندگی کی تمام سرگرمیوں اور پھر ایک معاشرے کے اندر فرد کی تمام سرگرمیوں اور نسلا بعد نسل ایک فرد اور معاشرے کی زندگی کے اندر جو تغیر وتبدل ہوتا ہے اس کے تمام پہلوؤں کے اندر مکمل توافق اور توازن پایا جاتا ہے ۔ پھر انسان کی قوت مدرکہ کے لئے ایک منہاج اور تقویم ہے ‘ جس کے کئی پہلو ہیں اور انسان کے فہم وادراک کی کئی قوتیں اور عمل ادراک میں کام آنے والی مختلف قوتیں ۔ پھر خود حضرت انسان کی ذات اور اس کے تمام معاشروں ‘ تمام نسلوں اور تمام سطحوں کے اندر بھی ایک مکمل ہم آہنگی رکھی گئی ہے ۔ انسان اور اس کائنات کے اندر بھی مکمل آہنگی ہے جس کے اندر یہ انسان زندگی بسر کرتا ہے ۔ پھر انسان کی دنیاوی زندگی اور آخروی زندگی کے اندر بھی مکمل توافق اور ہم آہنگی ہے ۔ پھر اس کتاب نے اس انسان اور اس پوری کائنات کے اندر اس کی زندگی بسر کرنے میں بھی پوری ہم آہنگی رکھی ہے ۔ جب ایک انسان اور اللہ کی کاریگری کے اندر باعتبار اسلوب کلام اور لفظی تعبیر فرق ہے تو فکری نظریاتی اور قانون سازی کی میدانوں میں بھی ‘ ظاہر ہے کہ انسانی کام اور ربانی کام کے اندر نہایت ہی واضح فرق و امتیاز ہوگا ۔ تمام انسانی نظریات ‘ تمام انسانی مذاہب ومکاتب کے اوپر انسانی چھاپ بالکل واضح نظر آتی ہے ۔ اور نقطہ نظر کے اندر جزئی اور انفرادی پن واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ان تمام پہلوؤں کے اندر وقتی حالات اور مشکلات سے انسان متاثر نظر آتا ہے ۔ اور انسان اس بات کا ادراک نہیں کرسکتا کہ اس کے نظریے ‘ اس کے مذھب ومکتب کے اندر اور اس کے منصوبوں کے اندر کوئی نہ کوئی تناقض موجود ہوتا ہے جو اس نظام فکر وعمل کے اندر کشمکش شروع کردیتا ہے اور یہ کشمکش یا تو بہت جلد شروع ہوجاتی ہے یا کچھ عرصے کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ پھر یہ انسانی مکاتب فکر وعمل انسان کی بعض خصوصیات کو بالکل دبا دیتے ہیں جبکہ خود انسان کو ان کا نہ علم ہوتا ہے اور نہ انسان انہیں پیش نظر رکھ سکتا ہے ۔ یہ پھر بعض شخصیات کے اندر ایسے اوصاف ہوتے ہیں جن کے بارے میں انسان سوچ ہی نہیں سکتا ۔ خود انسانی ادراک کے اندر ہزاروں کمزوریاں اپنی جگہ ہوتی ہیں اور جس کا دائرہ عمل نہایت ہی محدود ہوتا ہے ۔ چونکہ انسانی ادراک کا دائرہ محدود ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے بنائے ہوئے منصوبے سے آگے نہیں دیکھ سکتا بلکہ وہ خود اپنے موجود منصوبے کے (مالہ وما علیہ) سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس قرآنی منصوبہ چونکہ علیم وخبیر کا بنایا ہوا ہوتا ہے اس لئے قرآنی مندرجات ومفہومات ان تمام نقائص سے پاک ہوتے ہیں ۔ یہ مفہومات اور منصوبے مستقل ہوتے ہیں اور پوری کائنات کے اندر مروج نوامیس فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ یہ نوامیس فطرت مستقل اور ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلسل حرکت میں بھی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح قرآنی نظریات بیک وقت متحرک بھی ہوتے ہیں ۔ اور ثابت بھی ہوتے ہیں۔ ان آفاق وحدود کے اندر قرآن کریم کی اس صفت پر غور وفکر سے بعض اوقات انسانی ادراک اس کے پورے آفاق کو نہیں پا سکتا اور نہ ہی بعض اوقات ایک پوری نسل اس کا مکمل ادراک کرسکتی ہے بلکہ تمام نسلوں کے ادراک میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوگا ۔ اس لئے کہ قرآن کریم سے ہر نسل اپنا حصہ پاتی ہے اور آنے والی ترقی یافتہ نسلوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ آفاق رہتے ہیں ۔ بہر حال اس صفت کے ادراک میں مختلف درجات کے اعلی انسانوں سے کچھ نہ کچھ ضرور باقی رہ جاتا ہے جس طرح دوسری چیزوں کے اندر کسی نہ کسی حد تک اختلاف موجود ہوتا ہے ۔ اور اس باقی آفاق سے اگلی نسلیں بھی اپنا حصہ حاصل کرتی رہتی ہیں اس لئے کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں اور انسان کی بنائی ہوئی چیزوں میں فرق ہے ۔ اور اللہ کی بنائی ہوئی چیز میں نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ تفاوت اور فرق ۔ اس میں مکمل اتحاد اور تناسق ہوتا ہے ۔ ہاں لوگوں کی فہم وادراک کے حدود میں ضرور فرق ہوتا ہے اور بعض لوگ اس تناسق کو بہت ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بعض ذرا کم سمجھتے ہیں ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے التصور الاسلامی خصائصہ ومقوماتہ ۔ نحو مجتمع اسلامی ‘ الاسلام ومشکلات الحضارہ اور ھذ الدین وغیرہ) لیکن جس قدر ایک عام انسان سمجھ سکتا ہے یا ایک گروہ سمجھ سکتا ہے یا ایک متعین نسل سمجھ سکتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ لوگوں کے فہم وادراک کے سامنے ‘ جس قدر ان کو حاصل ہے ‘ قرآن کریم کو پیش کرتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور اگر غیر اللہ کا کلام ہوتا تو لوگ اس میں بہت کچھ اختلافات پاتے ۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک مختصر سا توقف کریں اور یہ متعین کرلیں کہ اس مخصوص معاملے میں یا پورے دین کے معاملے میں انسانی ادراک کی حدود کار کیا ہیں ؟ کوئی انسان اس بات سے غرے میں مبتلا نہ ہوجائے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ خود انسانی ادراک کے سامنے فیصلے کے لئے پیش کیا ہے اس لئے گویا انسانی ادراک کوئی بہت ہی بڑی شئی ہے ۔ انسانی غور وفکر اور ادراک کو بھی اپنی محفوظ حدود کے اندر رہنا چاہئے کہیں وہ اپنے محدود محفوظ دائرے سے باہر بھول بھلیاں میں پھنس نہ جائے ۔ قرآن کریم کی ان ہدایات کو اچھی طرح نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی ان کی حدود کو اچھی طرح سمجھا گیا ہے ۔ از منہ قدیمہ اور دور جدید دونوں میں ایسے اسلامی اہل فکر رہے ہیں جنہوں نے عقل و قیاس کو شریعت کے مساوی درجہ دیا ہے بلکہ یہ لوگ عقل وادراک کو شریعت کا پاسبان بناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فہم وادراک کا یہ آلہ بہرحال انسانی قوت مدرکہ ہے اگرچہ اپنی جگہ یہ نہایت ہی اہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کے مسئلے کو بارگاہ عقل و تدبر میں پیش کیا ہے لیکن عقل کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے کہ یہ قرآن اور اس کے اندر وضع کردہ پورے کا پورا دین من جانب اللہ ہے ۔ اس لئے کہ قرآن کے اندر ایسے اوصاف ومظاہر ہیں جنہیں عقل بشری بڑی سہولت سے سمجھ سکتی ہے ۔ اور وہ مظاہر اور علامات اس بات کے ادراک کے لئے کافی ہیں کہ یہ دین من جانب اللہ ہے ۔ جب یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ دین من جانب اللہ ہے تو اس ادراک کا منطقی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ اد دین کے اندر جو احکام ہیں انہیں انسان تسلیم کرے چاہے ان کی حکمت انسان کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو ‘ اس لئے کہ جب ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ یہ دین اور قرآن من جانب اللہ ہے تو یہ بات ازخود تسلیم ہوجاتی ہے کہ اس کے اندر حکمت موجود ہے پھر یہ بات اہم نہیں رہتی کہ حالات حاضرہ کے اندر لوگوں کی مصلحت اس دین سے پوری ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ۔ جب دین اللہ کی طرف سے ہے تو گویا مصلحت اس کے اندر موجود اور متحقق ہے ۔ ا نسانی عقل شریعت کے مساوی نہیں ہوتی چہ جائیکہ کہ وہ شریعت پر حاکم اور مقتدر ہوجائے ۔ اس لئے کہ خود شریعت کی حکمتوں کا ادراک ہر عقل نہایت ہی محدود پیمانے پر کر پاتی ہے ۔ اور یہ بات محال ہے کہ عقل شریعت کے تمام زاویوں اور تمام مصلحتوں کا احاطہ کرسکے ۔ نہ ایک لحظہ میں نہ پوری انسانی تاریخ میں ۔ جبکہ اللہ کی شریعت کی نظر ایک ایک لمحے کی مصلحتوں پر بھی ہوتی ہے اور زمان ومکان کے مصالح پر بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ شریعت کا کوئی ثابت شدہ حکم صرف انسانی عقل و قیاس کے حوالے کردیا جائے ۔ اس سلسلے میں عقل انسانی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ نصوص شرعیہ کے ادراک اور ان نصوص کی دلالت اور مفہومات کے اخذ پر غور کرے ۔ یہ اجازت عقل کو نہیں دی جاسکتی کہ وہ احکام کی مصلحتوں پر بھی کلام کرے ۔ اس لئے کہ جب اللہ کی جانب سے کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو اس میں لازما کوئی مصلحت ہوتی ہے تب ہی تو وہ آتی ہے ۔ عقل کا کام تو ان مسائل میں ہوتا ہے جن میں کوئی نص نہ ہو ‘ جدید مسائل ہوں ۔ ایسے مسائل کے بارے میں جو طریقہ کار اختیار کیا جائے گا اس کے بارے میں ہم اس سے پہلے کہہ آئے ہیں کہ ایسے مسائل کو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹا دیا جائے گا ۔ اور یہی وہ دائرہ کار ہے جو حقیقی اجتہاد کے لئے کھلا چھوڑا گیا ہے جبکہ نصوص قرآنی کا فہم وادراک بہر حال ہر وقت عقل ہی کے ذریعے ہوگا ۔ جب کسی نص کا مفہوم سمجھ لیا جائے تو بس اب وہاں توقف ہی بہتر ہوتا ہے اور عقل کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ فیصلہ دے کہ آیا اس مفہوم میں مصلحت ہے یا نہیں ہے ۔ عقل انسانی کا اصل دائرہ کار کائنات کے قوانین قدرت ہیں اور یہ نہایت ہی وسیع دائرہ کار ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم عقل انسانی کو اسی قدر مقام ومنزلت دیں جو اسے اللہ نے دیا ہے اور جو اس کے لئے مناسب ہے اور اس دائرے کے اندر اسے رکھا جائے جو اللہ نے عقل کے لئے رکھا ہے ۔ اس دائرے کے حدود سے تجاوز نہ کیا جائے تاکہ وہ بھول بھلیاں میں جا کر پھنس نہ جائے اور اسے کوئی رہبر کامل نہ ملے ۔ اور اگر کوئی رہبر ملے بھی تو وہ ایسے راستوں پر پڑجائے جن کا اسے خود علم نہ ہو ۔ یہ صورت حال ایک ایسے انسان کے لئے زیادہ خطرناک ہے جو صراط مستقیم کا متلاشی ہو۔
Top