Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو ۔ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر
(آیت) ” 71 تا 74۔ یہ اہل ایمان کو نصیحت ہے ۔ یہ عالم بالا کی قیادت سے ان کے لئے ہدایات ہیں ‘ جن کے اندر ان کے لئے منہاج عمل درج کیا گیا ہے ، مستقبل کا راستہ متعین کیا گیا ہے ۔ جب انسان قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے ‘ تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کتاب اہل ایمان کے لئے معرکہ جہاد کی عمومی اسکیم بھی تیار کرتی ہے ۔ جنگ کی اسٹریٹیجی بھی قرآن میں درج کی جا رہی ہے ۔ ایک دوسری آیت میں ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا قاتلو الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ ان لوگوں کے ساتھ قتال کرو جو کفار میں سے تمہارے قریب ہیں ۔ اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائیں ۔ “ اسلامی تحریک کے لئے یہ عام منصوبہ ہے ۔ اس آیت میں اہل ایمان کو کہا جاتا ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا اثبات اوانفروا جمیعا “۔ (4 : 71) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو ‘ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر “۔ یہ عملی اقدام کی اسکیم کا ایک حصہ ہے جسے ٹیکٹکس کہتے ہیں ۔ اور سورة انفال میں بھی بعض ایسی ہدایات دی گئی ہیں جو میدان جنگ کے بارے میں ہیں ۔ (آیت) ” فاما تثقفنھم فی الحرب فشردبھم من خلفھم لعلھم یذکرون) ” پس اگر تم انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں ان کو بھاگتے دیکھ کر خود بھی بھاگ کھڑے ہوں اور شاید وہ بدعہدی کے انجام سے عبرت پکڑیں ۔ “ یہ ہے قرآن مجید ‘ اس میں مسلمانوں کو صرف عبادات اور مراسم عبودیت ہی نہیں سکھائے گئے اور نہ اس میں صرف انفرادی اسلامی آداب اور اخلاق ہی سکھائے گئے ہیں ۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا اس دین کے بارے میں ایسا فقیرانہ تصور ہے بلکہ یہ قرآن کریم لوگوں کی زندگی کو پورے طور پر (As A Whole) لیتا ہے ۔ یہ زندگی کے عملی واقعات میں سے ہر ایک واقعہ پر اپنا فیصلہ دیتا ہے ۔ اور پوری زندگی کے لئے مکمل ہدایات دیتا ہے ۔ یہ کتاب ایک مسلمان فرد اور ایک مسلمان معاشرے سے ‘ اس سے کم کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتی کہ انکی پوری پوری زندگی اس کتاب کے مطابق بسر ہو ۔ اس کتاب کے تصرف میں ہو ‘ اس کی ہدایات کے مطابق بسر ہو ۔ خصوصا یہ کتاب کسی مسلمان فرد اور سوسائٹی کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کے لئے متعدد نظام اختیار کرلیں جن کے اصول مختلف ہوں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ذاتی نظام ‘ عبادات اور اخلاق وآداب کا نظام تو وہ کتاب اللہ سے لے لیں ‘ اور اقتصادی ‘ اجتماعی ‘ سیاسی اور بین الاقوامی معاملات میں ہدایات کسی دوسری کتاب یا کسی انسان کے دیئے ہوئے تصورات سے اخذ کرلیں۔ اس کتاب کے مطابق انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی فکر اور تصورات اس کتاب اور اس کے منہاج سے اخذ کرے اور اپنی زندگی کے لئے تفصیلی احکام اس کتاب سے لے کر زندگی کے واقعات پر ان کا انطباق کرے ۔ اس لئے کہ زندگی کے اندر مسلسل نئے نئے مسائل اور حالات پیش آتے رہتے ہیں اور یہ احکام وہ اس طرح مستنبط کرے جس طرح اس سبق سے پہلے سبق میں اس کی تفصیلات خود اس کتاب نے دی ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ اس کتاب نے کھلا نہیں چھوڑا ورنہ ‘ نہ ایمان ہوگا اور نہ اسلام ۔ سرے سے اسلام اور ایمان ہوگا ہی نہیں اس لئے کہ جو لوگ اس کتاب کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرتے وہ ایمان اور اسلام میں داخل ہی نہیں ہوتے اور گویا انہوں نے ارکان اسلام کا اعتراف ہی نہیں کیا ہے ۔ ان ارکان میں سے پہلا کلمہ شہادت (لاالہ الا اللہ) جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی شارع نہیں ہے ۔ یہ ہے قرآن کریم جو اس معرکے میں مسلمانوں کے لئے میدان جنگ کا منصوبہ بناتا ہے جو اس وقت ان کے موقف کے ساتھ شامل تھا ‘ اور جو ان کے وجود کے لئے ضروری تھا کیونکہ ان کے اردگرد ہر طرف بیشمار مخالفتیں تھیں ‘ جن میں وہ گھرے ہوئے تھے ۔ اسلامی مملکت کے اندر یہودی اور منافقین مسلمانوں کے خلاف گہری سازشیں کر رہے تھے ۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مومنین کو خبردار کرتے ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا خذوا حذرکم فانفروا اثبات اوانفروا جمیعا “۔ (4 : 71) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہو ‘ پھر جیسا موقع ہو الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلو یا اکٹھے ہو کر “۔ ثبات ثبت کی جمع ہے ‘ یعنی مجموعہ ‘ حکم یہ ہے کہ جہاد کے لئے اکیلے نکلنا جائز نہیں ہے ۔ جہاد کے لئے یا تو چھوٹے چھوٹے دستوں کی شکل میں نکلو یا بڑے لشکر اور فوج کی شکل میں نکلو ‘ جس طرح کا معرکہ درپیش ہو ‘ اس لئے کہ افراد کو دشمن سہولت سے پکڑ سکتا ہے ‘ اور اس وقت دشمن ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ اس وقت بالخصوص یہ حکم تھا ‘ اس لئے کہ اس دور میں دشمن اسلام کے مرکز میں پھیلے ہوئے تھے ۔ اور مدینہ میں یہودیوں اور منافقین کی صورت میں کھلے پھرتے تھے ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن فان اصابتکم مصیبۃ قال قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شیھدا (72) ولئن اصابکم فضل من اللہ لیقولن کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ یلیتنی کنت معھم فافوز فوزا عظیما “۔ (73) (4 : 72۔ 73) ” ہاں ‘ تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے ۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا ۔ اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا ۔ “ منظم دستوں کی شکل میں نکلو یا سب کے سب نکلو ‘ یہ نہ ہو کہ تم میں بعض لوگ تو نکلیں اور بعض لوگ سستی کریں ۔ جیسا کہ بعض لوگ سستی کر رہے ہیں ‘ اور ہر وقت تیار ہو ۔ صرف خارجی دشمن کے مقابلے میں نہیں بلکہ ان اندرونی دشمنوں کے مقابلے میں بھی ‘ ان لوگوں کے مقابلے میں بھی تیار رہو جو پہلو تہی کرتے ہیں ‘ لڑائی سے جی چراتے ہیں اور جو شکست خوردہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو جہاد سے روکتے اور سستی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی جنگ سے روکتے ہیں شکست خوردہ ذہنیت کے لوگوں کی عادت بالعموم ایسی ہی ہوتی ہے ۔ (لیبطئن) کا لفظ جو یہاں استعمال ہوا ہے اس کے اندر ایک قسم کا بھاری پن اور پھسلن پائی جاتی ہے ۔ اس کے حروف کی ادائیگی اور صوتی حرکت کے اندر بھی ایک قسم کی پھسلن پائی جاتی ہے ۔ اور جب زبان اس کے آخری اور مشدد حرف کو ادا کرتی ہے تو اس میں بھی کھچاؤ ہے ۔ ایک لفظ کے ساتھ اس پوری نفسیاتی کشمکش کو ادا کردیا گیا جو ایسے لوگوں کے ذہن میں ہوتی تھی اور خود لفظ جو اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا گیا ہے پوری کشمکش اپنے اندر رکھتا ہے ۔ جس طرح مفہوم بھاری ہے اس طرح لفظ بھی بھاری استعمال کیا گیا ہے اور یہ وہ کمال درجے کا اسلوب ادا ہے جو صرف قرآن کا خاصہ ہے ۔ (دیکھئے التصویر الفئی فی القرآن ‘ فصل تناسق) اس لفظ کے بعد پھر (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن “۔ (4 : 72) کے پورے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پوری طرح سست روی کا شکار ہیں ‘ یہ لوگ معدودے چند ہیں اور ان کو اس پہلو تہی پر پوری طرح اصرار ہے ۔ وہ اس میں سخت کوشاں ہیں اور یہ بات ان تاکیدی حروف سے معلوم ہوتی ہے جو اس فقرے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ اپنے رویے پر مصر ہے اور اسلامی محاذ پر اس کا اثر پڑ رہا ہے اور بہت برا اثر ہو رہا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم ان کے بارے میں تفصیلی وضاحتیں کرتا ہے ۔ ان کے دلوں کے اندر پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرتا ہے ۔ ان کی قابل نفرت حقیقت کی خوب تصویر کشی کرتا ہے اور یہ قرآن کریم کا عجیب معجزانہ انداز ہے ۔ یہ لو یہ لوگ تمہارے سامنے ہیں ‘ اپنے پورے ارادوں کے ساتھ ‘ اپنے مکمل مزاج اور اپنے اقوال وافعال کے ساتھ ‘ بالکل سامنے ‘ آنکھوں کے سامنے بالکل ننگے کھڑے ہیں ۔ گویا انہیں مائیکرو اسکوپ کے نیچے کھڑا کردیا گیا ہے ۔ اور یہ اندرونی مائیکرواسکوپ انکے دلی رازوں کا افشا کر رہا ہے اور ان کے تمام اغراض ومقاصد اس سے واضح ہو رہے ہیں ۔ دیکھو یہ لوگ ہیں ‘ جو عہد رسول اللہ ﷺ میں نظر آتے ہیں اور آپ کے عہد کے بعد ہر زمان ومکان میں یہ قسم یوں ہی باقی رہے گی ۔ یہ کیا ہیں ؟ کمزور ‘ منافق اور آئے دن بدلنے والے ‘ جن کے مقاصد نہایت ہی چھوٹے ہیں ‘ نہایت پیش پا افتادہ ‘ جو اپنے ذاتی مفادات اور شخصی فائدے سے اعلی کسی اور فائدے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ۔ وہ اپنی شخصیت سے اونچے افق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ‘ یہ لوگ پوری دنیا کو ایک ہی محور کے گرد گھماتے ہیں اور یہ محور ان کی ذات اور ذاتی مفادات کا محور ہے ‘ اسے وہ کبھی نہیں بھولتے ۔ یہ لوگ سست اور ڈھیلے ہیں اور آگے بڑھنے والے نہیں ہیں کہ اپنے اصل مقام پر جا کھڑے ہوں ‘ اور نفع ونقصان کے بارے میں ان کا جو تصور ہے وہ گھٹیا درجے کے منافقین کے لائق ہے ۔ یہ لوگ معرکہ جہاد سے پیچھے رہنے والے ہیں ‘ اگر مجاہدین پر مصیبتیں آجائیں اور وہ مبتلائے مشکلات ہوجائیں جس طرح اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے تو یہ پسماندہ لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ جہاد سے ان کا فرار اور مشکلات سے ان کا بچ نکلنا ان کے لئے مفید ہے ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن فان اصابتکم مصیبۃ قال قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شیھدا (4 : 72۔ ) ” ہاں ‘ تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے ۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آئے تو کہتا ہے اللہ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ نہ گیا ۔ ایسے لوگوں کو اس بات سے شرم نہیں آتی کہ وہ بزدلی کی اس زندگی کو اللہ کی نعمت تصور کرتے ہیں اور پھر وہ اسے اس اللہ کا فضل کہتے ہیں جس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ لوگ پیچھے بیٹھ گئے ہیں ایسے حالات میں اگر کوئی بچ بھی نکلے تو وہ کبھی نعمت خداوندی نہیں پا سکتا کیونکہ اللہ کی نعمت اللہ کے حکم کی خلاف ورزیاں کرکے نہیں ملتی اگرچہ بظاہر وہ صاحب نجات نظر آئیں یہ بیشک ایک نعمت ہوگی مگر ان لوگوں کے نزدیک جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ نہیں کرتے ۔ یہ ان لوگوں کے نزدک بچنا ہے جو یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا مقصد تخلیق کیا ہے ؟ اور وہ اطاعت کرکے اور جہاد کرکے اللہ کی غلامی نہیں کرتے تاکہ وہ اسلامی نظام حیات کو دنیا میں قائم کریں ۔ یہ ان لوگوں کے نزدیک نعمت ہے جن کی نظریں اپنے قدموں کے آگے بلند آفاق پر نہیں پڑ سکتیں ۔ یہ چیونٹیوں کی طرح کے لوگ ہیں ‘ یہ نجات ان لوگوں کے نزدیک نعمت ہے جو اس بات کا احساس نہیں رکھتے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کی مشکلات برداشت کرنا اسلامی نظام کے قیام کے لئے اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور یہ اللہ کا خصوصی انتخاب ہے جس کے ذریعے وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیتا ہے تاکہ وہ دنیا کی اس زندگی میں بشری کمزوریوں پر قابو پائیں ۔ اس طرح وہ انہیں دنیا کی قید سے رہائی دلاتا ہے ۔ وہ ایک برگزیدہ زندگی پر فائز ہوجاتے ہیں ‘ وہ زندگی کے مالک ہوجاتے ہیں اور زندگی ان کی مالک نہیں ہوتی ۔ تاکہ یہ آزادی اور یہ سربلندی ان کو ان بلندیوں تک لے جائے جو آخرت میں شہداء کے لئے مقرر ہیں ۔ بیشک سب لوگ مرتے ہیں لیکن اللہ کی راہ میں جان دینے والے ہی شہید ہوتے ہیں اور یہ اللہ کا فضل عظیم ہے۔ اگر صورت حال دوسری پیش آجائے اور مجاہدین کامیاب ہوجائیں ‘ وہ جو یہ تیاری کرکے نکلے تھے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیش آتا ہے ‘ آئے اور انہیں اللہ کا فضل نصیب ہوجائے ‘ فتح اور غنیمت کی صورت میں تو یہ پیچھے رہنے والے لوگ سخت نادم ہوتے ہیں کہ وہ کیوں نہ اس نفع بخش معرکے میں شریک ہوئے ۔ اس فائدے میں ان کے نزدیک نہایت ہی گھٹیا معیار ہوتا ہے ‘ خالص دنیاوی معیار ۔ (آیت) ” ولئن اصابکم فضل من اللہ لیقولن کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ یلیتنی کنت معھم فافوز فوزا عظیما “۔ (4 : 73) ” اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا۔ یہ نہایت ہی گھٹیا خواہش ہے محض مال غنیمت کی خواہش اور اسے یہ شخص فوز عظیم سے تعبیر کرتا ہے ۔ مومن بھی مال غنیمت کے ساتھ واپسی کو برا تو نہیں سمجھتا بلکہ اس سے توقع تو یہی ہے کہ وہ بھی اللہ سے ایسی کامیابی مانگے ۔ اور مومن سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ مشکلات کی طلب کرے بلکہ مطلوب تو یہ ہے کہ وہ عافیت کی دعا کرے ۔ مومن کا مجموعی تصور ان متخلفین کے تصور سے بالکل جدا ہوتا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں کے تصور کو قرآن کریم نہایت ہی مکروہ صورت میں پیش کرتا ہے جو قابل نفرت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بھی مشکلات اور مصائب کی تمنا نہیں کرتا بلکہ عافیت کا طلبگار ہوتا ہے لیکن اسے جب جہاد کی طرف بلایا جائے تو وہ بوجھل قدموں کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا ۔ جب وہ نکلتا ہے تو وہ دو اچھے انجاموں میں سے ایک کا طالب ہوتا ہے یا نصرت و کامرانی کا یاشہادت فی سبیل اللہ کا اور یہ دونوں ہی اللہ کے فضل میں سے ہیں اور دونوں ہی فوز عظیم ہیں ۔ اہل ایمان کی قسمت میں یا تو شہادت آجاتی ہے تو پھر بھی وہ راضی برضا ہوتے ہیں اور اس گروہ میں جاتے ہیں جو شہادت کے مقام پر فائز ہوا ۔ یا وہ زندہ مال غنیمت کے ساتھ واپس آتا ہے تو اس صورت میں وہ اللہ کے فضل پر شکر گزار ہوتا ہے اور اس کی جانب سے آئی ہوئی فتح پر خوش ہوتا ہے مگر یہ خوشی محض زندہ بچ جانے کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔ یہ ہے وہ اعلی افق جس کے بارے میں اللہ کا ارادہ ہے کہ اہل ایمان اپنی نظریں اس پر رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان اہل ایمان میں سے اس فریق کی تصویر ان کے سامنے کھینچتے ہیں اور یہ انکشاف فرماتے ہیں کہ تمہاری صفوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو جہاد سے پہلو تہی کرنے والے ہیں اور یہ انکشاف اس لئے کیا جاتا ہے کہ اہل ایمان ان سے چوکنے رہیں جس طرح وہ ظاہری دشمنوں سے چوکنے رہتے ہیں۔ اس طرح متنبہ کرنے اور اس دور میں جماعت مسلمہ کو مواقع عبرت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ایک ایسے انسانی ماڈل کا ایک عام نمونہ یہاں منقش کرتا ہے ‘ جو ہر دور اور ہر جگہ بار بار سامنے آتا رہتا ہے اور یہ تصویر کشی قرآن مجید چند الفاظ کے اندر کرتا ہے ۔ یہ حقیقت جماعت مسلمہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے اس لئے کہ اسلامی حلقوں کے اندر ہمیشہ ایسے لوگ پائے جاسکتے ہیں ۔ جماعت کو ایسے لوگوں کی حرکات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنی تیاری کو ہر حال میں مکمل رکھنا اور آگے بڑھنا چاہئے ۔ ہر وقت تربیت ہدایت اور جہد مسلسل کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ جماعت تمام نقائص سے پاک ہو۔ اپنی کمزوریوں کا مداوا ہر وقت ہوتا رہے اور جماعت کے عملی اقدامات ‘ اس کے نظریات اور اس کی تمام حرکات کے درمیان باہم ربط ہو۔ اب اگلی آیت میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ یہ سست رو ‘ پہلو تہی کرنے والوں اور دنیاوی گندگیوں میں آلودہ لوگوں کو قدرے اٹھایا جائے اور ان کے حس و شعور میں اس دنیا سے آگے آخرت کا شعور پیدا کیا جائے ۔ ان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ دنیا کو فروخت کرکے آخرت کو خریدنے والے بنیں ‘ اور اس کام میں انہیں دو اچھے انجاموں میں سے ایک ضرور نصیب ہوگا یا تو فتح ونصرت سے ہمکنار ہوں گے یا شہادت ان کو نصیب ہوگی ۔
Top