Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 150
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًۙا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْفُرُوْنَ : انکار کرتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کا وَ : اور رُسُلِهٖ : اس کے رسولوں وَيُرِيْدُوْنَ : اور چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّفَرِّقُوْا : فرق نکالیں بَيْنَ : درمیان اللّٰهِ : اللہ وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں نُؤْمِنُ : ہم مانتے ہیں بِبَعْضٍ : بعض کو وَّنَكْفُرُ : اور نہیں مانتے بِبَعْضٍ : بعض کو وّ : اور َيُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَّخِذُوْا : پکڑیں (نکالیں) بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : ایک راہ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کردیں ‘ اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے پیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں
یہودیوں کا دعوی یہ تھا کہ وہ اپنے نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی رسالتوں کا انکار کرتے تھے ۔ جبکہ نصاری کا موقف یہ تھا کہ وہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان لاتے تھے اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے وہ بھی منکر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو الہ بھی سمجھتے تھے ۔ قرآن کریم نے ان دونوں کے موقف پر سخت گرفت کی ۔ اور اللہ اور اس کے انبیاء ورسل پر ایمان لانے کا جامع تصور پیش فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا بھی غلط ہے اور خود اللہ کے تمام رسولوں کے درمیان فرق کرکے بعض پر ایمان لانا اور بعض کا انکار کرنا بھی غلط ہے بلکہ اللہ اور اللہ کے تمام رسولوں پر بلا امتیاز ایمان لانا ضروری ہے ۔ اور یہی دین اسلام ہے اللہ کو اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ہے کیونکہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے تقاضوں کو صرف اسی صورت میں پورا کیا جاسکتا ہے ۔ اللہ کی وحدانیت مطلقہ کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کا دین بھی ایک ہو ‘ جس کے حامل وہ تمام رسول قرار دیئے جائیں جو انسان کی ہدایت کیلئے کسی بھی وقت بھیجے گئے ہوں اور جن جن رسولوں کو یہ امانت سپرد کی گئی ان کا درجہ اور مقام بھی ایک ہونا ضروری ہے ۔ رسولوں کے ایک ہی منصب اور ایک ہی مقام کا جو بھی انکار کرے گا وہ اللہ کی توحید کا انکار تصور ہوگا ۔ اس سے اللہ کی وحدانیت کا ایک بڑا تصور سامنے آئے گا اس لئے کہ انسانوں کیلئے اللہ کا پسندیدہ دین بہرحال وہی ایک ہے ‘ اس کی بنیاد ایک ہے ‘ اور اس کا مصدر ومنبع ایک ہے ‘ لہذا اس کے نمائندوں کے درمیان تفریق کس طرح معقول ہو سکتی ہے ۔ قرآن کریم نے اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق کرنے کو ان الفاظ میں بیان کیا ۔ ” کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں کا انکار کرتے ہیں ۔ “ اور رسولوں کے درمیان تفریق کو یوں بیان کیا ۔ ” ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے ۔ “ اور ان دونوں فریقوں کے بارے میں کہا۔ (آیت) ” ان الذین یکفرون باللہ ورسولہ “۔ (4 : 150) (جو لوگ اللہ اور رسولوں سے کفر کرتے ہیں) اس طرح قرآن کے نزدیک اللہ اور رسولوں میں سے کسی کو ماننا اور کسی کو نہ ماننا بھی کفر ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک مستقل اکائی ہے اور اسکے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کئے جاسکتے ایمان کا پہلا قدم اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہے ۔ اللہ کو وحدہ لا شریک تسلیم کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کیلئے جو نظام زندگی اور جو دین پسند فرمایا ہے وہ بھی ایک ہے جو عقیدہ توحید کی اساس پر ہے ۔ جو رسول اس دین کو لیکر آتے رہے ہیں وہ بھی ایک ہیں اس لئے کہ یہ سب اسی کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ خود سے نہیں آئے نہ وہ اللہ کے ارادے اور اس کی وحی سے علیحدہ رہے ہیں ۔ ان کا موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اس لئے ایک پوری اکائی کی تحلیل اور تجزیہ نہیں ہو سکتا ۔ جو بھی ایمان کی اس وحدت اور اکائی میں فرق کرے گا وہ کفر مطلق کا ارتکاب کرے گا اگرچہ وہ یہ خیال کرتا ہو کہ بعض اجزاء پر ایمان لایا ہے اور بعض سے کفر کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی جزاء اللہ کے نزدیک یہ ہوگی کہ انہیں تو ہیں آمیز عذاب دیا جائے گا ایسے سب لوگوں کو ۔ (آیت) ” اولئک ھم الکفرون حقا ، واعتدنا للکفرین عذابا مھینا “۔ (4 : 151) (وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کیلئے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کردینے والی ہوگی ۔ ) کسی قسم کا تفرقہ جائز نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے ہاں تمام رسولوں کی عقیدت اور احترام پایا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے نزدیک تمام سماوی ادیان برحق ہیں ‘ ہاں اگر انکے اندر تحریف کردی جائے تو پھر وہ دین نہ رہیں گے اگرچہ ان ادیان کے بعض حصے اپنی اصل شکل میں موجود ہوں ‘ اس لئے کہ دین ایک ہی وحدت ہے اور اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ دین میں ایک الہ ہے ‘ اس ایک الہ نے لوگوں کیلئے ایک ہی دین تجویز کیا ہے ۔ یہ دین ان کی زندگی کا ایک مکمل منہاج ہے ۔ اللہ نے رسولوں کو بھیجا ہے تاکہ یہ تمام رسول اس منہاج اور اس نظام کی طرف لوگوں کو بلائیں ۔ مسلمانوں کے تصور میں قافلہ ایمان ایک دوسرے کے ساتھ قطار کی شکل میں جڑا ہوا ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ‘ اور حضرت محمد ﷺ اس قافلے کی قیادت فرما رہے ہیں جن کے درمیان ان کی بھائی مزید ایسے رسول بھی گزرے ہیں جن کے نام یہاں مذکور نہیں ۔ ان تمام رسولوں کا نسب نامہ اسی قافلے کے ساتھ ملتا ہے ۔ یہ سب ایک ہی عظیم امانت کے حامل رہے ہیں اور یہ تمام رسول ایک ہی سچائی وبھلائی کے وارث رہے ہیں جس کا سلسلہ طویل اور مبارک ہے ۔ اس سلسلے میں کوئی تفرقہ نہیں ہے ‘ اس میں سے کوئی رسول علیحدہ نہیں ہے اور اس سلسلے کے درمیان کوئی انقطاع نہیں ہے اور دین حق کی وراثت کا مصدر یہی لوگ رہے ہیں ان رسولوں کے سلسلے سے ہٹ کر جو دین اور جو نظریہ بھی ہے وہ باطل اور گمراہی ہے ۔ یہ ہے اسلامی نظریہ حیات جس کے سوا اللہ تعالیٰ کو کوئی دین اور نظریہ حیات قبول نہیں ہے اور یہ ہیں اہل اسلام جو اپنے اعمال پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجروثواب کے مستحق ہیں اور اس کی جانب سے رحمت اور مغفرت کے بھی مستحق ہیں اگر ان سے اپنی زندگی میں کوئی قصور سرزد ہوگیا ۔
Top