Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 41
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ۠   ۧ
اِنَّآ اَنْزَلْنَا : بیشک ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے بِالْحَقِّ ۚ : حق کے ساتھ فَمَنِ : پس جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَلِنَفْسِهٖ ۚ : تو اپنی ذات کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوتا ہے عَلَيْهَا ۚ : اپنے لیے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : آپ عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : نگہبان
: (اے نبی ﷺ ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کردی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا) اور جو بھٹکے گا اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہوگا ، تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو
آیت نمبر 41 تا 44 انآ انزلنا علیک الکتٰب للناس بالحق (39: 41) ” ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کی ہے “۔ اس کتاب کی ماہیت سچائی ہے۔ یہ جو طرز زندگی اور منہاج حیات انسان کو عطا کرتی ہے ، وہ برحق ہے۔ اس کا قانون برحق ہے اور یہی وہ سچائی ہے جس سے زمین و آسمان قائم ہیں اور وہ نظام جو اس کتاب نے انسانوں کے لئے وضع کیا ہے اور وہ ضابطہ جو اللہ نے اس کائنات کے چلانے کے لیے وضع کیا ، دونوں حق ہیں اور باہم ہم آہنگ اور متوافق ہیں۔ یہ سچائی لوگوں کے لیے نازل کی ہے کہ لوگ اس سے ہدایات لے اس کے مطابق زندگی بسر کریں اور آپ اس حق کے مبلغ ہیں۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ وہ اپنے لیے راہ ہدایت کا انتخاب کرتے ہیں یا راہ ضلالت کا۔ جنت کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں یا جہنم کی آگ اختیار کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنے نفس کو جدھر چاہے لے جائے۔ نہ آپ ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ حوالدار۔ فمن اھتدی۔۔۔ بوکیل (39: 41) ” اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا تو اپنے لیے کرے گا ، اور جو بھٹکے گا تو اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہوگا۔ تم ان کے ذمہ راد نہیں ہو “۔ ان کا ذمہ دار اللہ ہے۔ وہ بیداری میں بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور سوتے میں بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اپنے تمام حالات میں وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے ، ان کے اندر تصرف فرماتا ہے۔ اللہ یتوفی۔۔۔ اجل مسمی (39: 43) ” وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے ، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے ، اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے “۔ اللہ تعالیٰ تمام مردوں کی روحیں ان کے وقت مقرر کے مطابق قبض کرتا ہے۔ اس سے قبل اللہ ہر شخص کی روح کو سونے کی حالت میں بھی قبض کرتا ہے۔ اگرچہ وہ شخص مردہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی روح اس وقت بھی قبض ہوتی ہے ، ایک وقت مقررہ تک کے لیے۔ اگر سوتے ہی میں اس کا وقت مقرر آجائے تو پھر وہ شخص جاگ نہیں اٹھتا۔ اگر وقت مقرر نہ آیا تو روح واپس بھیجی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جاگ اٹھتا ہے۔ لہٰذا تمام نفوس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں ، سوتے میں بھی اور جاگتے میں بھی۔ ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون (39: 42) ' اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو فکر کرتے ہیں “۔ غرض یہ لوگ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ ہی ان کا ذمہ دار ہے اور آپ ان کے انجام کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت پاتے ہیں تو اپنے لیے پاتے ہیں اور اگر وہ گمراہی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو اپنے لیے کرتے ہیں۔ محاسبہ سب کے لیے ہے۔ کوئی بھی مہمل چھوڑ دیا جانے والا نہیں ہے۔ لہذا ان کو اپنے آپ کو چھڑانے کی فکر کرنی چاہئے۔ ام اتخذوا۔۔۔۔۔۔ الیه ترجعون (39: 43 تا 44) ” کیا اس خدا کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفع بنارکھا ہے ؟ ان سے کہو ، کیا وہ شفاعت کریں گے خواہ ان کے اختیار میں کچھ ہو نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی یہ ہوں ؟ کہو ، شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔ پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو “۔ یہ ان کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ وہ لوگ یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ ملائکہ کی بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ ملائکہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں گے۔ اولو۔۔۔۔ یعقلون (39: 43) ” خواہ ان کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ سمجھتے بھی کچھ نہ ہوں “۔ اور اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ سفارش تو اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جس کو سفارش کی چاہے اجازت دے دے۔ لیکن اگر اللہ کسی کو سفارش کی اجازت دے تو ہمارے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ ہم اسے اللہ کا شریک بنالیں۔ له ملک السمٰوٰت والارض (39: 44) ” زمین و آسمان کی بادشاہی کا وہی مالک ہے “۔ اس بادشاہی میں کوئی اس کی ملکیت اور ارادہ کے دائرہ سے باہر نہیں ہے۔ سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اس سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور سب نے آخر کار اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ نظریہ اور موقف کہ اللہ وحدہ بادشاہ ہے۔ وہ تمام اختیارات کا مالک ہے اور قہار ہے اور جس کا خلاصہ کلمہ توحید ہے ، اس سے وہ کس قدر بدکتے ہیں اور کلمہ شرک کے لیے یہ کس قدر خوش ہوتے ہیں ، حالانکہ کلمہ کا انکار ان کی فطرت بھی کرتی ہے۔ اور ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات بھی کرتی ہے۔
Top