Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 9
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا۠   ۧ
اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کیسی ضَرَبُوْا : انہوں نے بیان کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں (باتیں) فَضَلُّوْا : سو وہ بہک گئے فَلَا : لہٰذا نہ يَسْتَطِيْعُوْنَ : پاسکتے ہیں سَبِيْلًا : کوئی راستہ
دیکھو کیسی کیسی حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کررہے ہیں ‘ ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات ان کو نہیں سوجھتی
انظر کیف ضربوا لک الامثال (25 : 9) ” دیکھو ‘ یہ تمہارے بارے میں کیا حجتیں کرتے ہیں “۔ آپ ﷺ کو سحرزدہ لوگوں کے ساتھ مشابہ قرار دیتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی طرف سے باتیں بناتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں جو آپ لکھواتے ہیں۔ یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ اور سچائی سے دور کی باتیں ہیں۔ یہ سچائی کے تمام راستوں سے بےراہ ہوگئے ہیں۔ اور اب ان کے اندر ہدایت کی راہ پانے کی استطاعت ہی نہیں رہی۔ فلایستطیعون سبیلا (25 : 9) اب یہ بحث یوں ختم کی جاتی ہے کہ یہ لوگ جو تجاویز دیتے ہیں وہ احمقانہ ہیں۔ ان کے تصورات دنیا پرستی کے محدود دائرے میں محدود ہیں۔ یہ کنوئیں کے مینڈک کی طرح اپنی دنیا ہی میں مگن ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ رسالت ﷺ کے مقابلے میں چند ٹکٹوں کی قیمت زیادہ ہے لہٰذا رسول ﷺ کے پاس ٹکے ہونے چاہیں۔ اس پر ہدایت الہٰی کے بجائے خزانہ عامرہ نازل ہونا چاہیے تھا ‘ یا اس کے مقابلے میں ایک باغ اس کے پاس ہونا چاہیے تھا جس میں وہ صبح و شام کھاتا ۔ یہ تھی ان کی سوچ ‘ لیکن اگر اللہ چاہتا اور اس کی اسکیم یہ ہوتی تو وہ اپنے رسول ﷺ کو اس سے بھی زیادہ دیتا جس کا یہ کہتے ہیں۔ (تبرک الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصورا (25 : 1) ” بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے۔ بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور بڑے بڑے محل “۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ تھی کہ آپ کو ایسے باغات و محلات سے بھی زیادہ قیمتی دولت دے۔ یعنی باغات اور محلات دینے والے کے ساتھ تعلق اور دوستی۔ یہ شعور کہ محمد اس کی نگرانی میں ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں اس کی ہدایت اور توفیق کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اور آپ ﷺ اس مٹھاس کو ہر وقت چکھتے رہتے ہیں۔ یہ روحانی غذا آپ کو ہر وقت دی جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں جسمانی غذا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دنیا کا ما ومنال خواہ کم ہو یا زیادہ ‘ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اے کاش کہ وہ اس فرق کو سمجھتے کہ آپ کو جو دولت دی گئی ہے وہ کس قدر قیمتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں دنیا کے باغ دراغ کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک تو قرآن نے خدا اور رسول اللہ ﷺ پر ان کے اعتراضات کو نقل فرمایا ‘ اب بات ان کے فکر و نظر کے فساد کے ایک دوسرے میدان میں داخل ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ضلال بعید میں مبتلا ہیں اور یہ تو قیام قیامت کے منکر ہیں۔ یہ چونکہ قیامت کی جوابدہی کے منکر ہیں اس لیے یہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں۔ ظلم کرتے ہیں افتراء باندھتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انکو قیامت کی جوابدہی کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اگر ان کے دل میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے کا ڈر ہوتا تو وہ یہ افتراء پر دازیاں ہر گز نہ کرتے۔ یہاں اب قیامت کے مناظر میں سے ایک ایسا منظر لایا جاتا ہے جو سخت سے سخت دل کو بھی ریزہ ریز کردیتا ہے۔ جسک و دیکھ کر پوری طرح بجھے ہوئے دلوں میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔ اور وہ بھی اس دن کی ہولناکی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کافروں کے لیے یہ ہولناکی اور اہل ایمان کے لیے یہ حسن انجام۔
Top