Fi-Zilal-al-Quran - Al-Furqaan : 55
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَ لَا یَضُرُّهُمْ١ؕ وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا
وَيَعْبُدُوْنَ : اور وہ بندگی کرتے ہیں مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا مَا : جو لَا يَنْفَعُهُمْ : نہ انہیں نفع پہنچائے وَلَا يَضُرُّهُمْ : اور نہ ان کا نقصان کرسکے وَكَانَ : اور ہے الْكَافِرُ : کافر عَلٰي : پر۔ خلاف رَبِّهٖ : اپنا رب ظَهِيْرًا : پشت پناہی کرنیوالا
” اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں ، نہ نقصان اور اس سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔ “
اس فضائے تخلیق اور تخلیق کے اندر پھر تقدیر اور اس منظر کے سامنے کہ آسمانوں سے پانی برسنا ہے اور اس سے اور پھر انسانی نطفے کے پانی سے کیا کچھ پیدا ہوتا ہے اور کیا کیا خصوصیات کن کن جینز میں رکھی گئی ہیں کہ ایک خلیے سے ایک مرد تشکیل پاتا ہے اپنے تمام موروثی خصائص کے ساتھ ، اور پھر ایسے ہی ایک خلیے سے ایک عورت پیدا ہوتی ہے اپنے تمام خصائص کے ساتھ۔ ایسے قادر مطلق کی قدرت کی بوقلمونیوں کو دیکھتے ہوئے بھی جو لوگ غیر اللہ کی بندگی کرتے ہیں وہ نہایت ہی عجیب و غریب ہیں۔ فطرت سلیمہ اس بات سے اباء کرتی ہے کہ ایسا فعل کوئی معقول انسان کرسکتا ہے ۔ چناچہ اس مسئلے کو یہاں لیا جاتا ہے۔ ویعبدون ……ظھیراً (55) ” یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ، ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔ “ یعنی تمام کافر جن میں مشرکین مکہ بھی شامل ہیں ، وہ اپنے اس رب کے خلاف محاذ میں شامل ہو کر برسر پیکار ہیں جبکہ اللہ نے ان کو اور تمام دوسرے کافروں کو پیدا کیا ہے۔ یہ کس طرح اللہ کے خلاف ، محاذ میں شامل ہو کر اللہ کے ساتھ جنگ کرسکتے ہیں ؟ انسان ، یہ کمزور مخلوق خالق کائنات کے خلاف کس طرح جنگ کرسکتا ہے ؟ یا اللہ کے خلاف محاذ آرائیکس طرح کرسکتا ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ یہ کافر اللہ کے دین کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اللہ نے جو منہاج حیات دیا ہے وہ اس کے خلاف برسر جنگ ہیں۔ البتہ انداز بیاں یوں اختیار کیا ہے کہ ان کافروں کی یہ جنگ اور محاذ آرائی نہایت ہی مکروہ نظر آئے۔ یوں کہ دیکھوں فلاں اپنے مالک آقا اور خالق کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور وہ جب اللہ کے رسول ، آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں تو وہ گویا اللہ کا انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کی جنگ بھی اللہ کے خلاف ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مطمئن فرماتا ہے اور ان کے بار خاطر کو کم کرتا ہے ، غبار خاطر کو دور کرتا ہے اور حضور اکرم کو یہ احساس اور شعور دلاتا ہے کہ آپ فقط تبلیغ رسالت کے سلسلے میں اپنا فریضہ ادا کردیں اور اس سلسلے میں کافر جو دشمنی اور جو عناد کرتے ہیں ، اس کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ اللہ پر توکل کریں ، اللہ خود ان کفار سے نمٹ لے گا۔ یہ دراصل اللہ کے دشمن ہیں اور اللہ اپنے بندوں کے جرائم سے اچھی طرح واقف ہے۔
Top