Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ : کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يُقْرِضُ : قرض دے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : اچھا فَيُضٰعِفَهٗ : پس وہ اسے بڑھا دے لَهٗٓ : اس کے لیے اَضْعَافًا : کئی گنا كَثِيْرَةً : زیادہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقْبِضُ : تنگی کرتا ہے وَيَبْصُۜطُ : اور فراخی کرتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
تم میں سے کون ہے ، جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے ۔ گھٹانا بھی اس کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔ “
جس طرح موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگر اللہ نے زندگی لکھی ہوئی ہے تو موت آہی نہیں سکتی ، اسی طرح مال انفاق فی سبیل اللہ سے نہیں جاتا ۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نام قرض حسن ہوتا ہے ۔ اللہ اس کا ضامن ہے اور وہ اس قرض کو بڑھا چڑھا کر کئی گنادے گا۔ دنیا میں بھی ایسے شخص کا مال بڑھے گا اسے سعادت و برکت نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی سکون اور راحت نصیب ہوگی ۔ اور آخرت میں تو ایسے شخص کے لئے بیشمار سازوسامان اور انعام واکرام ہوگا۔ اسے اللہ کا قرب نصیب ہوگا اور اللہ راضی ہوگا۔ انسان حرص اور بخل کی وجہ سے غنی نہیں ہوتا۔ غنا وفقر تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انفاق اور خرچ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے : وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُط ” گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ۔ “ اور آخر کار تم سب نے اللہ کی طرف پلٹ کرجانا ہے ۔ جب تم چار وناچار اللہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اس دنیا سے رخصت ہوگے ، تو اس وقت تمہیں مال و دولت سے کیا فائدہ ہوگا : وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ” اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔ “ اور اگر اسی کی طرف بہرحال جانا ہے تو پھر موت سے ڈرنا کیا ؟ جزع وفزع سے کیا حاصل ؟ نہ موت کا ڈر اس لئے کہ اللہ کی طرف تو جانا ہے ۔ نہ فقر ومسکنت کا ڈر ، اس لئے کہ بہرحال اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی ہے۔ تو پھر مومنین کو چاہئے کہ وہ اللہ کی راہ میں زور وشور کے ساتھ جہاد شروع کریں ۔ وہ جان بھی پیش کریں اور مال بھی ۔ وہ یقین کرلیں کہ اس دنیا میں ان کے گنے چنے سانس ہیں ۔ زندگی محدود ہے ۔ ان کا رزق مقرر ہے ۔ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ جرأت وبہادری کی زندگی گزاریں ۔ شریفانہ اور آزادانہ زندگی بسر کریں ۔ آخر کار جانا انہوں نے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے ہے ۔ ان آیات کی تشریح ، ایمانی ہدایات کی توضیح اور تربیتی ہدایات کے اظہار کے بعد مناسب ہے کہ قرآن مجید کے حسن ادا اور اظہار خیال کی فنی خوبیوں کو بھی کچھ وقت دیں ۔ مناسب نہیں کہ یوں ہی گزرجائیں أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ” کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے ۔ انداز تعبیر ایسا ہے ، جیسا کہ یہ لوگ ہزارہا کی تعداد میں صفیں باندھیں کھڑے ہیں اور ان کا معائنہ ہورہا ہے۔ (جس طرح گارڈ آف آنر کا معائنہ ہوتا ہے) ، قرآن نے صرف دو الفاظ استعمال کرکے ان لوگوں کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے أَلَمْ تَرَکیا آپ نے نظر نہیں ڈالی ۔ ان دو الفاظ کے سوا ، کوئی اور انداز تعبیر وہ نقشہ نہیں کھینچ سکتا تھا جو ان دو الفاظ نے پردہ تخیل پر منقش کردیا ۔ یوں لگتا ہے کہ گویا یہ لوگ صف بستہ کھڑے ہیں اور ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ گھروں سے نکل پڑے ہیں ، ڈرے سہمے ، پھٹی پھٹی نظروں سے ادہر ادہر دیکھ رہے ہیں ۔ اب قرآن مجید صرف ایک لفظ استعمال کرتا ہے اور یہ تمام لوگ میدان معائنہ کی بجائے اب میدان مقتل میں پہنچ جاتے ہیں۔ گویا گارڈ آف آنر کیا معائنہ کرنے والا حاکم مطلق ایک کاشن دیتا ہے مُوتُوا ” مرجاؤ “ اور نقشہ بدل جاتا ہے ۔ اس لفظ سے احساس دلایا جاتا ہے کہ موت کے سامنے بند نہیں باندھے جاسکتے ۔ تمہارا طرز عمل غلط ہے ۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ کے فیصلے کا کاشن کی طرح نافذ ہوتے ہیں ۔ ادہر لفظ نکلتا ہے ، ادہر اس پر عمل ہوجاتا ہے۔ جس طرح پریڈ کے میدان میں ہوتا ہے۔ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ” پھر ان کو زندہ کردیا۔ “ کیونکر ؟ اس کی کوئی تفصیل یہاں نہیں ۔ اللہ قادر ہے ، مالک ہے ۔ موت وحیات کی زمام اس کے ہاتھ میں ہے ۔ بندوں کے ہر معاملے میں خود وہ متصرف ہے ۔ اس کا کوئی ارادہ مسترد نہیں ہوسکتا۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ انداز تعبیر ہی بتا دیتا ہے کہ اللہ کے ہاں موت وحیات کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں اور امر الٰہی کے نفاذ کا منظر کیا ہوتا ہے۔ یوں جیسے پریڈ کا میدان اور کاشن پر کاشن ۔ اوپر ہمارے پردہ تخیل پر موت وحیات کا منظر تھا۔ روح کو مٹھی میں لے لینے ، قبض کرنے اور پھر یکلخت اسے آزاد کرنے کے مناظر تھے ۔ اس کے متصلاً مابعد جب رزق کا معاملہ آتا ہے تو قرآن مجید اس کے لئے قبض اور بسط کے الفاظ استعمال کرتا ہے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ ” اللہ مٹھی بند کرتا ہے اور کھولتا ہے۔ “ تنگی رزق وفراخی رزق کی یہ تعبیر اس لئے اختیار کی تاکہ قبض روح اور اعادہ روح کے سابقہ مضامین سے متناسق الفاظ آجائیں ۔ یہ دونوں جگہ الفاظ کا اختصار ، معانی کا استحضار قرآن مجید کا عظیم الشان اعجاز ہے ۔ ایک طرف عجیب منظر کشی ہے ۔ دوسری طرف استعمال الفاظ میں عجیب تناسق اور ہم آہنگی ہے ۔ معانی چلتے پھرتے نظرآتے ہیں اور حسن ادا کی تو کوئی انتہاء نہیں ہے ۔ اب قرآن مجید دوسرا تجربہ امت مسلمہ کے سامنے رکھتا ہے ۔ اس کے کردار بنی اسرائیل ہیں ۔ واقعہ حضرت موسیٰ کے زمانہ مابعد کا ہے :
Top