Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ، میں اس کی پکار کو سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔ “
” میں قریب ہوں۔ “ پکارنے والا جب بھی مجھے پکارے میں اس کی پکار سنتا ہوں۔ کیا نرمی ہے ؟ ذرا نظرکرم ملاحظہ ہو ؟ الفاظ و معانی کی صفائی دیکھو ! انس و محبت دیکھو ! روزے کی تکالیف کیا ۔ بلکہ تمام عبادات کی تکالیف مشقتیں اس قریب و محبت کے مقابلے میں کہاں رہتی ہیں ؟ اس انس اور محبت کے ٹھنڈے سایے میں احساس مشقت کہاں باقی رہتا ہے ؟ اس آیت کے لفظ لفظ پر انس و محبت کی تازہ شبنم ہے ۔” میرے بندے ! اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں تو ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں ۔ “ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ عجیب آیت ہے یہ ! دل مومن کو میٹھی تازگی ، خوشگوار محبت ، پرسکوں ورضامندی اور یقین محکم سے بھردیتی ہے ۔ مومن تسلیم ورضا کی جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔ اسے پر شفقت وصال نصیب ہوتا ہے ۔ وہ پرامن پناہ گاہ اور پرسکون آرام گاہ میں پہنچ جاتا ہے انس و محبت کی اس فضا میں پرجوش باریابی کے اس ماحول میں اور الہامی قبولیت کے اس پس وپیش میں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان اور یہ اطاعت انہیں راہ ہدایت اور راہ مستقیم پر پہنچادے ۔ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ” لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں شاید وہ راست پالیں ۔ “ تسلیم ورضا اور ایمان باللہ کا آخری فائدہ بھی بندوں کا ہے یعنی ہدایت و راہنمائی اور اصلاح حال ۔ خود اللہ کو ایمان اور بندگی سے کیا فائدہ ۔ وہ تو دونوں جہانوں سے مستغنی ہے ۔ غرض ہدایت وہی ہے جو اللہ پر ایمان اور اللہ کی اطاعت پر مبنی ہو۔ صرف اسلامی نظام ہی انسان کو راہ ہدایت دے سکتا ہے اور اسلامی نظام ہی صحیح راہ ہے ۔ اس کے علاوہ تمام نظام عین جاہلیت ہیں۔ عین حماقت ہیں ۔ کوئی حق پسند ان پر راضی نہیں ہوسکتا ۔ نہ ان نظاموں کے ذریعے انسان راہ ہدایت پاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری بھی تب ہی ممکن ہے کہ جب لبیک کہنے والا راہ ہدایت پر ہو ۔ متلاشیان راہ حق کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکاریں ، لیکن قبولیت دعا میں جلدی نہ کریں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکیمانہ مصلحتوں کے مطابق اور ہر پکار کا جواب اپنے وقت اور مناسب انداز میں دیتے ہیں ۔ ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ نے ابن میمون کی حدیث اپنی سند کے ساتھ حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ کے سامنے اگر کوئی ہاتھ پھیلائے اور اللہ سے خیر کا طلب گار ہو تو اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کو نامراد لوٹانے سے بہت حیاء کرتے ہیں ۔ “ ترمذی نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کے ذریعہ سے ابن ثوبان کی حدیث اپنی سند سے اور اسی حدیث کو عبداللہ بن امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبادہ ابن الصامت سے روایت کیا ہے ۔ دونوں نے کہا کہ رسول ﷺ نے فرمایا :” اس روئے زمین پر جو شخص بھی اللہ کو پکارے اور کوئی خیر طلب کرے ، اللہ تعالیٰ یا تو اس کو وہ چیز عطا کردیتا ہے یا اس مطلوب کے مطابق اس سے کوئی درپیش آنے والی مصیبت کو دور کردیتا ہے بشرطیکہ وہ کسی بری چیز یا قطع صلہ رحمی کا طالب نہ ہو۔ “ بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہاری دعا قبول نہ ہوگی بشرطیکہ تم نے جلد بازی نہ کی ۔ مثلاً کوئی کہے :” میں نے تو اللہ کو بہت پکارا مگر میری دعا قبول نہ کی گئی۔ “ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بندے کی دعا ضرور قبول ہوگی بشرطیکہ وہ گناہ قطع رحمی کا طلب گار نہ ہو اور جلد بازی نہ کرے ۔ صحابہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ! جلد بازی کیسے ہوتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ کہے کہ میں نے بار بار اللہ کو پکارا ، مجھے یقین نہیں ہے کہ میری دعاق قبول ہوگی ۔ یوں وہ دعاچھوڑ کر خسارے میں پڑجائے۔ “ روزہ دار تو ہوتا ہی مستجاب الدعوات ہے ۔ امام ابوداؤد (رح) اپنی مسند میں ، اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ ” افطار کے وقت ہر روزہ دار ایک دعا کی قبولیت کا حق دار ہوتا ہے۔ “ چناچہ عبداللہ بن عمر ؓ جب بھی افطار کرتے تو اہل خاندان کو بلاتے اور دعا کرتے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن عمررضی اللہ سے روایت کی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ہر روزہ دار کے لئے افطار کے وقت ایک دعا کی قبولیت کا حق ہے۔ “ مسند احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تین افراد ایسے ہیں جن کی دعا مسترد نہیں ہوتی ۔ امام عادل ، روزہ دار یہاں تک کہ افطار کرے اور مظلوم کی پکار ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بادلوں کے اوپر اٹھائے گا اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا :” میری عزت کی قسم میں ضرور تمہاری امداد کروں گا اگرچہ قدرے دیر سے ۔ “ یہی وجہ ہے کہ ذکر صیام میں دعا کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ اب اہل ایمان کے لئے رواے کے ضروری احکام بیان کردیئے جاتے ہیں ۔ روزہ دار کو اس بات کی اجازت مل جاتی ہے کہ ماہ رمضان میں مغرب سے لے کر طلوع فجر تک اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہیں ، اسی طرح اس عرصہ میں کھانا بھی کھاسکتے ہیں ۔ روزے کا وقت بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک ہے ۔ اسی طرح مدت اعتکاف کے دوران بیویوں کے پاس جانے کا حکم بھی دے دیا جاتا ہے ۔
Top