Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا
: چند دن
مَّعْدُوْدٰتٍ
: گنتی کے
فَمَنْ
: پس جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مَّرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی
مِّنْ
: سے
اَ يَّامٍ اُخَرَ
: دوسرے (بعد کے) دن
وَعَلَي
: اور پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُطِيْقُوْنَهٗ
: طاقت رکھتے ہیں
فِدْيَةٌ
: بدلہ
طَعَامُ
: کھانا
مِسْكِيْنٍ
: نادار
فَمَنْ
: پس جو
تَطَوَّعَ
: خوشی سے کرے
خَيْرًا
: کوئی نیکی
فَهُوَ
: تو وہ
خَيْرٌ لَّهٗ
: بہتر اس کے لیے
وَاَنْ
: اور اگر
تَصُوْمُوْا
: تم روزہ رکھو
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہو
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ۔ اگر تم میں کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو ، تو دوسرے دنوں میں اتنی تعداد پوری کرلے اور جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں (پھر بھی نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے ، تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے ۔ لیکن اگر تم سمجھو ، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “
بات کا دوسرا رخ دیکھئے ، کہا جاتا ہے ! یہ تو چند دن ہیں پوری عمر کے روزے تو فرض نہیں کئے گئے ۔ تمام زمانے کے لئے تو فرض نہیں ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ کہ بیمار اس وقت تک مستثنیٰ جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائیں ۔ مسافروں پر اس وقت تک لازم نہیں جب تک گھر نہ لوٹ آئیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سہولت اور تخفیف خاص رعایت دی گئی ہے ۔ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ” چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ، اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے ۔ “ سفر اور مرض کے اعتبار سے آیت کا مفہوم عمومیت کا حامل ہے ۔ اسے محدود نہ کیا جائے ۔ بیماری کی نوعیت کیسی بھی ہو ، جس قسم کا سفر درپیش ہو روزہ قضا کرنا جائز ہے ۔ لیکن سفر ختم ہونے کے بعد اور بیماری دور ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے رکھنے ضروری ہیں۔ آیت میں بیماری کی شدت اور سفر کی مشکلات کو اس رخصت کا سبب نہیں بنایا گیا ۔ صرف ” مرض “ اور ” سفر “ کا علی العموم ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے لئے مشکلات پیدا نہ ہوں اور سہولت رہے ۔ اب اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مرض اور صرف سفر کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ کوئی قید نہیں لگائی ؟ یہ صرف اللہ جانتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ بیماری اور سفر میں کچھ ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہوں جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ ہوسکتا ہے کہ سفر اور بیماری میں کچھ ایسی مشکلات ہوں جن کا احساس ہمیں نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حکم کی اصل علامت کو ظاہری نہیں سمجھا تو ہمیں اس بارے میں تاویلات کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال ہمیں ان کی حکمت معلوم ہو یا نہ ہو ۔ یہ عقیدہ ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی حکمت ومصلحت ضرور ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ رخصت مرض وسفر کی اس تعبیر سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو ہر وقت دین میں رخصت و سہولت کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ کیا کسی ادنیٰ سبب بلاوجہ ہم فرض عبادات کو ترک کردیں ؟ یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے سختی کرکے اس رخصت سے استفادہ پر قیود وشروط عائد کی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ استدلال ایک ضعیف استدلال ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اور صرف اس استدلال کی بناپر ایک مطلق آیت کو مقید کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ لوگوں کو زنجیروں میں باندھ کر ان کو عبادات پر مجبور کرنا اسلام کی مستقل پالیسی نہیں ۔ اسلام تقویٰ کے ذریعہ عبادات میں کشش پیدا کرنا مناسب سمجھتا ہے۔ روزہ تو ہے ہی وہ عبادت جس کا مقصد صرف تقویٰ ہے ۔ جس شخص کی حالت یہ ہے کہ وہ رخصتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر عبادات سے پیچھا چھڑاتا ہے ، وہ تو پہلے ہی بھلائی سے محروم ہے ۔ وہ اگر روزہ رکھ بھی لے تو وہ مقصد پورا نہ ہوگا جو فرضیت صیام کا اصل مطالبہ ہے۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ دین لوگوں کا ہے یا اللہ تعالیٰ کا ؟ دین اللہ کا ہے اور وہ رخصت اور نرمی اور عزیمت وتشدد کے مقامات کو خوب جانتا ہے ۔ بعض اوقات رخصت سے ایسے مقاصد کا حصول پیش نظر ہوتا ہے جو رخصت کے بغیر کسی طرح حاصل نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو رعایتیں دی ہیں ، انہیں چاہئے کہ وہ ان سے استفادہ کریں ۔ خصوصاً ایسے دور میں جب مسلمانوں کی اخلاقی اور دینی حالت تباہ وبرباد ہوچکی ہو تو ایسے حالات میں احکام میں تشدد ، اصلاح احوال کے لئے مفید نہیں ہوتا ، ضرورت اس بات کی ہے کہ نرمی اور آسانی سے لوگوں کو اخلاقی تربیت دی جائے ، اور ان کے دلوں اور ان کی روح میں خوف خدا کو نئے سرے سے زندہ کیا جائے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر میں کہوں گا کہ امت کے عمومی فساد کے وقت احکام میں تشدد کرنا غیر موثر علاج ہے ۔ اس سے ذرائع اصلاح بند ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عبادات کے فرائض اور معاملات کے احکام میں بہت بڑا فرق ہے ۔ عبادات میں معاملہ صرف بندے اور اس کے رب کا ہوتا ہے۔ اس میں عوام الناس کا براہ راست فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ معاملات میں شریعت معاملے کے ظاہری پہلو پر نظر رکھتی ہے ۔ رہی عبادات تو ان کی ظاہری صورت اس وقت تک مفید نہیں ہوتی جب تک ان کی تہہ میں تقویٰ نہ ہو ۔ اگر دل میں تقویٰ ہو تو کوئی شخص ادھر ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔ اور ایک متقی شخص صرف اس رخصت سے فائدہ اٹھائے گا جس پر اس کا دل مطمئن ہوگا کہ رخصت سے فائدہ اٹھانے ہی میں اللہ کی رضا اور اطاعت ہے ۔ عبادات کے احکام میں سختی کرنا یا تنگی پیدا کرنے کی سعی کرنا ، یعنی اللہ تعالیٰ نے جن احکام کو عام چھوڑا ہے ، ان پر قیود کا اضافہ کرنا ، بعض اوقات عوام کے لئے سخت مشکلات تو پیدا کردیتا ہے لیکن اس سختی کے نتیجے میں کج رو افراد میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ہر حال میں بہتر رویہ یہ ہے کہ ہم معاملات کو اس طرح لیں جس طرح اس دین میں اللہ تعالیٰ نے طے کردیئے ہیں ۔ رخصتوں اور عزائم میں جو حکمتیں ہیں ان کے متعلق ہم سے اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس نکتے پر جو کچھ کہہ دیا گیا وہ کافی وشافی ہے ۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ حالات سفر کے بارے میں جو متعدد احادیث مروی ہیں ، وہ سب یہاں نقل کردیں۔ ان میں سے بعض ایسی ہیں جن میں افطار کی طرف میلان جاتا ہے ۔ بعض ایسی ہیں جن میں روزہ توڑنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ان سب روایات پر غور کرنے سے وہ نقشہ ذہن نشین ہوجاتا ہے ، جس پر صحابہ کرام کا تعامل تھا ۔ متاثرین فقہاء نے جو سختیاں کی ہیں ان سے پہلے اس معاملے میں سلف صالحین اور صحابہ کرام ؓ کا طرز عمل بمقابلہ متاخرین فقہاء اور ان کے فقہی بحوث کے ، دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے زیادہ قریب تھا ۔ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں اور ان کے طرز عمل کے مطالعہ سے اسلامی نظریہ حیات اور اس کی خصوصیات کا ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ۔ 1 حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال ، ماہ رمضان میں ، جانب مکہ نکلے ۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھا ۔ جب آپ ﷺ ” کراع الغمیم تک پہنچے تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے اتنا اٹھا یا کہ لوگ دیکھ لیں ۔ اس کے بعد اسے نوش فرمایا۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ ” بعض لوگ تو روزے سے ہیں۔ “ آپ نے فرمایا !” یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں۔ “ (مسلم۔ ترمذی) ۔ 2 حضرت انس ؓ سے روایت ہے :” ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ ہم میں سے بعض روزے سے تھے اور بعض نے افطار کیا تھا۔ سخت گرم دن تھا۔ ہم ایک جگہ ڈیرہ ڈالا۔ سب سے زیادہ سایہ اس کا تھا جس کے پاس چادر تھی ۔ ہم میں سے بعض ایسے تھے کہ وہ ہاتھ کا سایہ کرکے اپنے آپ کو سورج کی تپش سے بچاتے تھے ۔ روزہ دار تو گرپڑے اور جن کا روزہ نہ تھا وہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے خیمے لگائے ، جانوروں کو پانی پلایا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج تو افطار کرنے والوں نے ثواب لوٹ لیا۔ “ (بخاری ۔ مسلم۔ نسائی) ۔ 3 حضرت جابر ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول ﷺ سفر میں تھے ۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص کے پاس لوگ جمع ہیں اور اس پر سایہ کیا گیا ہے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ” اسے کیا ہوگیا ہے ؟ “ لوگوں نے بتایا ” یہ ایک روزہ دار ہے ۔ “ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا ” سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ “ (امام مالک ، امام بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد۔ نسائی) ۔ 4 عمرو بن امیہ ضمری رضی عنہ سے روایت ہے ۔ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ابو امیہ کھانے کا انتظار کرو ۔ “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول میں تو روزے سے ہوں ۔ “ آپ نے فرمایا تو پھر سنئے مسافر سے متعلق :” اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ معاف فرمایا ہے اور نصف نماز معاف فرمادی ہے۔ “ (نسائی) ۔ 5 انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے نماز کا ایک حصہ مسافر کے لئے معاف فرمادیا ہے ۔ سفر میں اس کے لئے افطار کی رخصت ہے۔ دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے بھی یہی رخصت ہے ، اگر بچے کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو ۔ “ (روایت سنن) ۔ 6 ضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں :” حمزہ بن عمر اسلمی رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ۔ یہ صاحب بہت روزے رکھتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا !” چاہو تو روزہ رکھو چاہو تو افطار کرو۔ “ ۔ 7 حضرت انس ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں :” ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم میں سے بعض روزے سے تھے اور بعض نے افطار کیا تھا۔ نہ روزہ دار افطار کرنے والے پر نکتہ چینی کرتا اور نہ افطار کرنے والا رواہ رکھنے والے کے طرز عمل کو معیوب سمجھتا۔ “ (روایت مالک ، مسلم ، بخاری ، ابوداؤد) ۔ 8 حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے فرماتے ہیں :” ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ماہ رمضان میں شدید گرمی میں نکلے ۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ہم تپش سے بچنے کے لئے سر پر ہاتھ رکھ دیتے ۔ ہم سب میں صرف رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابن رواحہ ؓ روزے سے تھے ۔ “ (بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد) ۔ 9 حضرت محمد بن کعب سے روایت ہے فرماتے ہیں :” میں رمضان میں انس بن مالک ؓ کے پاس آیا۔ آپ سفر پر نکلنے والے تھے ۔ سواری تیار تھی ۔ آپ نے سفر کا لباس پہن رکھا تھا ۔ آپ نے کھانا منگوایا اور کھایا۔ سب نے کہا : کیا یہ سنت ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” ہاں ! “ اس کے بعد سوار ہوگئے۔ “ (ترمذی) ۔ 10 عبید ؓ بن حبیرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :” میں رسول اکرم ﷺ کے ایک صحابی ابوبصرہ غفاری ؓ کے ساتھ کشتی میں تھا ، ماہ رمضان میں کشتی کو پانی میں ڈال دیا گیا اور کھانا ان کے قریب لایا گیا ۔ انہوں نے فرمایا :” قریب ہوجایئے ۔ “ میں نے عرض کیا :” آپ نہیں دیکھ رہے کہ مکانات ابھی نظر آتے ہیں ؟ “ انہوں نے کہا ” کیا تم رسول اللہ ﷺ کی سنت سے منہ پھیرتے ہو ؟ “ چناچہ انہوں نے بھی کھانا کھایا اور میں نے بھی کھایا۔ “ (ابوداؤد) ۔ 11 منصور مکی سے روایت ہے کہ حضرت دحیہ ابن خلیفہ ؓ اپنے نواح دمشق کے ایک گاؤں سے ماہ رمضان میں سفر پر نکلے ۔ سفر اس قدر تھا جس طرح فساط گاؤں سے عقبہ گاؤں ہے اور یہ فاصلہ بقدر تین میل ہے ۔ آپ نے افطار کیا ۔ آپ کے ساتھ بیشمار لوگوں نے افطار کرلیا ، لیکن بعض دوسرے لوگوں نے روزہ افطار کرنے میں کراہت محسوس کی ۔ جب وہ اپنے گاؤں لوٹے تو فرمایا :” اللہ کی قسم میں نے آج وہ بات دیکھی ہے جو کبھی دیکھنے میں نہ آئی تھی ۔ لوگوں کے ایک گروہ نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی سنت سے منہ پھیرلیا ہے۔ اے اللہ مجھے اپنی طرف اٹھالے ۔ “ (روایت ابوداؤد) ان تمام احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوشگوار اور آرام دہ سفر میں بھی رخصت افطار کو قبلیت حاصل ہوئی ہے بلکہ افطار کو ترجیح دی گئی ہے ۔ اور رخصت پر عمل کرنے کے لئے سفر کی مشقت یا دشواری کو ضروری شرط نہیں قرار دیا گیا جیسا کہ آخری دو احادیث میں سے خاص طور پر معلوم ہوتا ہے۔ آٹھویں حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اور عبیداللہ بن رواحہ ؓ کے سوا کسی اور کا روزہ نہ تھا ۔ لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں آپ ﷺ کی لئے بعض خصوصیات ایسی تھیں جو امت کے لئے نہ تھیں ۔ مثلاً ” لگاتار روزہ “ رکھنے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا حالانکہ آپ کبھی کبھی ” لگاتار “ روزے رکھتے تھے ۔ (” لگاتار “ کا مطلب یہ ہے ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے بلاافطار مل جائے) صحابہ کرام نے اس سلسلے میں آپ ﷺ سے بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا !” میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے میرا رب ہر وقت کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔ “ (بخاری ۔ مسلم) پھر پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ ﷺ نے افطار فرمایا اور جنہوں نے افطار نہ کیا تھا ان کے بارے میں فرمایا !” یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں۔ “ پھر یہ حدیث بھی سب احادیث سے متاخر کیونکہ یہ فتح مکہ کے سال کا واقعہ ہے ، چناچہ اس میں جو حکم ہے وہ سب سے آخر میں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسندیدہ عمل طرز عمل کیا ہے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پردہ احساس جو تصویر ابھرتی ہے ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷺ کے وقت کچھ مخصوص واقعات تھے ، جن میں ایک متعین حکم دینا ضروری تھا ۔ رسول ﷺ ملت اسلامیہ کی تربیت فرما رہے تھے ۔ آپ کو ایک زندہ اور متحرک صورت حال سے واسطہ تھا ۔ محض جامد اور غیر متحرک بتوں سے واسطہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایک عام موضوع کے متعلق جو احادیث وارد ہوتی ہیں ان میں احکام وہدایات میں تنوع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ احکام موقع ومحل کے مطابق دیئے جاتے ہیں ۔ تمام حالات و احادیث کو پیش نظر رکھ کر جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سفر میں روزے کے مقابلے میں افطار زیادہ افضل ہے اور اس میں کوئی قید نہیں ہے کہ عملاً مشقت موجود ہے یا نہیں ۔ رہی بیماری ، تو اس کے بارے میں قوال فقہاء کے علاوہ مجھے کچھ نہیں ملا۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ حالت ہے جس پر مرض اور بیماری کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ اس کی نوعیت ، اس کی مقدار اور اس کی شدت وغیرہ کی کوئی قید نہیں ہے ۔ صرف ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ بیماری اور سفر میں دن کے بدلے قضا کرنی ہوگی اور قضا لوٹانے میں بھی راحج مذہب یہ ہے کہ دنوں کی تعداد پوری کرنی ہے ۔ ضروری نہیں کہ روزے مسلسل ہوں۔ ان تفصیلات کا ذکر میں نے اس غرض سے نہیں کیا کہ میں فقہی اختلافات میں کوئی خاص دلچسپی رکھتا ہوں ۔ میر مقصد صرف اس بنیادی اصول کی وضاحت ہے جس کے مطابق اسلامی عبادات کو دیکھنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ کہ انسان کے ذہن میں ایک ایسی شعوری حالت پیدا ہوجائے ، جو انسان کے طرز عمل پر اثر انداز ہو ۔ یہی وہ حالت ہے جس کا اثر انسان کے طرز عمل پر ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی روحانی تربیت ہوتی ہے ۔ عبادات میں خشوع کا مطلب ہے دل کا اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ اور گداختہ ہوجانا اور پوری زندگی میں حسن و سلوک اور بہتر طرز عمل صرف اسی شعوری حالت کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں ۔ یہ تو ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اس دین کو اسی طرح قبول کریں جس طرح وہ ہے ۔ پورے فرائض و تکالیف کے ساتھ ۔ اطاعت و خشیت کے ساتھ ۔ اس کی عزیمتوں پر عمل کریں اور رخصتوں سے فائدہ اٹھائیں ۔ پوری ہم آہنگی سے ، اطمینان قلب کے ساتھ ، اس کی حکمتوں پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ خوفی کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے ۔ اس بحث کے بعد اب پھر سیاق کلام کو لیجیئے ! وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اور جو لوگ مشکل سے روزہرکھ سکتے ہوں تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے۔ لیکن تم اگر سمجھو ۔ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “ روزہ سنہ 2 ہجری میں جہاد کی فرضیت سے کچھ پہلے فرض ہوا۔ پہلے پہل روزہ کی تکلیف مسلمانوں کے لئے بہت ہی شاق تھیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے کھلی چھوٹ دے دی ، جو مشکل سے روزہ رکھ سکتے تھے ، (یطیقونہ کے معنی ہیں جو مشکل سے روزہ رکھ سکتے ہوں ۔ الاطاقہ کے معنی عربی میں مشکل اٹھانے کے ہوتے ہیں ۔ رخصت یہ دے دی کہ ایسے لوگ افطار کرلیں مگر انہیں ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اس کے بعد انہیں ترغیب دی کہ وہ مساکین کے ساتھ مزید بھلائی کریں مثلاً یہ کہ بغیر فدی کی مقرر حد سے زیادہ مساکین کو کھانا کھلائیں ۔ مثلاً رمضان شریف کے ایک روزے کے بدلے اگر تین ، چار یا اس سے بھی زیادہ افراد کو کھانا دیں فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ” اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے حق میں اچھا ہے۔ “ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “ کیونکہ ایسے حالات میں روزہ رکھنا بہت بڑی بھلائی ہے۔ ایسے حالات میں روزہ رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ دار پختہ ارادے کا مالک ہے ۔ اس کے اندر قوت برداشت موجود ہے اور وہ اپنے آرام کو اللہ کی بندگی کے لئے قربان کرسکتا ہے ۔ اور یہ تمام امور جو اسلام کی نظام تربیت کے مقاصد اولیہ ہیں ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مریض کے علاوہ دوسرے لوگ اگر جبر ومشقت کے ساتھ روزے رکھیں تو اس میں ان کے لئے جسمانی فائدہ بھی ہے۔
Top