Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰتٍ : گنتی کے فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی مِّنْ : سے اَ يَّامٍ اُخَرَ : دوسرے (بعد کے) دن وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُطِيْقُوْنَهٗ : طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ : بدلہ طَعَامُ : کھانا مِسْكِيْنٍ : نادار فَمَنْ : پس جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ لَّهٗ : بہتر اس کے لیے وَاَنْ : اور اگر تَصُوْمُوْا : تم روزہ رکھو خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ۔ اگر تم میں کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو ، تو دوسرے دنوں میں اتنی تعداد پوری کرلے اور جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں (پھر بھی نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے ، تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے ۔ لیکن اگر تم سمجھو ، تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “
بات کا دوسرا رخ دیکھئے ، کہا جاتا ہے ! یہ تو چند دن ہیں پوری عمر کے روزے تو فرض نہیں کئے گئے ۔ تمام زمانے کے لئے تو فرض نہیں ہیں ۔ ساتھ ساتھ یہ کہ بیمار اس وقت تک مستثنیٰ جب تک وہ صحت یاب نہ ہوجائیں ۔ مسافروں پر اس وقت تک لازم نہیں جب تک گھر نہ لوٹ آئیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سہولت اور تخفیف خاص رعایت دی گئی ہے ۔ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ” چند مقرر دنوں کے روزے ہیں ، اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو ، یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرے ۔ “ سفر اور مرض کے اعتبار سے آیت کا مفہوم عمومیت کا حامل ہے ۔ اسے محدود نہ کیا جائے ۔ بیماری کی نوعیت کیسی بھی ہو ، جس قسم کا سفر درپیش ہو روزہ قضا کرنا جائز ہے ۔ لیکن سفر ختم ہونے کے بعد اور بیماری دور ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے رکھنے ضروری ہیں۔ آیت میں بیماری کی شدت اور سفر کی مشکلات کو اس رخصت کا سبب نہیں بنایا گیا ۔ صرف ” مرض “ اور ” سفر “ کا علی العموم ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے لئے مشکلات پیدا نہ ہوں اور سہولت رہے ۔ اب اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مرض اور صرف سفر کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ کوئی قید نہیں لگائی ؟ یہ صرف اللہ جانتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ بیماری اور سفر میں کچھ ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہوں جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ ہوسکتا ہے کہ سفر اور بیماری میں کچھ ایسی مشکلات ہوں جن کا احساس ہمیں نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حکم کی اصل علامت کو ظاہری نہیں سمجھا تو ہمیں اس بارے میں تاویلات کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال ہمیں ان کی حکمت معلوم ہو یا نہ ہو ۔ یہ عقیدہ ضرور رکھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی حکمت ومصلحت ضرور ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ رخصت مرض وسفر کی اس تعبیر سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو ہر وقت دین میں رخصت و سہولت کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ کیا کسی ادنیٰ سبب بلاوجہ ہم فرض عبادات کو ترک کردیں ؟ یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے سختی کرکے اس رخصت سے استفادہ پر قیود وشروط عائد کی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ استدلال ایک ضعیف استدلال ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اور صرف اس استدلال کی بناپر ایک مطلق آیت کو مقید کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ لوگوں کو زنجیروں میں باندھ کر ان کو عبادات پر مجبور کرنا اسلام کی مستقل پالیسی نہیں ۔ اسلام تقویٰ کے ذریعہ عبادات میں کشش پیدا کرنا مناسب سمجھتا ہے۔ روزہ تو ہے ہی وہ عبادت جس کا مقصد صرف تقویٰ ہے ۔ جس شخص کی حالت یہ ہے کہ وہ رخصتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر عبادات سے پیچھا چھڑاتا ہے ، وہ تو پہلے ہی بھلائی سے محروم ہے ۔ وہ اگر روزہ رکھ بھی لے تو وہ مقصد پورا نہ ہوگا جو فرضیت صیام کا اصل مطالبہ ہے۔ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ دین لوگوں کا ہے یا اللہ تعالیٰ کا ؟ دین اللہ کا ہے اور وہ رخصت اور نرمی اور عزیمت وتشدد کے مقامات کو خوب جانتا ہے ۔ بعض اوقات رخصت سے ایسے مقاصد کا حصول پیش نظر ہوتا ہے جو رخصت کے بغیر کسی طرح حاصل نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو رعایتیں دی ہیں ، انہیں چاہئے کہ وہ ان سے استفادہ کریں ۔ خصوصاً ایسے دور میں جب مسلمانوں کی اخلاقی اور دینی حالت تباہ وبرباد ہوچکی ہو تو ایسے حالات میں احکام میں تشدد ، اصلاح احوال کے لئے مفید نہیں ہوتا ، ضرورت اس بات کی ہے کہ نرمی اور آسانی سے لوگوں کو اخلاقی تربیت دی جائے ، اور ان کے دلوں اور ان کی روح میں خوف خدا کو نئے سرے سے زندہ کیا جائے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر میں کہوں گا کہ امت کے عمومی فساد کے وقت احکام میں تشدد کرنا غیر موثر علاج ہے ۔ اس سے ذرائع اصلاح بند ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عبادات کے فرائض اور معاملات کے احکام میں بہت بڑا فرق ہے ۔ عبادات میں معاملہ صرف بندے اور اس کے رب کا ہوتا ہے۔ اس میں عوام الناس کا براہ راست فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ معاملات میں شریعت معاملے کے ظاہری پہلو پر نظر رکھتی ہے ۔ رہی عبادات تو ان کی ظاہری صورت اس وقت تک مفید نہیں ہوتی جب تک ان کی تہہ میں تقویٰ نہ ہو ۔ اگر دل میں تقویٰ ہو تو کوئی شخص ادھر ادھر نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا۔ اور ایک متقی شخص صرف اس رخصت سے فائدہ اٹھائے گا جس پر اس کا دل مطمئن ہوگا کہ رخصت سے فائدہ اٹھانے ہی میں اللہ کی رضا اور اطاعت ہے ۔ عبادات کے احکام میں سختی کرنا یا تنگی پیدا کرنے کی سعی کرنا ، یعنی اللہ تعالیٰ نے جن احکام کو عام چھوڑا ہے ، ان پر قیود کا اضافہ کرنا ، بعض اوقات عوام کے لئے سخت مشکلات تو پیدا کردیتا ہے لیکن اس سختی کے نتیجے میں کج رو افراد میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ اس لئے ہر حال میں بہتر رویہ یہ ہے کہ ہم معاملات کو اس طرح لیں جس طرح اس دین میں اللہ تعالیٰ نے طے کردیئے ہیں ۔ رخصتوں اور عزائم میں جو حکمتیں ہیں ان کے متعلق ہم سے اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اس نکتے پر جو کچھ کہہ دیا گیا وہ کافی وشافی ہے ۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ حالات سفر کے بارے میں جو متعدد احادیث مروی ہیں ، وہ سب یہاں نقل کردیں۔ ان میں سے بعض ایسی ہیں جن میں افطار کی طرف میلان جاتا ہے ۔ بعض ایسی ہیں جن میں روزہ توڑنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ان سب روایات پر غور کرنے سے وہ نقشہ ذہن نشین ہوجاتا ہے ، جس پر صحابہ کرام کا تعامل تھا ۔ متاثرین فقہاء نے جو سختیاں کی ہیں ان سے پہلے اس معاملے میں سلف صالحین اور صحابہ کرام ؓ کا طرز عمل بمقابلہ متاخرین فقہاء اور ان کے فقہی بحوث کے ، دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے زیادہ قریب تھا ۔ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں اور ان کے طرز عمل کے مطالعہ سے اسلامی نظریہ حیات اور اس کی خصوصیات کا ایک ذوق پیدا ہوجاتا ہے۔ ۔ 1 حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے سال ، ماہ رمضان میں ، جانب مکہ نکلے ۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھا ۔ جب آپ ﷺ ” کراع الغمیم تک پہنچے تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا ۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے اتنا اٹھا یا کہ لوگ دیکھ لیں ۔ اس کے بعد اسے نوش فرمایا۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ ” بعض لوگ تو روزے سے ہیں۔ “ آپ نے فرمایا !” یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں۔ “ (مسلم۔ ترمذی) ۔ 2 حضرت انس ؓ سے روایت ہے :” ہم نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے ۔ ہم میں سے بعض روزے سے تھے اور بعض نے افطار کیا تھا۔ سخت گرم دن تھا۔ ہم ایک جگہ ڈیرہ ڈالا۔ سب سے زیادہ سایہ اس کا تھا جس کے پاس چادر تھی ۔ ہم میں سے بعض ایسے تھے کہ وہ ہاتھ کا سایہ کرکے اپنے آپ کو سورج کی تپش سے بچاتے تھے ۔ روزہ دار تو گرپڑے اور جن کا روزہ نہ تھا وہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے خیمے لگائے ، جانوروں کو پانی پلایا ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آج تو افطار کرنے والوں نے ثواب لوٹ لیا۔ “ (بخاری ۔ مسلم۔ نسائی) ۔ 3 حضرت جابر ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں : رسول ﷺ سفر میں تھے ۔ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص کے پاس لوگ جمع ہیں اور اس پر سایہ کیا گیا ہے ۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا ” اسے کیا ہوگیا ہے ؟ “ لوگوں نے بتایا ” یہ ایک روزہ دار ہے ۔ “ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا ” سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ “ (امام مالک ، امام بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد۔ نسائی) ۔ 4 عمرو بن امیہ ضمری رضی عنہ سے روایت ہے ۔ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” ابو امیہ کھانے کا انتظار کرو ۔ “ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول میں تو روزے سے ہوں ۔ “ آپ نے فرمایا تو پھر سنئے مسافر سے متعلق :” اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ معاف فرمایا ہے اور نصف نماز معاف فرمادی ہے۔ “ (نسائی) ۔ 5 انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے نماز کا ایک حصہ مسافر کے لئے معاف فرمادیا ہے ۔ سفر میں اس کے لئے افطار کی رخصت ہے۔ دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے بھی یہی رخصت ہے ، اگر بچے کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو ۔ “ (روایت سنن) ۔ 6 ضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں :” حمزہ بن عمر اسلمی رسول اللہ ﷺ سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ۔ یہ صاحب بہت روزے رکھتے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا !” چاہو تو روزہ رکھو چاہو تو افطار کرو۔ “ ۔ 7 حضرت انس ؓ سے روایت ہے ۔ فرماتے ہیں :” ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم میں سے بعض روزے سے تھے اور بعض نے افطار کیا تھا۔ نہ روزہ دار افطار کرنے والے پر نکتہ چینی کرتا اور نہ افطار کرنے والا رواہ رکھنے والے کے طرز عمل کو معیوب سمجھتا۔ “ (روایت مالک ، مسلم ، بخاری ، ابوداؤد) ۔ 8 حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے فرماتے ہیں :” ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ماہ رمضان میں شدید گرمی میں نکلے ۔ گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ ہم تپش سے بچنے کے لئے سر پر ہاتھ رکھ دیتے ۔ ہم سب میں صرف رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابن رواحہ ؓ روزے سے تھے ۔ “ (بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد) ۔ 9 حضرت محمد بن کعب سے روایت ہے فرماتے ہیں :” میں رمضان میں انس بن مالک ؓ کے پاس آیا۔ آپ سفر پر نکلنے والے تھے ۔ سواری تیار تھی ۔ آپ نے سفر کا لباس پہن رکھا تھا ۔ آپ نے کھانا منگوایا اور کھایا۔ سب نے کہا : کیا یہ سنت ہے ؟ “ آپ نے فرمایا ” ہاں ! “ اس کے بعد سوار ہوگئے۔ “ (ترمذی) ۔ 10 عبید ؓ بن حبیرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :” میں رسول اکرم ﷺ کے ایک صحابی ابوبصرہ غفاری ؓ کے ساتھ کشتی میں تھا ، ماہ رمضان میں کشتی کو پانی میں ڈال دیا گیا اور کھانا ان کے قریب لایا گیا ۔ انہوں نے فرمایا :” قریب ہوجایئے ۔ “ میں نے عرض کیا :” آپ نہیں دیکھ رہے کہ مکانات ابھی نظر آتے ہیں ؟ “ انہوں نے کہا ” کیا تم رسول اللہ ﷺ کی سنت سے منہ پھیرتے ہو ؟ “ چناچہ انہوں نے بھی کھانا کھایا اور میں نے بھی کھایا۔ “ (ابوداؤد) ۔ 11 منصور مکی سے روایت ہے کہ حضرت دحیہ ابن خلیفہ ؓ اپنے نواح دمشق کے ایک گاؤں سے ماہ رمضان میں سفر پر نکلے ۔ سفر اس قدر تھا جس طرح فساط گاؤں سے عقبہ گاؤں ہے اور یہ فاصلہ بقدر تین میل ہے ۔ آپ نے افطار کیا ۔ آپ کے ساتھ بیشمار لوگوں نے افطار کرلیا ، لیکن بعض دوسرے لوگوں نے روزہ افطار کرنے میں کراہت محسوس کی ۔ جب وہ اپنے گاؤں لوٹے تو فرمایا :” اللہ کی قسم میں نے آج وہ بات دیکھی ہے جو کبھی دیکھنے میں نہ آئی تھی ۔ لوگوں کے ایک گروہ نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی سنت سے منہ پھیرلیا ہے۔ اے اللہ مجھے اپنی طرف اٹھالے ۔ “ (روایت ابوداؤد) ان تمام احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوشگوار اور آرام دہ سفر میں بھی رخصت افطار کو قبلیت حاصل ہوئی ہے بلکہ افطار کو ترجیح دی گئی ہے ۔ اور رخصت پر عمل کرنے کے لئے سفر کی مشقت یا دشواری کو ضروری شرط نہیں قرار دیا گیا جیسا کہ آخری دو احادیث میں سے خاص طور پر معلوم ہوتا ہے۔ آٹھویں حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اور عبیداللہ بن رواحہ ؓ کے سوا کسی اور کا روزہ نہ تھا ۔ لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں آپ ﷺ کی لئے بعض خصوصیات ایسی تھیں جو امت کے لئے نہ تھیں ۔ مثلاً ” لگاتار روزہ “ رکھنے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا حالانکہ آپ کبھی کبھی ” لگاتار “ روزے رکھتے تھے ۔ (” لگاتار “ کا مطلب یہ ہے ایک دن کا روزہ دوسرے دن سے بلاافطار مل جائے) صحابہ کرام نے اس سلسلے میں آپ ﷺ سے بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا !” میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے میرا رب ہر وقت کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔ “ (بخاری ۔ مسلم) پھر پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ ﷺ نے افطار فرمایا اور جنہوں نے افطار نہ کیا تھا ان کے بارے میں فرمایا !” یہ لوگ نافرمان ہیں ، یہ لوگ نافرمان ہیں۔ “ پھر یہ حدیث بھی سب احادیث سے متاخر کیونکہ یہ فتح مکہ کے سال کا واقعہ ہے ، چناچہ اس میں جو حکم ہے وہ سب سے آخر میں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسندیدہ عمل طرز عمل کیا ہے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پردہ احساس جو تصویر ابھرتی ہے ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷺ کے وقت کچھ مخصوص واقعات تھے ، جن میں ایک متعین حکم دینا ضروری تھا ۔ رسول ﷺ ملت اسلامیہ کی تربیت فرما رہے تھے ۔ آپ کو ایک زندہ اور متحرک صورت حال سے واسطہ تھا ۔ محض جامد اور غیر متحرک بتوں سے واسطہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایک عام موضوع کے متعلق جو احادیث وارد ہوتی ہیں ان میں احکام وہدایات میں تنوع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ احکام موقع ومحل کے مطابق دیئے جاتے ہیں ۔ تمام حالات و احادیث کو پیش نظر رکھ کر جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سفر میں روزے کے مقابلے میں افطار زیادہ افضل ہے اور اس میں کوئی قید نہیں ہے کہ عملاً مشقت موجود ہے یا نہیں ۔ رہی بیماری ، تو اس کے بارے میں قوال فقہاء کے علاوہ مجھے کچھ نہیں ملا۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ حالت ہے جس پر مرض اور بیماری کا اطلاق ہوسکتا ہو۔ اس کی نوعیت ، اس کی مقدار اور اس کی شدت وغیرہ کی کوئی قید نہیں ہے ۔ صرف ایک شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ بیماری اور سفر میں دن کے بدلے قضا کرنی ہوگی اور قضا لوٹانے میں بھی راحج مذہب یہ ہے کہ دنوں کی تعداد پوری کرنی ہے ۔ ضروری نہیں کہ روزے مسلسل ہوں۔ ان تفصیلات کا ذکر میں نے اس غرض سے نہیں کیا کہ میں فقہی اختلافات میں کوئی خاص دلچسپی رکھتا ہوں ۔ میر مقصد صرف اس بنیادی اصول کی وضاحت ہے جس کے مطابق اسلامی عبادات کو دیکھنا چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ کہ انسان کے ذہن میں ایک ایسی شعوری حالت پیدا ہوجائے ، جو انسان کے طرز عمل پر اثر انداز ہو ۔ یہی وہ حالت ہے جس کا اثر انسان کے طرز عمل پر ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی روحانی تربیت ہوتی ہے ۔ عبادات میں خشوع کا مطلب ہے دل کا اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ اور گداختہ ہوجانا اور پوری زندگی میں حسن و سلوک اور بہتر طرز عمل صرف اسی شعوری حالت کے نتیجے میں پیدا ہوسکتے ہیں ۔ یہ تو ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اس دین کو اسی طرح قبول کریں جس طرح وہ ہے ۔ پورے فرائض و تکالیف کے ساتھ ۔ اطاعت و خشیت کے ساتھ ۔ اس کی عزیمتوں پر عمل کریں اور رخصتوں سے فائدہ اٹھائیں ۔ پوری ہم آہنگی سے ، اطمینان قلب کے ساتھ ، اس کی حکمتوں پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ خوفی کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے ۔ اس بحث کے بعد اب پھر سیاق کلام کو لیجیئے ! وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اور جو لوگ مشکل سے روزہرکھ سکتے ہوں تو وہ فدیہ دیں ۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا کھانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے۔ لیکن تم اگر سمجھو ۔ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “ روزہ سنہ 2 ہجری میں جہاد کی فرضیت سے کچھ پہلے فرض ہوا۔ پہلے پہل روزہ کی تکلیف مسلمانوں کے لئے بہت ہی شاق تھیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے کھلی چھوٹ دے دی ، جو مشکل سے روزہ رکھ سکتے تھے ، (یطیقونہ کے معنی ہیں جو مشکل سے روزہ رکھ سکتے ہوں ۔ الاطاقہ کے معنی عربی میں مشکل اٹھانے کے ہوتے ہیں ۔ رخصت یہ دے دی کہ ایسے لوگ افطار کرلیں مگر انہیں ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اس کے بعد انہیں ترغیب دی کہ وہ مساکین کے ساتھ مزید بھلائی کریں مثلاً یہ کہ بغیر فدی کی مقرر حد سے زیادہ مساکین کو کھانا کھلائیں ۔ مثلاً رمضان شریف کے ایک روزے کے بدلے اگر تین ، چار یا اس سے بھی زیادہ افراد کو کھانا دیں فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ” اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے حق میں اچھا ہے۔ “ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ “ کیونکہ ایسے حالات میں روزہ رکھنا بہت بڑی بھلائی ہے۔ ایسے حالات میں روزہ رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزہ دار پختہ ارادے کا مالک ہے ۔ اس کے اندر قوت برداشت موجود ہے اور وہ اپنے آرام کو اللہ کی بندگی کے لئے قربان کرسکتا ہے ۔ اور یہ تمام امور جو اسلام کی نظام تربیت کے مقاصد اولیہ ہیں ۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مریض کے علاوہ دوسرے لوگ اگر جبر ومشقت کے ساتھ روزے رکھیں تو اس میں ان کے لئے جسمانی فائدہ بھی ہے۔
Top