Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑرہاہو ، تو والدین اور رشتہ داروں کے لئے معروف طریقے سے وصیت کرے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔
وصیت بھی فرائض میں سے ایک فرض ہے ۔ والدین اور اقرباء کے لئے بشرطیکہ مرنے والا اپنے پیچھے دولت چھوڑ رہا ہو۔ خیر سے مراد دولت ہے ۔ کتنی مقدار پر وصیت فرض ہے ؟ اس میں اختلاف رائے ہے ۔ راحج بات یہ ہے کہ مقدار کا رعین مختلف مواقع کے لئے ، عرف کے مطابق ، مختلف ہوسکتا ہے۔ بعض وفقہاء نے کہا کہ 60 درہم سے کم تر ہو تو سمجھا جائے کہ کوئی ترکہ نہیں ہے ۔ بعض لوگوں نے اس حد کو 80 دینار اور بعض نے 400 دنیار اور بعض نے 1000 تک بڑھادیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں ، اور مختلف خاندانوں کے لئے ظوف واحوال کے مطابق مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ وصیت کی ان آیات کے بعد میراث کی آیات نازل ہوئیں جن میں ورثاء کے لئے حصص متعین ہوگئے ۔ اور وراثت کی ہر صورت میں والدین کو حق دار قرا ردیا گیا ، لہٰذا اب والدین کے لئے وصیت نہ ہوگی کیونکہ وارث بہرحال وصیت سے محروم ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :” اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق عطا کردیا ہے ، لہٰذا اب وارث کے لئے کوئی وصیت مؤثر نہ ہوگی۔ “ رہے اقرباء تو ان کے لئے یہ حکم اب بھی اپنے عموم پر باقی ہے ۔ لہٰذا اب جو شخص قانون میراث کے مطابق حصہ پالے ، وہ وصیت سے فائدہ نہ اٹھاسکے گا اور جو قانون میراث میں حق دار نہیں ہے آیت وصیت اس لئے موجود ہے (Operative) ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ، بعض صحابہ اور تابعین میں سے بعض حضرات اس طرف گئے ہیں ۔ ہم بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ قانون میراث کی دفعات کی رو سے بعض اوقات قریبی رشتہ دار محروم ہوجاتے ہیں ۔ صلہ رحمی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ ضروردیا جائے ، ایسے حالات میں وصیت کے ان احکام کی حکمت خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے ۔ قانون وصیت درحقیقت قانون کے وراثت کے دائرے سے باہر خاندان کے باہمی تکافل اور معاشی ذمہ داریوں کا ایک رنگ ہے ۔ اس لئے حکم ہوا کہ حق وصیت کا استعمال معروف اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے اور اس سلسلے میں خدا خوفی کے اصل الاصول کو پیش نظر ہونا چاہئے۔ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” معروف طریقے سے ، یہ متعین پر حق ہے۔ “ اس حق کے استعمال سے ورثا پر ظلم نہ ہو ، غیر وارث محروم رہیں ، اعتدال و انصاف کے ساتھ ، خدا خوفی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، احسان اور نیکی کی خاطر اس حق کو استعمال کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں اس حق پر پابندی لگائی گئی اور 1/3 حصہ حدمقرر کردی گئی اور افضل یہ ہے کہ اس حق کو 1/4 حصہ تک محدود رکھا جائے ۔ تاکہ اس غیر وارث کی وجہ سے اصل وارث کو زیادہ نقصان نہ ہو۔ اس معاملے کا فیصلہ ، بیک وقت قانون اور تقویٰ دونوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے اور یہی روح ہے اس اجتماعی نظام کی جسے قرآن مجید قائم کرنا چاہتا ہے۔
Top