Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلئے یا مغرب کی طرف ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتے داروں اور یتیموں پر ، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں ، تو وفا کریں اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں ۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی متقی ہیں ۔ “
سچ بات یہ ہے کہ یہ آیت بھی تحویل قبلہ کے احکام اور ان پر یہودیوں کے طویل اعتراضات وجوابات کے ساتھ مربوط ہیں ۔ تحویل قبلہ کی حکمت کے بارے میں تو ہم اس سے پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ۔ عبادات اور شعائر دین کی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں یہودیوں کی ظاہر بینی اور تقشف پرستی کو بےنقاب کرتے ہوئے ، حسن وقبح کا ایک عظیم معیار اور نیکی اور بدی کی اصلی حقیقت بیان کررہے ہیں۔ کیونکہ یہودی ان ظاہری امور کے بارے میں بےحد حساس تھے اور جھگڑتے تھے ۔ تحویل قبلہ یا تمام عبادات میں غرض وغایت یہ نہیں کہ لوگ مشرق کی طرف رخ کریں یا مغرب کی طرف چہرہ کرکے عبادت سر انجام دیں۔ بیت المقدس کی طرف رخ کریں یا مسجد حرام کی طرف ۔ یا یہ کہ عبادات کی موجودہ شکل و صورت ہی عین خیر وبھلائی نہیں ہے ۔ بلکہ ان کے لئے بہت ضروری ہے کہ دل کے اندر محسوس کیا جانے والاتصور اور اسلامی نظریہ حیات کا زندہ شعور ضروری ہے ۔ ان ذہنی امور کے ساتھ ساتھ مخصوص طرز عمل اپنانا بھی ضروری ہے ۔ ورنہ نیکی وبھلائی کے حصول اور حسن وخیر کو بروئے کار لانے کا اصل مقصد پورا نہ ہوسکے گا۔ نیکی دراصل ایک تصور ہے ، ایک شعور ہے ، کچھ اعمال ہیں ، ایک طرز عمل ہے ۔ یہ ایک تصور حیات ہے ۔ جو ایک فرد اور ایک جماعت کے ضمیر پر اثر انداز ہو ، وہ ایک عمل ہے جو فرد وجماعت کی زندگیوں میں پسندیدہ اثرات پیدا کرے ۔ صرف مشرق ومغرب کی طرف سے رخ پھیر دینے سے زندگی میں یہ انقلاب کیونکر آسکتا ہے ۔ منہ کوئی ادھر کرے یا ادھر کرے ، فرق کیا پڑتا ہے ، اصل مقصد تو رجوع قلب ہے ۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے ، منزل پالیتا ہے ۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا ، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں ۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے ، منزل پالیتا ہے ۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا ، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں۔ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ” بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے ۔ “ یہ ہے بھلائی کا وہ معیار جو تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے ۔ اس معیار میں نیکی کی جو اقدار مقرر کی گئی ہیں وہ بہت ہی وزنی ہیں ۔ اللہ ایمان ، یو آخر پر ایمان اور ملائکہ وکتب اور انبیاء پر ایمان کی قدر و قیمت اسلامی نقطہ نظر سے کیا ہے ؟ اللہ پر ایمان لانا انسانی زندگی میں ایک نقطہ انقلاب ہے ۔ اس کے ذریعے انسان مختلف قوتوں ، مختلف چیزوں اور مختلف پسندیدہ تصورات کی بندگی اور غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ اور صرف ایک بندگی اور غلامی قبول کرلیتا ہے ۔ یوں انسان تمام دوسرے انسانوں کے ساتھ ، ایک ہی صف میں کھڑا ہوکر ، ایک ہی معبود کے سامنے جھک کر ، اخوت و مساوات کا بلند مقام حاصل کرلیتا ہے ۔ ایمان وہ مقام ہے جہاں طوائف الملوکی کی بجائے ایک نظام قائم ہوتا ہے ۔ انتشار کی جگہ یکسوئی اور اختلاف کی جگہ اتحاد قائم ہوجاتا ہے نیز گمراہی کے بجائے ایک اونچا نصب العین سامنے آجاتا ہے ۔ اگر انسان کے دل میں ایک واحد لاشریک خدا پر ایمان نہ ہو تو ، اس دنیا میں اس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا ، جس پر دلجمعی کے ساتھ اپنی قوتوں کو مرتکز کرسکے اور جس پر مساوات کے ساتھ وہ مجتمع ہوسکے ۔ بعینہ اس طرح جس طرح وجود کائنات ایک نقطہ کے اردگرد مرتکز ہے ۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط ہے ۔ اور ان کے مابین واضح نسبت موجود ہے ۔ اور جس کے مختلف اجزاء کے باہمی علائق اور مقاصد بالکل واضح اور معلوم اور مربوط ہیں ۔ آخرت پر ایمان کا مقصد یہ ہے کہ انسان جزا وسزا میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کو یقین کے ساتھ تسلیم کرے ۔ یہ جانے کہ اس کرہ ارض پر انسان کو یونہی بےمقصد نہیں پیدا کیا گیا ۔ وہ غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اسے حساب دینا ہوگا اگر کوئی بھلائی کرے تو وہ ختم نہیں ہوسکتی اگرچہ اس کی جزا اس دنیا میں نہ ملے ۔ ملائکہ پر ایمان بھی غیب پر ایمان کا ایک حصہ ہے ۔ انسانی فہم وادراک اور ایک حیوان کے فہم وادراک میں یہی فرق ہے ۔ انسانی تصور حیات اور حیوانی تصور حیات میں یہی فرق ہے کہ انسان محسوسات سے آگے کی بھی بعض چیزوں پر ایمان لاتا ہے اور ان کا ادراک کرسکتا ہے ۔ جبکہ حیوان کا احساس صرف محسوسات کے دائرے میں محدود ہوتا ہے کتاب اور نبیوں پر ایمان کا مقصدیہ ہے کہ انسان تمام رسولوں پر ایمان لائے بلاتفریق ۔ یعنی انسانیت بھی ایک ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے ۔ اس کا خدا بھی ایک ہے ۔ اس کے لئے دین اور نظام زندگی بھی ایک ہے ۔ اس طرح مومن انبیاء ورسل کے اعلیٰ خیالات کا وارث ہوجاتا ہے ۔ لہٰذ اکتب ورسل پر ایمان ایک مومن کو بہت قیمتی شعور عطا کرتا ہے۔ مال کے ساتھ انسان کو بڑی محبت ہے لیکن مال قربان کرنے کی بھی بڑی اہمیت ہے ۔ غریب رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں اور گردن چھڑانے اور غلامی سے نجات دلانے کے لئے مال خرچ کرنا یہ سبھی کام انسان کو بلند مرتبہ بناتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ انسان لالچ ، خود غرضی اور بخل کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتا ہے ۔ مال کی محبت ہاتھوں کو انفاق سے کھینچ لیتی ہے ۔ انسان بلند ہمتی ، اولوالعزمی ، جودوسخا اور دادوہش کے مقام بلند سے گرجاتا ہے اور روح انسانی میں کشادگی نہیں رہتی ۔ اسلامی نظام میں انفاق کا ایک روحانی مقام ہے ۔ اس لئے یہ ان مسلمانوں کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ مال کی محبت کے باوجود اپنا محبوب ترین اور پسندیدہ ترین مال کو دل وجان کی آمادگی اور کشادگی کے ساتھ خرچ کریں ۔ اس کی بڑی روحانی اہمیت ہے اور اس طریقہ سے مومن اپنے آپ کو دولت کی پوجا اور دولت کی غلامی سے چھڑالے گا ۔ دولت کی پوجا سے انسان بالیقین ذلیل ہوجاتا ہے۔ سرفرازی کی بجائے سرنگوں ہوتا ہے اور انفاق سے وہ لالچ اور حرص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا ۔ اسلامی نقطہ نظر سے سرنگوں ہونے کے بجائے وہ گردن فراز ہوجائے گا لیکن اگر وہ انفاق نہ کرے توذلیل ہوگا ۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے ۔ کیونکہ اسلامی نظام کی غایت یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے نفسیاتی پریشانیوں ، اخلاقی کمزوریوں اور طمع و لالچ سے نجات دلائے ۔ یہ کام انسان کے لئے معاشرتی آزادی سے بھی پہلے کیا جاتا ہے ۔ شخصی وسیاسی آزادی سے بھی پہلے کیوں ؟ اس لئے کہ جو شخص اپنے نفس کا غلام ہو وہ بسہولت طاغوت کی غلامی کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص خواہشات نفسانیہ کے قید وبند سے آزاد ہوجاتا ہے وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں بھی آزاد ہوتا ہے ۔ کسی کی غلامی کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ انسانی معاشرے میں انفاق فی سبیل اللہ کی ایک معاشرتی قدر و قیمت بھی ہے ۔ اقربا سے صلہ رحمی کی وجہ سے نفس انسانی میں مروت پیدا ہوتی ہے ، خاندان میں شرافت کا چلن فروغ پاتا ہے اور اقرباء کے درمیان تعلقات زیادہ قوی ہوجاتے ہیں ۔ اسلامی معاشرے کی اساس خاندان پر ہے اس لئے یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ پھر یتیموں کی مالی امداد کا حکم ہے ۔ اس کا مقصد اصل معاشرہ میں امیر و غریب ، طاقتور اور کمزور کے درمیان نظام کفالت کا قیام ہے ۔ یتامی مادری اور پدری شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ ان کے لئے ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ ان کے احساس محرومیت کی تلافی کی جائے ۔ پھر اس تکافل کے نتیجے میں پوری سوسائٹی کو ان خودرو شتر بےمہار اور غیر تربیت یافتہ افراد کی کثرت سے بھی بچایا گیا ہے۔ جو معاشرے کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور فتنہ سامانیوں کا موجب بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ آگے جاکر معاشرے کی لاپرواہی اور بےمروتی کا خوب انتقام لیتے ہیں ۔ مساکین پر انفاق جن کے پاس وسائل زندگی نہیں ہیں ۔ پھر بھی وہ خاموش بیٹھے ہیں ۔ عزت نفس رکھتے ہیں اور سوال نہیں کرتے ۔ یہ انفاق ان کی عزت نفس کے لئے محافظ ہے ۔ انہیں تباہی سے بچاتا ہے ۔ نظام انفاق سے اسلامی معاشرے میں ، ایسے حضرات کے دلوں میں اجتماعی کفالت اور ضمانت کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اسلامی معاشرہ تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں کسی فرد کو بےیارومددگار نہ چھوڑاجائے اور اس کے کسی عضو کو ضائع ہونے نہ دیا جائے ۔ ابن سبیل (مسافر) جو اپنے خاندان سے دور ہو ، جن کے پاس وسائل موجود نہ ہوں ، اچانک مصیبت میں گرفتار ہوجائے ۔ خاندان کے افراد اس سے دور ہوں ، ایسے حالات میں یہ مسافر بھی مصیبت زدہ ہے ۔ یہ انفاق اس کے لئے ایک قسم کی ہنگامی امداد ہے ۔ اس امداد سے اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ پوری انسانیت اس کا خاندان ہے ۔ ہر ملک اس کا ملک ہے ، ہر جگہ اس کا خاندان موجود ہے ، مسلمان اس کے اہل خاندان ہیں ۔ ہر جگہ اس کے اپنے مال کے بدلے اس کے لئے مال موجود ہے ۔ اس کے لئے صلہ رحمی موجود ہے ۔ اور اس کے لئے آرام کا سامان فراہم ہوسکتا ہے ۔ سائلین پر انفاق ضروری ہے تاکہ ان کی ضرورت پوری ہو ، وہ آئندہ سوال کرنا چھوڑدیں ۔ اسلام بھیک مانگنے کو ناپسند کرتا ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس بقدر کفالت موجود ہو اس کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔ جو کام کاج کرسکتا ہے ، اس کے لئے بھی سوال جائز نہیں ہے ۔ ایسے شخص کے لئے خدا کا حکم یہ ہے کہ وہ مزدوری کرے ، بھیک نہ مانگے یا قناعت کرے ، دست سوال دراز نہ کرے ، بھیک مانگنا تب جائز ہے جب کام نہ ہو ، مال نہ ہو ، اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو ۔ غلامی سے چھڑانے میں انفاق بھی ایک مد ہے ۔ جو بدقسمت اپنی بدعملی کی وجہ سے غلام ہوگیا ، اس نے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی ۔ جنگ کے نتیجے میں اس کی آزادی ختم ہوگئی ۔ اسے عارضی طور پر معاشرے میں مقام شرافت سے محروم کردیا گیا۔ اس پر انفاق یوں ہوگا کہ اس کو خرید کر آزاد کردیا جائے یا غلام اپنے آقا سے معاہدہ آزادی کرے اور اسے رقم معاہدہ ادا کرنے کا پابند ہو ۔ اسلام نے غلاموں کے لئے یہ قانون بنایا تھا کہ غلام جس وقت چاہتا مالک کے ساتھ ایک معاہدہ آزادی کرتا اور آزاد ہوجاتا۔ اس معاہدے کے مطابق اسے وہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے جو طے پاجائے ۔ (ایسے معاہدہ کے بعد غلام ) اپنے کام کی اجرت وصول کرنے کا مستحق ہوجاتا ہے جو معاہدے کی رقم میں کٹتی رہتی ہے ۔ علاوہ ازیں وہ مستحق زکوٰۃ ہوجاتا ۔ اسی طرح وہ انفاق فی سبیل اللہ کی تمام مدات میں سے اس کی امداد کی جاسکتی تھی تاکہ وہ جلد از جلد رقم معاہدہ ادا کرکے آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوجائے۔ اقامت صلوٰۃ نیکی کے اس معیار میں نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ اور اقامت صلوٰۃ صرف مشرق ومغرب کی طرف چہرہ کرکے کھڑے ہوجانے سے اقامت کا مفہوم ادا نہیں ہوجاتا۔ یہ نقطہ وسیع تر مفہوم رکھتا ہے۔ جو یہ ہے کہ انسان کا ظاہر و باطن اور اس کی عقل وروح سب پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔ نماز نہ تو محض جسمانی ورزش کا نام ہے اور نہ ہی صرف صوفیانہ درودوظائف کا نام ہے۔ نماز دراصل اسلام کی بنیادی فکر ونظر کی عکاس ہے۔ اسلام اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان اس ایک وجود میں جسم ، روح اور عقل تین چیزوں کا اجتماع ہے ۔ اسلام اس بات کا بھی قائل نہیں ہے کہ ان تین طاقتوں کی سرگرمیوں اور دائرہ عمل میں باہمی کوئی تضاد پایا جاتا ہے ۔ وہ جسم کو فناکرکے روح کو آزاد کرنا جائز نہیں سمجھتا ۔ کیونکہ روحانی آزادی کے لئے جسمانی فنا یا جسم کو مارنا لازمی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ، اپنی سب سے اہم اور بڑی عبادت یعنی نماز میں ان تین طاقتوں کی سرگرمی کو ہم آہنگ کردیا ہے ۔ نماز میں تینوں قوتیں مکمل نظم کے ساتھ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں ۔ قیام ، رکوع اور سجدہ وجسمانی حرکات ہیں جو روح کو رجوع الی اللہ کی طرف راغب کرتی ہیں ۔ قرآن کی تلاوت ، اس میں غوروفکر اور مفہوم کو سمجھنا عقل کا کام ہے اور اس پورے عرصے میں عقل انسانی اس کام میں مصروف ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی عزت توجہ اور مکمل تسلیم ورضا اور عجز و انکسار روح کا کام ہے اور اس طرح یہ تینوں قوتیں ایک ہی وقت میں مصروف کار ہوتی ہیں ۔ غرض اس معنی میں اقامت صلوٰۃ پوری اسلامی طرز فکر کی نمائندہ ہے ۔ اور وہ چشم بینا کو یہ سبق یاد دلاتی ہے کہ پوری زندگی کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ ہر نماز اور ہر نماز کی حرکت میں ہم یہ سبق دہراتے ہیں ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی یہ اسلامی نظام میں غرباء و مساکین کے لئے اغنیاء اور اہل ثروت کی دولت پر عائد کردہ ، ایک اسلامی ٹیکس ہے ۔ یہ ٹیکس اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے ۔ دراصل اللہ تعالیٰ ہی دولت کا حقیقی مالک ہے ۔ بندے کو اس کا مجازاً مالک بنایا گیا ہے ۔ اور اس لئے اسلامی نقطہ نظر سے اس پر کچھ شرائط عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے اہم اور لازمی شرط ادائیگی زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر عام انفاق فی سبیل اللہ کے عام حکم کے بعد کیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر ہوگیا ہے کہ دولت محبت کے باوجود اقرباء وغیرہ پر صرف کی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ مذکورہ بالا تمام صرف مال اور انفاق فی سبیل اللہ سے علیحدہ ایک مستقل مد ہے ۔ یہ لازمی ٹیکس اور منصوص فرض ہے ۔ جب کہ عام انفاق فی سبیل اللہ صرف ترغیب ہے ۔ لیکن نیکی کا یہ مجموعی معیار جس کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ، اس وقت تک مکمل نہ ہوگا جبب تک ان دونوں مدات پر حسب حساب وحسب توفیق عمل نہ کیا جائے ۔ یہ دونوں مدیں اسلام کی بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ لیکن ہر انسان کی زندگی میں دونوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔ ایک پر عمل کرنے سے دوسرا ہرگز ساقط نہیں ہوسکتا۔ وفائے عہد یہ اسلام کی وہ علامت ہے جس کی حفاظت میں اسلام بےحد کوشش کرتا ہے ۔ قرآن کریم میں بار بار اس کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ اسے ایمان کی نشانی گردانا گیا ہے ۔ اسے احسان اور آدمیت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور یوں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ایک انسان اور انسان کے تعلقات میں ایک فرد اور جماعت کے تعلقات میں ، ایک قوم اور دوسری قوم کے تعلقات میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے وفائے عہدنہایت ہی ضروری ہے ۔ وفائے عہد کی خشیت اول خود ذات باری تعالیٰ سے اپنے عہد کی وفا ہے۔ اگر ایک مستحق اپنے مالک کا وفادار نہ ہو تو ہمیشہ پریشان اور غیر مطمئن رہے گا اور کوئی عہد پورانہ کرسکے گا ۔ وہ کسی میثاق پر جم نہ سکے گا ۔ کسی انسان پر اعتماد نہ کرے گا ۔ دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ ، وفائے عہد میں اسلام اس مقام بلند تک پہنچا ہے کہ جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی ۔ کوئی قوم ، کوئی امت بھی اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکی ۔ یہ مقام انسانیت کو اسلام کے سایہ اور اسلامی نظریہ حیات کی روشنی ہی میں معلوم ہوا۔ حق اور باطل کی کشمکش میں صبر صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مشکل مرحلہ آئے تو انسان بہت ہمت سے اس کا مقابلہ کرے ۔ مصیبت کے وقت آہیں بھرناشروع نہ کردے۔ سختیوں میں جزع وفزع شروع نہ کردے ۔ صبر اور مصابرت اور تحمل وثبات اسی کا نام ہے ۔ صبر مضبوطی سے حق کو پکڑلینے کا نام ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ مصیبت دور ہوجاتی ہے اور مشکلات کے بعد آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ یہ اللہ کی مرضی کو قبول کرنا ہے ، اس سے پر امید ہونا ، اس پر اعتماد کرنا ہے ۔ وہ امت جسے پوری انسانیت کی امامت اور نگرانی کا مقام دیا گیا ہو ، جسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دولت صبر سے مالا مال ہو۔ مشکلات درپیش ہوں ، اس کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوں۔ اسے تنگیوں ، مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے ۔ باطل کے ساتھ کشمکش برپا ہو اور شدید سے شدید ترحالات پیش آئیں تو صبر و استقامت ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہو۔ مصیبت اور غربت میں صبر ، جسمانی ضعف اور بیماری میں صبر افراد کی قلت اور کمزوری پر صبر ، محاصرے اور مجاہدے میں صبر ، غرض ہر حال میں صبر اور ہر آن میں صبر ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس میں یہ امت اپنا عظیم فرض منصبی ادا کرسکتی ہے ۔ وہ اپنے منصوبے کو پورا کرسکتی ہے ۔ بصورت دیگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنگی ومصیبت کے اور حق و باطل کی کشمکش میں صبر کرنے والوں کو لفظ الصابرین (حالت نصبی) سے مخاطب کیا ہے ۔ جس سے لفظ ” خاص کر “ کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے جن صفات کا ذکر ہوا ہے وہ حالت رفعی (مستقل جملوں) میں ہیں لیکن اس صفت کو حالت منصبی (مفعول ہے اور فعل محذوف ہے) میں ذکر کیا ہے۔ مطلب ہے (میں صابرین کو مخصوص طور پر بیان کرتا ہوں ، نیکی اور بھلائی کی صفات کے ذکر کے ضمن میں یہ ایک خاص اشارہ ہے اور اس کا اپنا ایک مخصوص وزن اور ایک خاص اہمیت ہے ، یعنی اللہ پر ایمان فرشتوں پر ایمان ، کتابوں پر ایمان ، نبیوں پر ایمان ، مال کا خرچ کرنا ، نماز کا قائم کرنا ، زکوٰۃ کا ادا کرنا ۔ اور وفائے عہد کی تمام صفات میں سے صفت صبر اور اس کے حاملین الصابرین کو زیادہ اہمیت حاصل ہے ، اللہ کے ہاں ان کی سب سے زیادہ قدر ہے ۔ صابرین کا مقام سب سے زیادہ برتر وبلند ہے ۔ صابرین کے اس مقام بلند کو دیکھ کر تمام لوگوں کی نگاہیں اس طرف اٹھ جاتی ہیں ۔ ذرا دیکھئے ایک ہی آیت میں نظریہ و عقیدہ کے اصول ، جسمانی فرائض اور مالی ذمہ داریاں اور دولت کے واجبات کو بیان کردیا گیا ہے ۔ نظریہ و حقیقت کو ایک کردیا گیا ہے ۔ ایسی اکائی کی صورت میں جس کو ٹکڑے نہ کیا جاسکتا ہو ، جس کے اجزاء ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوسکیں اور زندگی کے ان مختلف شعبوں کا عنوان صرف ایک ہے (نیکی) بعض احادیث میں نیکی کو عین ایمان کہا گیا ہے ۔ غرض یہ آیت اسلامی تصور حیات کا مکمل خلاصہ ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے اصول اس میں یکجا ہوگئے ہیں ۔ یہ سب ضروری اصول ہیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں ۔ اور ان کے بغیر اسلامی نظام کا قیام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کی صفات یہ ہوں ، ان کا مقام بھی یہاں آخر میں بطور نتیجہ بیان کردیا جاتا ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (177) ” یہ ہیں راست باز لوگ اور یہ ہیں متقی۔ “ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام میں ، اپنے رب کے ساتھ بالکل سچ کہا ۔ وہ ایمان و اعتقاد میں بھی سچے ہیں اور اپنے ایمان و اعتقاد کو اپنی زندگی میں عملی شکل دینے میں بھی بالکل وہ سچے ہیں ۔ یہی لوگ دراصل متقی ہیں جو اپنے رب کے ساتھ جڑ جاتے ہیں ، اس سے ڈرتے ہیں ۔ وہ احساس ذمہ داری اور شعور کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ ان آیات کے درمیان سے ذرا جھانک کر دیکھیں ، ہمیں ایک بلند افق نظر آئے گا ۔ ایک بلند مقام عزت نظر آئے گا ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ ، انسانیت کو اپنے تجویز کردہ اعلیٰ ترین نظام حیات کے ذریعے سرفراز کرنا چاہتا ہے ۔ اور پھر ہم ذرا لوگوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں ، تو وہ اس نظام سے دور بھاگتے ہیں ۔ اس سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔ اس کا مقابلہ کرتے ہیں ، بلکہ اس کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ۔ اور اس کے ماننے والوں کے جانی دشمن ہوجاتے ہیں ۔ جب ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح کہنا پڑتا ہے ۔ یا حسرۃ علی العباد اور پھر ہم نصب العین کے اس افق بلند پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں ۔ یاس و حسرت کی یہ کیفیت فوراً رفو ہوجاتی ہے ۔ امید کی کرن نظر آتی ہے ۔ اللہ پر یقین پختہ ہوجاتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کی قوت اور برتری پر غیر متزلزل یقین پیدا ہوجاتا ہے اور جب اپنے مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو افق پر امید کی کرن موجود پاتے ہیں ۔ وہ روشن تر اور واضح تر ہے ۔ ضروری ہے کہ اس طویل تھکاوٹ اور مصائب نے ایک بار پھر اسلامی نظام زندگی پر ان کا یقین پختہ کردیا ہو۔ امید ہے اس اعلیٰ وارفع نظام کی طرف انسانیت ایک بار پھر بڑھے گی اور یہ مان لے گی کہ اللہ ہی مستعان ہے وہی معین و مددگار ہے ۔
Top