Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 163
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَاِلٰهُكُمْ : اور معبود تمہارا اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے الرَّحْمٰنُ : نہایت مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
تمہارا اللہ ایک ہی اللہ ہے ، اس رحمٰن اور رحیم کے سوا کوئی اور اللہ نہیں ہے۔ “
(اور اس حقیقت کو پہچاننے کے لئے کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے ہیں دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ۔ بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے ۔ ہواؤن کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بناکر کر کھے گئے ہیں بیشمار نشانیاں ہیں مگر (وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔ کاش جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سوجھنے والا ہے وہ آج ان ظالموں کو سوجھ جائے گا ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے ۔ جب وہ سزا دے گا اس کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور راہ نما ، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی ، اپنے اپنے پیروؤں سے بےتعلقی ظاہر کریں گے مگر سزا پاکر رہیں گے ۔ اور ان کے سارے اسباب ووسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے ، کہیں گے کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہارکر رہے ہیں ، ہم ان سے بیزار ہوکر دکھا دیتے ۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال ، جو یہ دنیا میں کررہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ، مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔ ایمانی تصورحیات وحدت الوہیت کے اصول پر قائم ہے ۔ رسول ﷺ کے وقت اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں کوئی تنازع نہ تھا ۔ البتہ ذات باری ، صفات باری اور مخلوق و خالق کے باہمی تعلق کے بارے میں اختلاف رائے ضرور تھا ۔ کوئی بھی اللہ کے وجود کے بارے میں اختلاف نہ کرتا تھا۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ انسانی فطرت نے کبھی وجود باری کو بھلادیا ہو۔ یا انسان کسی خدا کا قائل نہ رہا ہو۔ یہ تو اس دورجدید کی بیماری ہے جب اذہان میں ایسے افکار اگ آئے ، جن کا تعلق زندگی کے شجرہ طیبہ سے نہیں ہے ، جو فطرت کے عین خلاف ہیں ، جن کے نتیجے میں انسان نے سرے سے وجود باری کا بھی انکار کردیا ۔ یقیناً یہ اوپرے افکار ہیں اور موجودات وکائنات میں ان کی کوئی جڑ موجود نہیں ہے ۔ ایک وقت ضرور آئے گا جب یہ افکار سرے سے ناپید ہوجائیں گے اور ان کا کوئی نام ونشان بھی نہیں رہے گا ۔ کائنات کی تشکیل وتکوین اور اس کی ساخت ان افکار کی متحمل نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کو فطرت کائنات مسترد کرتی ہے اور یہ لوگ اس لئے ناقابل برداشت ہیں کہ ان کے افکار کی جڑیں فطرت کائنات میں نہیں ہیں ۔ عقیدہ توحید انسان کے نظریہ حیات میں ایک ضروری تصحیح ہے ، اسلامی نظام حیات کے لئے تو خشت اول ہے ۔ اس لئے قرآن حکیم بار بار عقیدہ توحید کا بیان مختلف پیرایوں میں کرتا ہے ۔ یہی وہ بنیاد اور اساس ہے جس پر اسلام کا اخلاقی نظام اور اس کی اجتماعی تنظیم استوار ہوئی ۔ یعنی اس کائنات میں وحدت ربوبیت کا تصور وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌتمہارا اللہ ایک ہی ہے لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ” اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے ۔ رحمان ہے رحیم ہے ۔ “ تاکید اور بار بار تاکید ، یعنی وحدانیت الٰہ کی اس تاکید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معبود ایک ہوجاتا ہے جس کی تمام مخلوق بندگی کرتی ہے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے ۔ وہ سمت ایک متعین ہوجاتی ہے جس سے پوری مخلوق اپنے اخلاق اور اپنے طرز عمل کے اصول اور طریقے اخذ کرتی ہے اور وہ ماخذ اور منبع بھی متعین ہوجاتا ہے ۔ جس سے انسان شریعت و قانون کے اصول اخذ کرتا ہے۔ اور وہ واحد نظام حیات بھی متعین ہوجاتا ہے جو انسان کے تمام اصول حیات میں متصرف ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں امت مسلم کو کو اس عظیم رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اسے کرہ ارض پر ادا کرنا ہے ۔ اس مناسبت سے یہاں اس حقیقت کا پھر ذکر کردیا جاتا ہے ۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں باربار کیا جاتا ہے ۔ جو قرآن مجید کا وہ سایہ دار درخت ہے جس کی جڑیں دورتک زمین میں گئی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں عقل و شعور کے آسمان پر دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ بلکہ وہ اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں ۔ اس حقیقت کا ذکر یہاں مقرر کردیا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تمام قانون سازی اور ضابطہ بندی میں سے پیش نظر رکھا جائے ۔ کیا ہے وہ حقیقت ؟ وہ ہے توحید الٰہی۔ پھر یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات رحمٰن رحیم کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ تما تشریعات وضابطہ بندیوں کا ماخذ اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی یہ گہری اور عمومی صفت ، صفت رحمت ہے ۔
Top