Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 161
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کافر ہوئے وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : کافر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ عَلَيْهِمْ : ان پر لَعْنَةُ : لعنت اللّٰهِ : اللہ وَالْمَلٰٓئِكَةِ : اور فرشتے وَالنَّاسِ : اور لوگ اَجْمَعِيْنَ : تمام
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دے دی ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔
اور جو لوگ اپنی غلط روش پر مصر ہوتے ہیں اور مہلت اور فرصت کو غنیمت نہیں سمجھتے تو وہ یقیناً اپنے اس انجام کو پہنچیں گے جس کی وعید اللہ نے اس سے قبل ان سے فرمائی ہے ۔ اور اب زیادہ تفصیل وتاکید سے کہا جاتا ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (161) خَالِدِينَ فِيهَا لا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْظَرُونَ (162) ” اور جن لوگوں نے کفر کارویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت میں جان دی ، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔ “ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے اس کھلے دروازے کو ، خود اپنے اوپر بند کردیا ، انہوں نے فرصت کو غنیمت نہ جانا اور موقع ہاتھ سے چلا گیا اور کتمان حق ، اور کفر وضلالت پر اصرار کیا : أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ” ان پر اللہ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت۔ “ یہ ہمہ جہت لعنت ہوگی ، کسی صورت میں بھی وہ اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے ۔ نہ کسی سینے میں ان کے لئے رحم ہوگا ۔ قرآن کریم نے ہمہ جہت لعنت کے سوا ان کے لئے کسی عذاب کا تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ کہا ہے کہ اس عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی۔ نہ کوئی تاخیر ہوگی اور انہیں کسی قسم کی کوئی مہلت نہ دی جائے گی یہ ایک ایسا عذاب ہے جس سے تمام دوسرے عذاب کم ہوں گے ، دھتکارنے ، پرے پھینک دینے اور اظہار لاتعلقی کا عذاب۔ کوئی ان پر رحم کرنے والا نہ ہوگا۔ کوئی آنکھ انہیں قبول نہ کرے گی ، کسی زبان پر ان کے لئے سلام تک نہ ہوگا۔ ہر طرف سے لعنت ، دھتکار اور قطع تعلق ، انسانوں کی طرف سے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ، زمین پر بھی اور آسمانوں پر بھی ، ہر جگہ اور ہر طرف سے ۔ یہ ہے وہ دردناک اور توہین آمیز عذاب۔ اس کے بعد سیاق کلام توحید کی طرف پھرجاتا ہے ، ایمانی تصور حیات کی بنیاد عقیدہ توحید پر رکھی جاتی ہے ۔ کائنات سے ایسے مشاہد پیش کئے جاتے ہیں ، جو عقیدہ توحید پر ناقابل تردید دلائل پیش کرتے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔ ان پر تنقید ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قیامت کے دن یہ لوگ کس قدر ذلیل و خوار ہوں گے ، جب عذاب الٰہی سامنے ہوگا ، تابع متبوع سے ۔ متبوع تابع سے تبرّیٰ کررہا ہوگا ، لیکن کوئی معذرت بھی انہیں کچھ فائدہ نہ دے سکے گی ۔ ان کی پشیمانی ان کے لئے مفید نہ ہوگی نہ انہیں اس کی وجہ سے نار جہنم سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔
Top