Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں بنایا
اُمَّةً
: امت
وَّسَطًا
: معتدل
لِّتَكُوْنُوْا
: تاکہ تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
وَيَكُوْنَ
: اور ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
عَلَيْكُمْ
: تم پر
شَهِيْدًا
: گواہ
وَمَا جَعَلْنَا
: اور نہیں مقرر کیا ہم نے
الْقِبْلَةَ
: قبلہ
الَّتِىْ
: وہ کس
كُنْتَ
: آپ تھے
عَلَيْهَآ
: اس پر
اِلَّا
: مگر
لِنَعْلَمَ
: تاکہ ہم معلوم کرلیں
مَنْ
: کون
يَّتَّبِعُ
: پیروی کرتا ہے
الرَّسُوْلَ
: رسول
مِمَّنْ
: اس سے جو
يَّنْقَلِبُ
: پھرجاتا ہے
عَلٰي
: پر
عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیاں
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانَتْ
: یہ تھی
لَكَبِيْرَةً
: بھاری بات
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
ھَدَى
: ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُضِيْعَ
: کہ وہ ضائع کرے
اِيْمَانَكُمْ
: تمہارا ایمان
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِالنَّاسِ
: لوگوں کے ساتھ
لَرَءُوْفٌ
: بڑا شفیق
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط “ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے ، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے ۔ معاملہ تھا تو بڑا سخت ، مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہیں ہواجو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ، اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق رحیم ہے۔ “
اب روئے سخن امت مسلمہ کی طرف ہوجاتا ہے ۔ اے بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات میں وہ کس عظیم مرتبے کی حامل ہے اور اس کرہ ارض پر اسے کیا فرائض سر انجام دینے ہیں ؟ عالم انسانیت میں اسے کیا فضیلت و برتری حاصل ہے ؟ لوگوں کی زندگی میں اسے کیا رول ادا کرنا ہے ۔ اس مقام اور مرتبے کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک ہی خاص قبلہ ہو ۔ وہ ایک مخصوص تشخص کا مالک ہو۔ چھوڑئیے اور باتیں اس رب عظیم کی سنئے جس نے اس امت کو عظیم مشن کے لئے منتخب کیا : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ” اس طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا “ تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ “ یہ امت وسط ہے ۔ لوگوں پر گواہ ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے درمیان عدال و انصاف قائم کرے ۔ ان کے لئے معیار حق واقدار حیات کا تعین کرے ۔ ان کو ایسی رائے دے جو رائے عامہ بن جائے ۔ اور لوگ اس پر اعتماد کریں ۔ وہ تمام دنیا کے لوگوں کی اقدار ، ان کے نظریات ، ان کے رسم و رواج اور ان کے قومی شعاروں کا بغور جائزہ لے اور اپنا فیصلہ سنادے ! یہ حق ہے اور یہ باطل !” وہ کوئی ایسی امت نہیں ہے کہ دوسری اقوام سے نظریات ، اقدار اور معیار حسن وقبح حاصل کرے ۔ وہ لوگوں پر گواہ ہے اور ایک منصف اور جج کے منصب پر فائز ہے ۔ جس طرح وہ لوگوں پر گواہ ہے ۔ خود رسول اللہ ﷺ اس پر گواہ ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ اس امت کے لئے اقدار حیات اور معیار حق تجویز کریں گے ۔ اس کے اعمال اور رسم و رواج کے بارے میں فیصلہ دیں گے ۔ اس کے افعال واقوال کے بارے میں آخری فیصلہ رسول اللہ ﷺ دیں گے ۔ اس سے اس امت کی حقیقت اور اس کے فرائض معلوم ہوجاتے ہیں ۔ اسے چاہئے کہ اپنی حقیقت سے اچھی طرح روشناس ہوجائے ۔ اپنی اہمیت اور قدر و قیمت جانے اور اس دنیا میں اپنے منصب وکردار کو ٹھیک طرح متعین کرے اور اسے ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار بھی کرے ، یعنی وہ لوگوں کے لئے معیار حق ہو اور رسول اللہ ﷺ اس کے لئے معیار حق ہوں۔ یہ امت ، امت وسط ہے ۔ وسط کے ہر مفہوم کے اعتبار سے وہ وسط ہے ۔ وسط کا مفہوم اگر احسن و افضل ہو ، تو پھر بھی یہ وسط ہے ۔ وسط کا مفہوم اگر میانہ روی اور اعتدال لیا جائے تو بھی یہ وسط ہے ۔ وسط سے مراد اگر مادی اور حسی وسط مراد ہو تو بھی یہ امت ، امت وسط ہے۔ ” امت وسط “ عقائد ونطریات میں وسط ، میانہ رو ، روحانی تجرد میں ڈوبی ہوئی اور نہ مادہ پرستی میں گرفتار ۔ بلکہ اصول فطرت کو اپنائے ہوئے ہے ۔ مثلاً انسانی جسم کیا ہے ؟ ایک مادہ ہے اور روح کو جسم مادی میں پیوست کیا گیا ہے یا مادی جسم کو روح کے ساتھ ایک کردیا گیا ہے ۔ یہ امت ان مختصر عناصر کے مرکب اس انسان کو ، بلکہ اس کے عناصر ترکیبی میں سے ہر عنصر کو پورا پورا حق دیتی ہے ۔ وہ روحانی زندگی کی ترقی اور کمال کے لئے بھی کام کرتی ہے اور انسان کی مادی ضروریات پوری کرکے اس کی اس مادی زندگی کی بقا کا کام بھی کرتی ہے ۔ یہ امت انسان کی آزادی فکر ، اس کی آزادی اظہا رخیال اور اس کی ذاتی ذوق وشوق کی تسکین کے بلا افراط وتفریط ۔ میانہ روی اور ہم آہنگی اور اعتدال کے ساتھ ، ایک وسیع دائرہ مقرر کرتی ہے اور انسان کو اس دائرے میں پوری پوری آزادی دیتی ہے ۔ یہ امت وسط ہے ، فکر و شعور کے میدان میں بھی ، یہ موجودہ ذخیرہ علم پر قانع اور منجمد ہوکر نہیں بیٹھ جاتی اور نہ علم ومعرفت اور تجربہ وتحقیق کے دروازے بند کردیتی ہے ، لیکن وہ ہر سوچے سمجھے بغیر ہر نعرہ باز کے پیچھے نہیں لگ جاتی ۔ بندر کی طرح ہر کسی کی نقل بھی نہیں کرتی ۔ وہ اپنے نظریات ، اصول اور نظام فکر وعمل کی محافظ بن جاتی ہے اور انہیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتی ہے ، لیکن پوری انسانیت کے افکار وتجربات پر بھی کڑی نطر رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ اور اس کی مستقل پالیسی یہ ہے !” سچائی مومن کا سامان گم گشتہ ہے۔ جہاں اسے مل گیا وہ اسے اٹھالے گا ۔ “ لیکن ثابت قدمی ، مستقل مزاجی اور یقین کے ساتھ۔ وہ نظم وضبط میں بھی امت وسط ہے ۔ وہ کارگاہ حیات میں انسان کو ، اس قدر آزاد بھی نہیں چھوڑتی کہ اس ضمیر و شعور کے سوا کوئی خارجی چیک نہ ہو ۔ اس طرح وہ اسے پوری خشک قانونی جکڑ بندی اور جبری اصلاح کے طریقوں کے رحم وکرم پر بھی نہیں چھوڑدیتی بلکہ وہ ایک طرف رشد واصلاح کے ذریعہ ضمیر و شعور کو اجاگر کرتی ہے اور معاشرے میں نیکی کا شعور پیدا کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف سے قانونی نظام اور تعزیری تادیب کے ذرائع بھی استعمال میں لاتی ہے اور معاشرے کو منظم کرتی ہے ۔ بلکہ رشد وہدایت اور قانون تعزیر کے درمیان ایک حسین امتراج کی قائل ہے ۔ نہ وہ انسان کو صرف قانون کی جبریت کے حوالہ کرتی ہے اور نہ اس قدر آزاد چھوڑتی ہے۔ یہ امت ، امت وسط ہے ۔ روابط وتعلقات میں بھی امت وسط ہے ۔ وہ فرد کے ذاتی وجود کو بھی ایک حقیقت تصور کرتی ہے ، اس لئے اسے بالکل یہ نظر انداز نہیں کرتی کہ فرد کی شخصیت کو جماعت یا ریاست کی شخصیت میں بالکل گم کردیا جائے ۔ نہ ہی اس کو اس قدر آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ وہ یکلخت خود سر ہوجائے اور اس کے سامنے اپنی ذات کے سوا کچھ نہ رہے ۔ وہ فرد کے ان ذاتی رجحانات اور ان ذاتی قوتوں کو آزادچھوڑ دیتی ہے جن کے نتیجے میں معاشرے میں حرکت اور فعالیت پیدا ہو اور وہ ترقی کرے ۔ وہ ایسے رجحانات اور ایسی خصوصیات کو آزادی دیتی ہے ، جس سے فرد کی ذات اور اس کی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہو۔ اس کے بعد وہ سوچ سمجھ کر ایسی پابندیاں عائد کرتی ہے جو غلو اور افراط وتفریط کو منضبط کردیں۔ عام طور پر وہ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے جذبہ خدمت خلق پیدا ہو ، لیکن اس کے بعد ایسی قانونی تدابیر بھی اختیار کرتی ہے جن کے ذریعہ فرد جماعت کا خادم ہو اور ریاست اور جماعت فرد کی کفیل ہوں اور امت وسط یہ کام بڑی ہم آہنگی سے انتہائی مناسب طریقے سے سر انجام دیتی ہے۔ جغرافیہ کے لحاظ سے بھی یہ امت وسط ہے۔ وہ زمین کے درمیان میں رہتی ہے ۔ کرہ ارض کے آباد علاقے کے مرکز میں ، روئے زمین پر جہاں یہ امت آباد ہے وہ شمال وجنوب اور شرق وغرب کے عین وسط میں واقعہ ہے ۔ انسان پر وہ گواہ اور پوری انسانیت اس پر گواہ ۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کو تمام باشندگان زمین کو عطا کرتی ہے اور اس امت کے واسطہ ہی سے قدرت کے مادی خزانے اور روحانی خزانے پوری انسانی آبادی تک پہنچتے ہیں ۔ اور وہ اس اہم مقام عالی پر حاکم ومختار ہے ۔ اور تمام دنیا کی ملادی اور روحانی حرکات اس کے زیر اثر نظر آتی ہیں ۔ مکان کے بعد زمانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بھی امت ، امت وسط ہے ۔ انسان کا عہد طفولیت آتے آتے اس امت پر ختم ہوجاتا ہے ۔ اس امت سے ، عقل و دانش کا دور بلوغ شروع ہوتا ہے ۔ انسان کے عہد طفولیت سے ۔ اس کے ساتھ اوہام و خرافات کی آلودگی چلی آرہی تھی ۔ یہ امت وسط ، انسانی تاریخ کے ادوار کے وسط میں کھڑی اسے جھاڑ رہی ہے ۔ اور اس دور بلوغ میں بھی اسے فتنہ خود سری اور عقلی بےراہ روی سے بچارہی ہے ۔ اس نے پیغمبروں کے دور کی خدائی ہدایات وتعلیمات اور عقل و حکمت کے دور جدید کے علمی اکتشافات کے درمیان ایک حسین ہم آہنگی پیدا کردی ہے اور وہ عین وسط میں راہ مستقیم پر پوری انسایت کو لے کر چلتی نظر آتی ہے اور ہر وقت نقطہ اعتدال پر رہتی ہے۔ یہ تھا وہ مقام جو کبھی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشا تھا۔ کیا وہ اسے دوبارہ نہیں حاصل کرسکتی ؟ یقیناً وہ اسے دوبارہ حاصل کرسکتی ہے ۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس امت نے اس نظام زندگی کو ترک کردیا ہے ، جسے اللہ نے اس کے لئے پسند کیا تھا ۔ اس کے بجائے اس نے دوسرے نظام ہائے زندگی کو اپنالیا ، جنہیں اللہ نے اس کے لئے پسند نہیں کیا۔ اس امت نے کچھ دوسرے رنگ ڈھگ اختیار کرلئے ہیں ۔ جن میں سے ایک بھی صبغۃ اللہ نہیں ہے ۔ حالانکہ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالص اللہ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو۔ یہ ہے امت اور یہ ہے اس کا مشن اور یہ ہے اس کا رول ۔ وہ اس لائق ہے کہ یہ ذمہ داریاں اٹھائے اور اس راہ میں قربانیاں دے۔ مقام قیادت کے لئے جو کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ کچھ فرائض ہوتے ہیں ۔ مقام قیادت کے حصول سے پہلے آزمائشیں ضروری ہوتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ امت ، اللہ کے معاملے میں کس قدر مخلص ویکسو ہے ۔ اور وہ کس حد تک ایک صالح قیادت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم صادر ہوگیا اور اس موقع پر اس کی وضاحت بھی ہوگئی کہ مسلمانوں کو کیوں حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کی طرف رجوع کرکے نماز پڑھیں وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ” پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے۔ “ اس آیت سے وہ منصوبہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جو اس نوخیز جماعت کی دینی تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا تھا ، اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ جماعتِ اسلامی نظریہ کی وارث وامین ہوگی اور خلافت فی الارض کا منصب حاصل کرے گی ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالصتًا اس نظریہ حیات کے لئے کام کرے اور وہ اپنے دل و دماغ کو تمام جاہلی تصورات کے اثر سے پاک کردے ۔ وہ تمام قدیم عادات اور قومی خصوصیات کو ترک کردے ۔ جاہلیت کی ہر سلگتی ہوئی چنگاری کو بجھادے ۔ جاہلیت کے تمام لباس کو اتار پھینکے ۔ جاہلیت کا ہر شعار ترک کردے ۔ اس کے شعور میں صرف اسلامی سند ہو ، خالص اسلامی شعار ، ہر آمیزش سے پاک شعار ۔ اس کے رشد وہدایت کا سرچشمہ ایک اور صرف ایک ہو ، کوئی دوسرا سرچشمہ اس میں شریک نہ ہو۔ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے معاملہ میں نظریاتی رجحان کے علاوہ کچھ اور رجحانات بھی تھے ۔ قریش مکہ کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خالص اسلامی نظریہ ان کے ہاں خالص نہ رہا تھا۔ اس میں مختلف اقسام کی شرک داخل ہوچکی تھی اور قومی عصبیت بھی ان کے دین کا حصہ بن چکی تھی ۔ اس وقت بیت اللہ صرف عربوں کا مقدس مقام تصور ہوتا تھا اور اللہ کی رضا اس میں تھی کہ وہ عربوں کے بجائے اللہ کا مقدس مقام ہو۔ اور اللہ کی نسبت کے سوا اس کی طرف کوئی اور نسبت نہ ہو ۔ اور یہ مقام صرف ربانی شعار ہو ، کوئی اور نسبت اس سے منسلک نہ ہو۔ چونکہ کعبہ شریف کے ساتھ عربوں کے تاریخی جذبات بھی وابستہ تھے ۔ اور قومی میلانات بھی وابسطہ تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر عرصے کے لئے یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کا قبلہ ، کعبہ شریف کے بجائے مسجد اقصیٰ ہوگا تاکہ عربوں کے دلوں سے خانہ کعبہ کے سلسلے میں تاریخی اور قومی میلانات کی جڑ کٹ جائے ، پھر یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں سے کون جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے اور کون ہے جو نہیں کرتا ۔ وہ لوگ جو رسول ﷺ کی اطاعت محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ رسول خدا ہیں ، ان لوگوں سے جدا ہوجائیں جو اس لئے آپ کے مطیع فرمان ہیں کہ آپ عرب ہیں اور خانہ کعبہ کو قبلہ وکعبہ سمجھتے ہیں ، اور اس وجہ سے کہ ان کے قومی شعور اور ان کے قدیم مقامات مقدسہ کے احترام کے جذبات کو اسلام میں بھی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ کہ ان کے تاریخی میلانات کا سامان تسکین اسلام میں بھی ہے اور ضرور اسی وجہ سے وہ مسلمان ہیں ۔ یہ ایک نہایت لطیف اور دقیق نکتہ ہے ۔ اسلام کا نظریہ حیات وحدہ لاشریک ہے اور جب وہ کسی دل میں جاگزیں ہوجائے تو پھر اس دل میں وہ کسی اور شریک کو برداشت نہیں کرتا ۔ وہ اپنے شعار اور اپنی خصوصیات کے سوا تمام دوسرے شعارات و خصوصیات کو ختم کردیتا ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات تمام جاہلی طور طریقوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے ۔ بڑے ہوں یا چھوٹے ۔ یہ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ” پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ تو مستقبل میں ہونے والے واقعات سے قبل از وقوع ہی باخبر ہیں ، لیکن اراہ الٰہی یہ ہوتا ہے کہ ہونے والا واقعہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے اور اس کے بعد محاسبہ کیا جائے اور سزا دی جائے ۔ وہ اپنے رحم وکرم کی وجہ سے محض اپنے علم مستقبل کی بناپر سزا نہیں دیتا۔ صرف ان امور پر سزا دیتا ہے جو واقع ہوجائیں اور مجرم سے ان کا صدور ہوجائے ۔ یہ بات اللہ کے علم میں تھی تمام تاریخی اور قومی شعوری رجحانات کو یکلخت ترک کردینا ، ایسی خصوصیات اور شعارات کو جو دل وجان سے اٹکی ہوئی ہوں اور جو دل و دماغ میں رچی بسی ہوں ، یکلخت ترک کردینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے ، نہایت ہی شاق ہوتا ہے ان کا اکھاڑ پھینکنا۔ یہ کام صرف اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب ایمان دل و دماغ پر پوری طرح چھاجائے اور پھر اس دل کو خدائی امداد حاصل ہو اور ذات باری کا قرب حاصل ہو۔ ذات باری اسے اپنے ساتھ ملالے اور اس کی راہنمائی کرے وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ” یہ معاملہ تھا بڑا سخت مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہ ہوا ، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ۔ “ چونکہ وہ ہدایت الٰہی سے فیض یاب ہے ، اس لئے ان کے لئے ، اپنے دل و دماغ سے جاہلی تصورات کو نکال دینا کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ اور انہوں نے ہدایت پاتے ہیں جاہلیت کے تمام نشانات کو پرے پھینک دیا ۔ یہ امت اللہ کی امت بن گئی سمع وطاعت اس کا شعار ہوگیا اور حالت یہ ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ جس طرف چاہیں اسے ادھر موڑ دیں ۔ رسول اللہ ﷺ جدھر چاہیں انہیں لے جائیں۔ اب مسلمانوں کو ان کے ایمان اور ان کی نماز کے بارے میں اطمینان دلایا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر گامزن ہیں ۔ اس لئے ان کی نمازیں ضائع نہیں ہوسکتیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ وہ اس کی جو عبادت بھی گزارتے ہیں ، اسے ضائع نہیں کرتا ، وہ ان پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو ۔ اگرچہ یہ طاقت ایمان کی وجہ سے قوی تر ہوجاتی ہے بلکہ وہ دوچند ہوجاتی ہے : وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ” اللہ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ، یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں نہایت شفیق ورحیم ہے ۔ “ وہ انسان کی طاقت اور قوت برداشت سے اچھی طرح باخبر ہے ۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا حکم صادر نہیں کرتا جو ان کے دائرہ طاقت سے باہر ہو ۔ وہ تو انسان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ اور اگر ان کی نیت ٹھیک ہو ، عزم پختہ ہو تو وہ ہر امتحان میں خود ان کی امداد کرتا ہے تاکہ وہ کامیابی کے ساتھ اس آزمائش سے نکل آئیں ۔ اگر امتحان وآزمائش اس کی حکمت کا مظہر ہیں ، تو آزمائش میں پورا اترنا اس کا فضل وکرم ہے : إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ” یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں شفیق ورحیم ہے ۔ “ یوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت قلب کا جام انڈیل دیتا ہے ۔ ان کی بےاطمینانی دور ہوجاتی ہے ۔ اور ان کے دلوں میں رضائے الٰہی کا پختہ شعور اور یقین پیدا ہوجاتا ہے ۔ اب اعلان ہوتا ہے کہ قبلہ کے معاملہ میں رسول خدا ﷺ کی خواہش پوری کردی گئی ۔ تحویل قبلہ کا اعلان ہوجاتا ہے ، لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہودیوں کی فتنہ انگیزی سے بھی باخبر کردیا جاتا ہے ۔ ان عوامل اور محرکات سے بھی پردہ اٹھایا جاتا ہے جو اس فتنہ انگیزی اور مسلسل سازشوں کے پس منظر میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ اس انداز میں کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم جدوجہد کا صحیح علم ہوجائے ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تنظیم وتربیت کے لئے کی جارہی ہے جو مخالفین کی فتنہ انگیزیوں اور غوغا آرائیوں سے بچانے کے لئے ، اس کی خاطر کی جارہی ہے ۔
Top