Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط “ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے ، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے ۔ معاملہ تھا تو بڑا سخت ، مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہیں ہواجو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ، اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق رحیم ہے۔ “
اب روئے سخن امت مسلمہ کی طرف ہوجاتا ہے ۔ اے بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات میں وہ کس عظیم مرتبے کی حامل ہے اور اس کرہ ارض پر اسے کیا فرائض سر انجام دینے ہیں ؟ عالم انسانیت میں اسے کیا فضیلت و برتری حاصل ہے ؟ لوگوں کی زندگی میں اسے کیا رول ادا کرنا ہے ۔ اس مقام اور مرتبے کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک ہی خاص قبلہ ہو ۔ وہ ایک مخصوص تشخص کا مالک ہو۔ چھوڑئیے اور باتیں اس رب عظیم کی سنئے جس نے اس امت کو عظیم مشن کے لئے منتخب کیا : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ” اس طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا “ تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ “ یہ امت وسط ہے ۔ لوگوں پر گواہ ہے ۔ اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے درمیان عدال و انصاف قائم کرے ۔ ان کے لئے معیار حق واقدار حیات کا تعین کرے ۔ ان کو ایسی رائے دے جو رائے عامہ بن جائے ۔ اور لوگ اس پر اعتماد کریں ۔ وہ تمام دنیا کے لوگوں کی اقدار ، ان کے نظریات ، ان کے رسم و رواج اور ان کے قومی شعاروں کا بغور جائزہ لے اور اپنا فیصلہ سنادے ! یہ حق ہے اور یہ باطل !” وہ کوئی ایسی امت نہیں ہے کہ دوسری اقوام سے نظریات ، اقدار اور معیار حسن وقبح حاصل کرے ۔ وہ لوگوں پر گواہ ہے اور ایک منصف اور جج کے منصب پر فائز ہے ۔ جس طرح وہ لوگوں پر گواہ ہے ۔ خود رسول اللہ ﷺ اس پر گواہ ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ اس امت کے لئے اقدار حیات اور معیار حق تجویز کریں گے ۔ اس کے اعمال اور رسم و رواج کے بارے میں فیصلہ دیں گے ۔ اس کے افعال واقوال کے بارے میں آخری فیصلہ رسول اللہ ﷺ دیں گے ۔ اس سے اس امت کی حقیقت اور اس کے فرائض معلوم ہوجاتے ہیں ۔ اسے چاہئے کہ اپنی حقیقت سے اچھی طرح روشناس ہوجائے ۔ اپنی اہمیت اور قدر و قیمت جانے اور اس دنیا میں اپنے منصب وکردار کو ٹھیک طرح متعین کرے اور اسے ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار بھی کرے ، یعنی وہ لوگوں کے لئے معیار حق ہو اور رسول اللہ ﷺ اس کے لئے معیار حق ہوں۔ یہ امت ، امت وسط ہے ۔ وسط کے ہر مفہوم کے اعتبار سے وہ وسط ہے ۔ وسط کا مفہوم اگر احسن و افضل ہو ، تو پھر بھی یہ وسط ہے ۔ وسط کا مفہوم اگر میانہ روی اور اعتدال لیا جائے تو بھی یہ وسط ہے ۔ وسط سے مراد اگر مادی اور حسی وسط مراد ہو تو بھی یہ امت ، امت وسط ہے۔ ” امت وسط “ عقائد ونطریات میں وسط ، میانہ رو ، روحانی تجرد میں ڈوبی ہوئی اور نہ مادہ پرستی میں گرفتار ۔ بلکہ اصول فطرت کو اپنائے ہوئے ہے ۔ مثلاً انسانی جسم کیا ہے ؟ ایک مادہ ہے اور روح کو جسم مادی میں پیوست کیا گیا ہے یا مادی جسم کو روح کے ساتھ ایک کردیا گیا ہے ۔ یہ امت ان مختصر عناصر کے مرکب اس انسان کو ، بلکہ اس کے عناصر ترکیبی میں سے ہر عنصر کو پورا پورا حق دیتی ہے ۔ وہ روحانی زندگی کی ترقی اور کمال کے لئے بھی کام کرتی ہے اور انسان کی مادی ضروریات پوری کرکے اس کی اس مادی زندگی کی بقا کا کام بھی کرتی ہے ۔ یہ امت انسان کی آزادی فکر ، اس کی آزادی اظہا رخیال اور اس کی ذاتی ذوق وشوق کی تسکین کے بلا افراط وتفریط ۔ میانہ روی اور ہم آہنگی اور اعتدال کے ساتھ ، ایک وسیع دائرہ مقرر کرتی ہے اور انسان کو اس دائرے میں پوری پوری آزادی دیتی ہے ۔ یہ امت وسط ہے ، فکر و شعور کے میدان میں بھی ، یہ موجودہ ذخیرہ علم پر قانع اور منجمد ہوکر نہیں بیٹھ جاتی اور نہ علم ومعرفت اور تجربہ وتحقیق کے دروازے بند کردیتی ہے ، لیکن وہ ہر سوچے سمجھے بغیر ہر نعرہ باز کے پیچھے نہیں لگ جاتی ۔ بندر کی طرح ہر کسی کی نقل بھی نہیں کرتی ۔ وہ اپنے نظریات ، اصول اور نظام فکر وعمل کی محافظ بن جاتی ہے اور انہیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتی ہے ، لیکن پوری انسانیت کے افکار وتجربات پر بھی کڑی نطر رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ اور اس کی مستقل پالیسی یہ ہے !” سچائی مومن کا سامان گم گشتہ ہے۔ جہاں اسے مل گیا وہ اسے اٹھالے گا ۔ “ لیکن ثابت قدمی ، مستقل مزاجی اور یقین کے ساتھ۔ وہ نظم وضبط میں بھی امت وسط ہے ۔ وہ کارگاہ حیات میں انسان کو ، اس قدر آزاد بھی نہیں چھوڑتی کہ اس ضمیر و شعور کے سوا کوئی خارجی چیک نہ ہو ۔ اس طرح وہ اسے پوری خشک قانونی جکڑ بندی اور جبری اصلاح کے طریقوں کے رحم وکرم پر بھی نہیں چھوڑدیتی بلکہ وہ ایک طرف رشد واصلاح کے ذریعہ ضمیر و شعور کو اجاگر کرتی ہے اور معاشرے میں نیکی کا شعور پیدا کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف سے قانونی نظام اور تعزیری تادیب کے ذرائع بھی استعمال میں لاتی ہے اور معاشرے کو منظم کرتی ہے ۔ بلکہ رشد وہدایت اور قانون تعزیر کے درمیان ایک حسین امتراج کی قائل ہے ۔ نہ وہ انسان کو صرف قانون کی جبریت کے حوالہ کرتی ہے اور نہ اس قدر آزاد چھوڑتی ہے۔ یہ امت ، امت وسط ہے ۔ روابط وتعلقات میں بھی امت وسط ہے ۔ وہ فرد کے ذاتی وجود کو بھی ایک حقیقت تصور کرتی ہے ، اس لئے اسے بالکل یہ نظر انداز نہیں کرتی کہ فرد کی شخصیت کو جماعت یا ریاست کی شخصیت میں بالکل گم کردیا جائے ۔ نہ ہی اس کو اس قدر آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ وہ یکلخت خود سر ہوجائے اور اس کے سامنے اپنی ذات کے سوا کچھ نہ رہے ۔ وہ فرد کے ان ذاتی رجحانات اور ان ذاتی قوتوں کو آزادچھوڑ دیتی ہے جن کے نتیجے میں معاشرے میں حرکت اور فعالیت پیدا ہو اور وہ ترقی کرے ۔ وہ ایسے رجحانات اور ایسی خصوصیات کو آزادی دیتی ہے ، جس سے فرد کی ذات اور اس کی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہو۔ اس کے بعد وہ سوچ سمجھ کر ایسی پابندیاں عائد کرتی ہے جو غلو اور افراط وتفریط کو منضبط کردیں۔ عام طور پر وہ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے جذبہ خدمت خلق پیدا ہو ، لیکن اس کے بعد ایسی قانونی تدابیر بھی اختیار کرتی ہے جن کے ذریعہ فرد جماعت کا خادم ہو اور ریاست اور جماعت فرد کی کفیل ہوں اور امت وسط یہ کام بڑی ہم آہنگی سے انتہائی مناسب طریقے سے سر انجام دیتی ہے۔ جغرافیہ کے لحاظ سے بھی یہ امت وسط ہے۔ وہ زمین کے درمیان میں رہتی ہے ۔ کرہ ارض کے آباد علاقے کے مرکز میں ، روئے زمین پر جہاں یہ امت آباد ہے وہ شمال وجنوب اور شرق وغرب کے عین وسط میں واقعہ ہے ۔ انسان پر وہ گواہ اور پوری انسانیت اس پر گواہ ۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کو تمام باشندگان زمین کو عطا کرتی ہے اور اس امت کے واسطہ ہی سے قدرت کے مادی خزانے اور روحانی خزانے پوری انسانی آبادی تک پہنچتے ہیں ۔ اور وہ اس اہم مقام عالی پر حاکم ومختار ہے ۔ اور تمام دنیا کی ملادی اور روحانی حرکات اس کے زیر اثر نظر آتی ہیں ۔ مکان کے بعد زمانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بھی امت ، امت وسط ہے ۔ انسان کا عہد طفولیت آتے آتے اس امت پر ختم ہوجاتا ہے ۔ اس امت سے ، عقل و دانش کا دور بلوغ شروع ہوتا ہے ۔ انسان کے عہد طفولیت سے ۔ اس کے ساتھ اوہام و خرافات کی آلودگی چلی آرہی تھی ۔ یہ امت وسط ، انسانی تاریخ کے ادوار کے وسط میں کھڑی اسے جھاڑ رہی ہے ۔ اور اس دور بلوغ میں بھی اسے فتنہ خود سری اور عقلی بےراہ روی سے بچارہی ہے ۔ اس نے پیغمبروں کے دور کی خدائی ہدایات وتعلیمات اور عقل و حکمت کے دور جدید کے علمی اکتشافات کے درمیان ایک حسین ہم آہنگی پیدا کردی ہے اور وہ عین وسط میں راہ مستقیم پر پوری انسایت کو لے کر چلتی نظر آتی ہے اور ہر وقت نقطہ اعتدال پر رہتی ہے۔ یہ تھا وہ مقام جو کبھی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشا تھا۔ کیا وہ اسے دوبارہ نہیں حاصل کرسکتی ؟ یقیناً وہ اسے دوبارہ حاصل کرسکتی ہے ۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس امت نے اس نظام زندگی کو ترک کردیا ہے ، جسے اللہ نے اس کے لئے پسند کیا تھا ۔ اس کے بجائے اس نے دوسرے نظام ہائے زندگی کو اپنالیا ، جنہیں اللہ نے اس کے لئے پسند نہیں کیا۔ اس امت نے کچھ دوسرے رنگ ڈھگ اختیار کرلئے ہیں ۔ جن میں سے ایک بھی صبغۃ اللہ نہیں ہے ۔ حالانکہ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالص اللہ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو۔ یہ ہے امت اور یہ ہے اس کا مشن اور یہ ہے اس کا رول ۔ وہ اس لائق ہے کہ یہ ذمہ داریاں اٹھائے اور اس راہ میں قربانیاں دے۔ مقام قیادت کے لئے جو کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ کچھ فرائض ہوتے ہیں ۔ مقام قیادت کے حصول سے پہلے آزمائشیں ضروری ہوتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ امت ، اللہ کے معاملے میں کس قدر مخلص ویکسو ہے ۔ اور وہ کس حد تک ایک صالح قیادت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم صادر ہوگیا اور اس موقع پر اس کی وضاحت بھی ہوگئی کہ مسلمانوں کو کیوں حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کی طرف رجوع کرکے نماز پڑھیں وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ” پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے۔ “ اس آیت سے وہ منصوبہ اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جو اس نوخیز جماعت کی دینی تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا تھا ، اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ جماعتِ اسلامی نظریہ کی وارث وامین ہوگی اور خلافت فی الارض کا منصب حاصل کرے گی ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالصتًا اس نظریہ حیات کے لئے کام کرے اور وہ اپنے دل و دماغ کو تمام جاہلی تصورات کے اثر سے پاک کردے ۔ وہ تمام قدیم عادات اور قومی خصوصیات کو ترک کردے ۔ جاہلیت کی ہر سلگتی ہوئی چنگاری کو بجھادے ۔ جاہلیت کے تمام لباس کو اتار پھینکے ۔ جاہلیت کا ہر شعار ترک کردے ۔ اس کے شعور میں صرف اسلامی سند ہو ، خالص اسلامی شعار ، ہر آمیزش سے پاک شعار ۔ اس کے رشد وہدایت کا سرچشمہ ایک اور صرف ایک ہو ، کوئی دوسرا سرچشمہ اس میں شریک نہ ہو۔ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے معاملہ میں نظریاتی رجحان کے علاوہ کچھ اور رجحانات بھی تھے ۔ قریش مکہ کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خالص اسلامی نظریہ ان کے ہاں خالص نہ رہا تھا۔ اس میں مختلف اقسام کی شرک داخل ہوچکی تھی اور قومی عصبیت بھی ان کے دین کا حصہ بن چکی تھی ۔ اس وقت بیت اللہ صرف عربوں کا مقدس مقام تصور ہوتا تھا اور اللہ کی رضا اس میں تھی کہ وہ عربوں کے بجائے اللہ کا مقدس مقام ہو۔ اور اللہ کی نسبت کے سوا اس کی طرف کوئی اور نسبت نہ ہو ۔ اور یہ مقام صرف ربانی شعار ہو ، کوئی اور نسبت اس سے منسلک نہ ہو۔ چونکہ کعبہ شریف کے ساتھ عربوں کے تاریخی جذبات بھی وابستہ تھے ۔ اور قومی میلانات بھی وابسطہ تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر عرصے کے لئے یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کا قبلہ ، کعبہ شریف کے بجائے مسجد اقصیٰ ہوگا تاکہ عربوں کے دلوں سے خانہ کعبہ کے سلسلے میں تاریخی اور قومی میلانات کی جڑ کٹ جائے ، پھر یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں سے کون جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے اور کون ہے جو نہیں کرتا ۔ وہ لوگ جو رسول ﷺ کی اطاعت محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ رسول خدا ہیں ، ان لوگوں سے جدا ہوجائیں جو اس لئے آپ کے مطیع فرمان ہیں کہ آپ عرب ہیں اور خانہ کعبہ کو قبلہ وکعبہ سمجھتے ہیں ، اور اس وجہ سے کہ ان کے قومی شعور اور ان کے قدیم مقامات مقدسہ کے احترام کے جذبات کو اسلام میں بھی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ کہ ان کے تاریخی میلانات کا سامان تسکین اسلام میں بھی ہے اور ضرور اسی وجہ سے وہ مسلمان ہیں ۔ یہ ایک نہایت لطیف اور دقیق نکتہ ہے ۔ اسلام کا نظریہ حیات وحدہ لاشریک ہے اور جب وہ کسی دل میں جاگزیں ہوجائے تو پھر اس دل میں وہ کسی اور شریک کو برداشت نہیں کرتا ۔ وہ اپنے شعار اور اپنی خصوصیات کے سوا تمام دوسرے شعارات و خصوصیات کو ختم کردیتا ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات تمام جاہلی طور طریقوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے ۔ بڑے ہوں یا چھوٹے ۔ یہ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ ” پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھرجاتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ تو مستقبل میں ہونے والے واقعات سے قبل از وقوع ہی باخبر ہیں ، لیکن اراہ الٰہی یہ ہوتا ہے کہ ہونے والا واقعہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے اور اس کے بعد محاسبہ کیا جائے اور سزا دی جائے ۔ وہ اپنے رحم وکرم کی وجہ سے محض اپنے علم مستقبل کی بناپر سزا نہیں دیتا۔ صرف ان امور پر سزا دیتا ہے جو واقع ہوجائیں اور مجرم سے ان کا صدور ہوجائے ۔ یہ بات اللہ کے علم میں تھی تمام تاریخی اور قومی شعوری رجحانات کو یکلخت ترک کردینا ، ایسی خصوصیات اور شعارات کو جو دل وجان سے اٹکی ہوئی ہوں اور جو دل و دماغ میں رچی بسی ہوں ، یکلخت ترک کردینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے ، نہایت ہی شاق ہوتا ہے ان کا اکھاڑ پھینکنا۔ یہ کام صرف اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب ایمان دل و دماغ پر پوری طرح چھاجائے اور پھر اس دل کو خدائی امداد حاصل ہو اور ذات باری کا قرب حاصل ہو۔ ذات باری اسے اپنے ساتھ ملالے اور اس کی راہنمائی کرے وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ” یہ معاملہ تھا بڑا سخت مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہ ہوا ، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ۔ “ چونکہ وہ ہدایت الٰہی سے فیض یاب ہے ، اس لئے ان کے لئے ، اپنے دل و دماغ سے جاہلی تصورات کو نکال دینا کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ اور انہوں نے ہدایت پاتے ہیں جاہلیت کے تمام نشانات کو پرے پھینک دیا ۔ یہ امت اللہ کی امت بن گئی سمع وطاعت اس کا شعار ہوگیا اور حالت یہ ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ جس طرف چاہیں اسے ادھر موڑ دیں ۔ رسول اللہ ﷺ جدھر چاہیں انہیں لے جائیں۔ اب مسلمانوں کو ان کے ایمان اور ان کی نماز کے بارے میں اطمینان دلایا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر گامزن ہیں ۔ اس لئے ان کی نمازیں ضائع نہیں ہوسکتیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ وہ اس کی جو عبادت بھی گزارتے ہیں ، اسے ضائع نہیں کرتا ، وہ ان پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو ۔ اگرچہ یہ طاقت ایمان کی وجہ سے قوی تر ہوجاتی ہے بلکہ وہ دوچند ہوجاتی ہے : وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ” اللہ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ، یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں نہایت شفیق ورحیم ہے ۔ “ وہ انسان کی طاقت اور قوت برداشت سے اچھی طرح باخبر ہے ۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا حکم صادر نہیں کرتا جو ان کے دائرہ طاقت سے باہر ہو ۔ وہ تو انسان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ اور اگر ان کی نیت ٹھیک ہو ، عزم پختہ ہو تو وہ ہر امتحان میں خود ان کی امداد کرتا ہے تاکہ وہ کامیابی کے ساتھ اس آزمائش سے نکل آئیں ۔ اگر امتحان وآزمائش اس کی حکمت کا مظہر ہیں ، تو آزمائش میں پورا اترنا اس کا فضل وکرم ہے : إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ” یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں شفیق ورحیم ہے ۔ “ یوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت قلب کا جام انڈیل دیتا ہے ۔ ان کی بےاطمینانی دور ہوجاتی ہے ۔ اور ان کے دلوں میں رضائے الٰہی کا پختہ شعور اور یقین پیدا ہوجاتا ہے ۔ اب اعلان ہوتا ہے کہ قبلہ کے معاملہ میں رسول خدا ﷺ کی خواہش پوری کردی گئی ۔ تحویل قبلہ کا اعلان ہوجاتا ہے ، لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہودیوں کی فتنہ انگیزی سے بھی باخبر کردیا جاتا ہے ۔ ان عوامل اور محرکات سے بھی پردہ اٹھایا جاتا ہے جو اس فتنہ انگیزی اور مسلسل سازشوں کے پس منظر میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ اس انداز میں کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم جدوجہد کا صحیح علم ہوجائے ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تنظیم وتربیت کے لئے کی جارہی ہے جو مخالفین کی فتنہ انگیزیوں اور غوغا آرائیوں سے بچانے کے لئے ، اس کی خاطر کی جارہی ہے ۔
Top