Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 85
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے۔ْمتعلق الرُّوْحِ : روح قُلِ : کہ دیں الرُّوْحُ : روح مِنْ اَمْرِ : حکم سے رَبِّيْ : میرا رب وَمَآ اُوْتِيْتُمْ : اور تمہیں نہیں دیا گیا مِّنَ الْعِلْمِ : علم سے اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : تھوڑا سا
یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ، کہو یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے ، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے
اس آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عقل انسانی پر روح کا انکشاف بند کردیا گیا ہے اور اسے روح کے میدان میں کام نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ یہاں عقل کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار اور اس حد تک محدود رہے جس تک وہ ادراک کرسکتا ہے ، کیونکہ بغیر حقیقی علم و ادراک کے بےتک باتیں کرنے سے حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ پھر عقل کی قوت کو ایسے کام میں کھپانا جس کا ادراک عقل کے لئے ممکن ہی نہ ہو ، ایک بےمقصد کام ہے۔ روح در حقیقت اللہ کے غیوب میں سے ایک غیب ہ۔ اللہ کے سوا اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔ نہ اس کا ادراک کوئی کرسکتا ہے۔ اور نہ وہ وسائل انسان کو دئیے گئے ہیں بلکہ یہ ایک لاہوتی راز ہے ، جو اس بشری ڈھانچے میں رکھا گیا ہے ۔ اور بعض دوسری مخلوقات کو بھی دیا گیا ہے ، جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ پھر انسان کا علم قادر مطلق کے علم کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز اس قدر گہرے ہیں کہ انسانی عقل کے دائرہ ادارک سے ماوراء ہیں۔ انسان اس کائنات کا مدبر نہیں ہے کیونکہ انسانی قوت اور طاقت اس کائنات پر حاوی نہیں ہے انسان کو تو صرف اس قدر قوت اور حکمت دی گئی ہے جس کے ساتھ وہ اس کرہ ارض پر خلافت فی الارض کا وظیفہ پورا کرسکے۔ اور یہاں وہ کام کرسکے جس کے بارے میں اللہ کی مرضی ہے کہ وہ کرے اور وہ اپنا کام اپنے محدود علم کے مطابق کرے۔ انسان نے اس کرہ ارض پر بیشمار ایجادات کی ہیں لیکن وہ آج تک روح کی حقیقت معلوم کرنے سے صاف عاجز ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ روح کیا ہے ؟ کس طرح یہ روح انسانی ڈھانچے میں ڈالی جاتی ہے۔ کس طرح یہ نکل جاتی ہے یہ پہلے کہاں تھی ، نکل کر کہاں جاتی ہے۔ الایہ کہ علیم وخبیر نے اس سلسلے میں بذریعہ وحی جو علم دیا ہے وہ انسان کا ماخذ علم ہے۔ قرآن کریم میں جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ یقینی علم ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر کے یقینی ذریعے سے آیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو انسانیت کو اس سے محروم رکھتا اور وہ پیغام ہی انسانوں کے پاس نہ بھیجتا جو اس نے بھیجا لیکن یہ اللہ کا رحم و کرم تھا کہ اس نے وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ شروع کیا۔
Top