Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے۔
یہاں قرآن کریم ایک عجیب منظر کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ ایک کشتی ہے جو گہرے سمندروں میں چلتی ہے۔ اس سفر میں بعض نہایت ہی کر بناک مناظر آتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک منظر ہمارے سامنے ہے۔ سمندر کی گہرائیوں اور طلاطم مین انسان کے اندر کسی فوق الفطرت ہستی کا شعور بہت ہی پیدا ہوت ا ہے۔ سمندر کی تاریکیوں اور پہنائیوں میں جہاز لکڑی کا یا دھات کا ہو ایک چھوٹا سا نکتہ ہوتا ہے۔ جو سمندر کی پہاڑ جیسی لہروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ موجیں اور طوفان اسے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ لوگ مارے کوکے اس نکتے جیسے چھوٹے سے جہاز سے چمٹے ہوتے ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جس کا گہرا احساس ہر اس شخص کو ہوتا ہے جس نے کبھی بحری سفر کیا ہو اور اسے ایسے لمحات پیش آئے ہوں۔ دل خشک اور سانس رکی ہوئی ہوتی ہے اور ہر جھٹکے اور ہر زیروبم سے دل بیٹھتے جاتے ہیں۔ چھوٹا جہاز ہو یا بڑا سب میں ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔ نہایت ہی بڑے بڑے بحری جہاز بھی بعض اوقات یوں نظر آتے ہیں جس طرح ایک نہایت ہی سخت طوفان بادو باراں میں ایک پرندے کا پر۔ اس منظر کی تعبیر نہایت ہی حساس انداز سے کی گئی ہے۔ دلوں پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے اور انسان کو یہ شعور ملتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اس کشتی کو چلاتا ہے اور اسے رفتار دیتا ہے تاکہ وہ جہانوں میں چلیں اور اللہ کا فضل و کرم تلاش کریں۔ انہ کان بکم رحیما (71 : 66) ” بیشک وہ تمہارے حال پر بہت ہی مہربان ہے “۔ کیونکہ سمندروں میں اللہ کا رحم و کرم سب کا مطلوب ہوتا ہے اور ہر سوار رحمت ربی کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کا شعور اپنے اندر پاتا ہے۔
Top