Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 59
وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَ١ؕ وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَا١ؕ وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا
وَمَا مَنَعَنَآ : اور نہیں ہمیں روکا اَنْ : کہ نُّرْسِلَ : ہم بھیجیں بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ كَذَّبَ : جھٹلایا بِهَا : ان کو الْاَوَّلُوْنَ : اگلے لوگ (جمع) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی ثَمُوْدَ : ثمود النَّاقَةَ : اونٹنی مُبْصِرَةً : دکھانے کو (ذریعہ بصیرت فَظَلَمُوْا بِهَا : انہوں نے اس پر ظلم کیا وَ : اور مَا نُرْسِلُ : ہم نہیں بھیجتے بِالْاٰيٰتِ : نشانیاں اِلَّا : مگر تَخْوِيْفًا : ڈرانے کو
اور ہم کو نشانیان بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس بات نے کہ ان سے پہلے لوگ ان کو جھٹلا چکے ہیں (چنانچہ دیکھ لو) ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لاکر دی اور انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ہم نشانیاں اسی لئے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں
اسلام کا معجزہ و فقط یہ قرآن ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو زندگی کا ایک مکمل نظام عطا کرتی ہے۔ یہ کتاب انسان کے دل و دماغ اور عقل و خرد کو اپیل کرتی ہے۔ انسان کی فطرت سلیمہ کو اپیل کرتی ہے۔ پھر یہ ایک زندہ جاوید اور مسلسل معجزہ ہے ، قیامت تک لوگ اسے پڑھیں گے اور ایمان لاتے رہیں گے۔ رہے خارچ عادت معجزات تو وہ صرف مخصوص نسل کو اپیل کرتے ہیں ، جنہوں نے انہیں دیکھا۔ بعد میں آنے والوں کے لئے وہ ایک تاریخی واقعہ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے انبیائے سابقین کے ان معجزات کو دیکھا ان میں سے اکثریت نے ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اللہ نے بطور نمونہ قوم ثمود کے معجزہ ناقہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے ایک واضح معجزے کا مطالبہ کیا تھا اور یہ ناقہ ان کے طلب کردہ معجزے کے طور پر آئی تھی لیکن انہوں نے اس کے باوجود اس کے ساتھ ناانصافی کی اور اسے ہلاک کردیا۔ اسی طرح اللہ نے یہ پوری قوم ہلاک کردی اور معجزات کا صدور ہی اس لئے ہوتا ہے کہ اگر ان کے بعد بھی کوئی تسلیم نہیں کرتا تو اسے ہلاک کردیا جائے۔ ان انسانی تجریات کا تقاضا یہ تھا کہ آکری رسالت کو خوارق عادت معجزات کی تائید کی ضرورت نہ ہو کیونکہ یہ آخری کتاب اور یہ آخری رسالت ان تمام نسلوں کے لئے ہے جو تاقیامت تک اس دنیا میں آئیں گی۔ یہ صرف ان نسلوں تک محدود نہیں ہے جن کے سامنے حضور اکرم ﷺ بذات خود موجود تھے کیونکہ یہ آخری رسالت عقل انسانی کے بلوغ کی رسالت ہے اور اب یہ تمام آنے والی نسلوں کی عقل و دانش سے مخاطب ہے۔ اور یہ رسالت انسان کے فہم اور ادراک کی قوتوں کا احترام کرتی ہے کیونکہ اپنے فہم و ادراک ہی کی وجہ سے انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔ رہے وہ معجزات جن کا صدور حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ پر ہوا ، ان میں سے ایک معجزہ واقعہ اسرا اور معراج ہے ، تو یہ معجزہ برائے تصدیق رسالت نہ تھا۔ یہ تو لوگوں کی فہم و فراست کی ایک آزمائش تھی۔
Top