Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 47
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ یَسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ یَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا
نَحْنُ : ہم اَعْلَمُ : خوب جانتے ہیں بِمَا : جس غرض سے يَسْتَمِعُوْنَ : وہ سنتے ہیں بِهٖٓ : اس کو اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ : جب وہ کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَاِذْ : اور جب هُمْ : وہ نَجْوٰٓى : سرگوشی کرتے ہیں اِذْ يَقُوْلُ : جب کہتے ہیں الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) اِنْ : نہیں تَتَّبِعُوْنَ : تم پیروی کرتے اِلَّا : مگر رَجُلًا : ایک آدمی مَّسْحُوْرًا : سحر زدہ
ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں ، اور جب بیٹھ کر باہم سرگوشیاں کرتے ہیں تو کیا کہتے ہیں۔ یہ ظالم آپس میں کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے جس کے پیچھے تم لوگ جا رہے ہو
اذ یقول الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا (71 : 74) ” یہ ظالم آپس میں کہتے تھے کہ یہ تو ایک سحر زدہ آدمی ہے “۔ لیکن خود ان کے اس الزام کے اندر ان کی کمزوری ظاہر ہے ، اس الزام ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن سے بےحد متاثر تھے۔ کیونکہ وہ اندر اندر سے یہ اعتراف کرتے تھے کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا ، اس کے اندر غیر بشری رنگ ہے ، یہ نہایت ہی خفیہ انداز میں غیر محسوس طور پر اپنے شعور اور وجدان میں اس بات کو پاتے تھے کہ یہ کوئی فوق البشر کلام ہے ، اس لئے کبھی اسے جادوگری کہتے ، کبھی کچھ اور کہتے ، کیونکہ وہ خود سمجھتے تھے کہ یہ کوئی معمولی کلام نہیں ہے۔ اس کی ترتیب اور اس کی ساخت میں ایک فوقیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ بات وہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ کلام خود حضرت محمد ﷺ کا نہیں ہے بلکہ کسی جادو کا کرشمہ ہے۔ انسانی قوت کا کرشمہ نہیں بلکہ جادوگری ہے ، لیکن ان کو حقیقت کے اعتراف کی توفیق نہ ہوتی ورنہ وہ کہتے کہ یہ کلام الٰہی ہے کیونکہ انسان ، کوئی بھی انسان ایسا کلام پیش نہیں کرسکتا ، نہ انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق ایسا کلام بنا سکتی ہے۔
Top