Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 46
وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا
وَّجَعَلْنَا : اور ہم نے ڈال دئیے عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ نہ سمجھیں اسے وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِذَا : اور جب ذَكَرْتَ : تم ذکر کرتے ہو رَبَّكَ : اپنا رب فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَحْدَهٗ : یکتا وَلَّوْا : وہ بھاگتے ہیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِهِمْ : اپنی پیٹھ ٠ جمع) نُفُوْرًا : نفرت کرتے ہوئے
اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے ، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردیتے ہیں۔ اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
اذا ذکرت ربک فی القران وحدہ ولا علی ادبار ھم نفورا (71 : 64) ۔ ترجمہ : ” اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں “۔ یہ نفرت ان کو لفظ وحدہ سے تھی۔ کیونکہ عقیدہ توحید ان کے اجتماعی نظام کو ختم کر رہا تھا۔ ان کا اجتماعی نظام بت پرستی اور جاہلیت کے رسم و رواج پر قائم تھا ، جس میں قریش کی امتیازی حیثیت تھی ، ورنہ وہ خود جانتے تھے کہ ان کے عقائد میں کس قدر جھول ہے اور اسلام کے نظریات کس قدر پختہ ہیں۔ نیز وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قرآن ایک نہایت ہی بلند پایہ پیغام و کلام ہے۔ اور اس کی ایک امتیازی شان ہے۔ اور قرآن کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ وہ اس کی طرف کھینچے چلے جاتے تھے حالانکہ وہ اس سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی بھی کرتے تھے اور اس کے اثرات کو زائل کرنے میں جدوجہد بھی کرتے تھے۔ ان کا ضمیر اور ان کی فطرت ان کو اس بات پر مجبور کررہی تھی کہ وہ بات سنیں ، متاثر ہوں ، لیکن غرور کی وجہ سے وہ تسلیم کرنے اور یقین کرنے سے باز رو رہے تھے۔ اپنی ہٹ دھرمی اور مکابرہ کو وہ یوں چھپاتے تھے کہ رسول اللہ پر مختلف قسم کے الزامات عائد کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ آپ جادوگر ہیں۔
Top